0
Friday 27 May 2011 21:12

پاکستانی،عذاب زدہ قوم

پاکستانی،عذاب زدہ قوم
تحریر:تصور حسین شہزاد
ایک لطیفہ ہے کہ امریکی صدر اوباما اور سابق امریکی صدر بش ایک ہوٹل کی میز پر بیٹھے برگر کھاتے ہوئے مشرق وسطیٰ کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کے لئے بحث کر رہے تھے۔ بش نے کہا کہ دنیا میں قیام امن کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان، سعودی عرب، ایران، عراق، افغانستان، یو اے ای، مصر، لبنان، شام، اردن سمیت تمام مسلمان ممالک سے چن چن کر کوئی تقریباً 50 کروڑ مسلمان مار دیئے جائیں۔ اس سے دنیا میں امن ہو جائے گا۔ اوباما نے کہا ہم اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں کو مار دیں گے تو باقی دنیا کو اس عمل کا کیا جواز پیش کریں گے؟ ہمارے پاس کوئی جواز نہیں ہو گا، اس لئے اس منصوبے کو رہنے دیں، یہ قابل عمل نہیں۔ بش نے جواب میں کہا آپ اس پر عمل کریں دنیا بھر سے کوئی بھی آپ کو نہیں پوچھے گا۔ ساتھ ہی آپ کترینہ کیف کو بھی مار دیں۔ اتنے میں سعودی شاہ عبداللہ وہاں آ گئے، انہوں نے پوچھا کیا منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔؟ بش نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ دنیا میں قیام امن کے لئے دنیا کی مسلم آبادی سے 50 کروڑ مسلمانوں کو چن کرمار دیا جائے اور ساتھ ہی کترینہ کیف کو بھی مار دیا جائے۔ شاہ عبد اللہ نے فوراً کہا ”کترینہ کیف کو کیوں۔۔؟“ بش نے اوباما کو دیکھا اور زور دار قہقہہ لگایا۔۔۔ دیکھا میں نے کہا تھا نا کہ کسی نے بھی مسلمانوں کے قتل عام کا سوال نہیں کرنا۔
یہی صورتحال پوری امت مسلمہ کی ہے۔ ہمارے ہاں مسلمان کو مسلمان ہی قتل کئے جا رہا ہے، کوئی پوچھنے والا ہی نہیں، کسی بھی جگہ پر دہشت گردی ہوتی ہے ایک لیٹرپیڈ تنظیم تحریک طالبان اس کی ذمہ داری قبول کر لیتی ہے۔ اس بار تو سانحہ مہران میں طالبان نے بہت جلدی کی۔ ہمیشہ واردات کے بعد ذمہ داری قبول کی جاتی ہے لیکن اس بار ابھی واردات جاری تھی، ابھی آپریشن ہو رہا تھا کہ طالبان کا بیان آ گیا کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے، ہم نے کیا ہے۔ جب دہشت گردوں کا معائنہ ہوا تو ان میں سے دو ہندو نکلے جن کے ختنے بھی نہیں ہوئے ہوئے تھے۔ اب چونکہ ایک بھرپور مارکیٹنگ مہم سے یہ بات تقریباً طے ہو چکی ہے کہ اربوں انسان دنیا میں ہونے والی دہشت گردی کو ”جہاد“ ہی کے کھاتے میں ڈالیں گے اور اس سے اسلام ہی سے دوری پیدا ہو گی۔ اس کے نتیجے میں ان سب کی نفرت کا مرکز اسلام ہی ٹھہرے گا۔ اس لئے اس بہتی گنگا میں جو چاہے ہاتھ دھولے، ملبہ تو اسلام پر ہی گرنا ہے۔
 ایسے حالات میں بھلا کون سوچے گا کہ یہ واقعہ کس درجے کی مہارت مانگتا ہے جبکہ پاکستان کے لئے برطانوی تحفہ! ہمارے وزیر داخلہ نے خود ہی اسے فوراً طالبان کے کھاتے میں ڈال دیا۔ ان حالات میں بھلا کون غور کرے گا کہ اس وقت کس کی ضرورت ہے کہ وہ اس خطے میں اپنی آنکھ میں کھٹکنے والے واحد ملک پاکستان کے خلاف عالمی برادری کے سامنے اپنا کیس مضبوط کرے، وہ دنیا کو ایسے مسلسل واقعات سے یہ یقین دلا دے کہ پاکستان امن عالم کے لئے خطرہ ہے، اسے یا تو ”کٹ ٹو سائز“ کیا جائے، یا پھر کم از کم اس کے دانت اور ناخن (ایٹمی اسلحہ) توڑ کر اسے بے ضرر بنا دیا جائے، اس خطے میں بھوٹان، سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال کی کوئی قوت ہے نہ ان میں کوئی سکت، اگر کوئی خم ٹھونک کر کھڑا ہو سکتا ہے تو وہ صرف پاکستان ہے، اس لئے عالمی منظر نامے بالخصوص اقوام متحدہ میں اپنی جگہ بنانے کے لئے اس ملک کو اپنے راستے سے ہٹانا ہو گا اور عالمی برادری سے اس علاقے کی تھانیداری لینے کے لئے واحد رکاوٹ کو کبھی مہران بیس تو کبھی جی ایچ کیو، کبھی فوجیوں پر حملے اور کبھی بم دھماکوں کے ذریعے اتنا بدنام کرنا ہو گا کہ پھر عالمی سطح پر مقدمہ میں پاکستان کو کسی دلیل کے بغیر ہی ناکام ریاست تسلیم کر لیا جائے۔ چین اس معاملے کو سمجھ رہا ہے وہ اس منظر نامے کو ڈیولپ ہونے سے روکنا چاہتا ہے، اس لئے وہ ”دشمن کا دشمن دوست“ کے فارمولے کے تحت پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوا ہے، لیکن اگر پاکستان کا وزیر داخلہ خود دشمن کی زبان بول رہا ہو، ملک کے صدر کا بیسیوں بار جھوٹ ثابت ہو چکا ہو، وزیراعظم کو ایشوریا رائے کی پسند نا پسند قوم کی پسند نا پسند سے زیادہ پسند ہو، تو پھر جو بھی ہو وہ کم ہے۔ اس حوالے سے ہماری بے حسی اور بے شرمی انتہا کو پہنچ چکی ہے، ہم بحیثیت قوم ہی کرپٹ، بدعنوان اور بے شرم ہو چکے ہیں۔
 خروٹ آباد میں پیش آنے والے واقعہ سے ہمارے سرشرم سے جھک گئے ہیں۔ میرے اعصاب میں ایک تناﺅ ہے، دماغ پھٹنے کو ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ ہم کس راہ پر چل نکلے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ خروٹ آباد میں شہید ہونے والی ان مظلوم مسلمان عورتوں کے ساتھ دست درازی کی کوشش کی گئی تھی، ہماری غیرت مند پولیس باپ اور بیٹے کے سامنے ان کی ماں اور بہن کے ساتھ ”چھیڑچھاڑ“ چاہتی تھی، انجوائے کرنا چاہتے تھے ان غریب الوطن لوگوں کو جن سے ان کے پیٹی بند بھائی روپے پہلے ہی چھین چکے تھے، عزت اور غیرت بھی لے لینا چاہتے تھے۔ یہ تینوں مسلمان مائیں، بہنیں، بیٹیاں اپنے ”مسلمان“ بھائیوں کے ہاتھوں اپنی عفت اور عصمت کی حفاظت کے لئے دوڑ کر ایف سی اہلکاروں سے پناہ مانگنے آگے بڑھیں تھیں اور ان میں سے ایک کے پیٹ میں سات ماہ کا زندہ بچہ بھی تھا جسے اٹھا کر وہ نہ جانے کیسے دوڑی ہو گی؟ کہ کہا جاتا ہے حمل کی اس حالت میں تو ماں کو قدم بھی پھونک پھونک کر رکھنے چاہئیں، اس کیفیت میں کہ جب اسے دوا کی گولیوں کی ضرورت تھی اسے مشین گن کی گولیوں سے نوازا گیا۔ 
ان مظلوم عورتوں کے ہاتھ بھی بندھے ہوئے تھے وہ خاردار تاروں میں الجھیں، ان کے دامن اور سر کی چادریں ان کی کالی عبائیں، ان کے معصوم اور باعفت بدن ان خاردار تاروں میں الجھے اور پھر ان تاروں اور گولیوں نے سب کچھ ادھیڑ ڈالا، ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا۔ یہ خواتین ایجنٹوں کے ہاتھ لگ گئی تھیں جو انہیں پاکستان کے راستے ایران زیارات کے لئے لے جا رہا تھا، ایجنٹ تو راستے سے غائب ہو گیا، لیکن یہ مظلوم خواتین جو دل میں آئمہ کی محبت سجائے عقیدت کے سفر پر روانہ ہوئی تھیں پاکستان میں سرکاری درندوں کا نشانہ بن گئیں۔ اور اب اذیت ناک خبر یہ ہے کہ اس وحشت اور بربریت کے خلاف کوئی گواہی دینے کے لئے تیار نہیں۔ ٹربیونل منتظر ہے 4 دن سے کوئی گواہ کے طور پر نام پیش کرنے نہیں آیا، نہ جانے آئندہ دنوں میں کیا ہوتا ہے؟ 
مگر اب تک تو یہی صورتحال ہے کہ جن لوگوں نے اپنی آنکھوں سے واقعہ دیکھا تھا وہ اس کی چشم دید گواہی دینے کو تیار نہیں، اس لئے یہ مظلوم بے بس شیشانی مسلمان تو چلے گئے، پولیس اور ایف سی تو موجود ہے نا۔؟ وہ تو کچھ بھی کر سکتے ہیں۔؟ ہاں مگر ایک کوئی اور بھی تو موجود ہے؟ وہ بھی تو بہت کچھ کر سکتا ہے؟ اس کی لاٹھی بے آواز ہے، اس کی بارگاہ میں دیر ہے اندھیر نہیں، خروٹ آباد کے لوگو، پولیس والو، ایف سی والو مہلت عمل سکڑ رہی ہے۔ دیکھنا ایک نہ ایک دن بے گناہ خون ضرور بولے گا اور سرچڑھ کر بولے گا، پھر ایک عذاب اترے گا، خروٹ آباد پر ہی نہیں پورے بےحس ملک پر، بےحس اداروں اور بے حس حکومت پر، دہشت گردی کے یہ واقعات، بم دھماکے، فائرنگ، قتل و غارت بھی تو ایک عذاب ہے، ظالم اور لاتعلق حکمران بھی تو عذاب کی ایک شکل ہی ہیں، لیکن ہم سمجھتے نہیں۔ پاکستانی عذاب زدہ قوم ہیں لیکن یہ عذاب اس وقت ٹلے گا جس روز ہم نے اس کا ادراک کر لیا، ہم نے اپنے اعمال پر غور کر لیا تو ممکن ہے، ہماری تقدیر میں کچھ اچھا لکھ دیا جائے اور اگر اسی طرح ہم اجتماعی بےحسی کا مظاہرہ کرتے رہے تو عذاب جاری رہے گا۔
خبر کا کوڈ : 74954
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش