0
Sunday 23 Sep 2018 14:50

عشرہ محرم، شیعہ سنی وحدت کا مثالی اظہار

عشرہ محرم، شیعہ سنی وحدت کا مثالی اظہار
لاہور سے ابوفجر لاہوری کی رپورٹ

پاکستان میں حالیہ عشرہ محرم الحرام کے دوران جوش ملیح آبادی کے اس شعر "انسان کو بیدار تو ہو لینے دو، ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ" کی عملی تفسیر نظر آئی۔ ملک بھر میں عاشورہ محرم کے دوران برآمد ہونیوالے جلوسوں میں کئی سالوں بعد اتحاد بین المسلمین کا جو عملی مظاہرہ دیکھنے میں آیا، وہ قابل دید تھا۔ لاہور میں سنّی شیعہ مسلمان بھائیوں نے نواسہ رسولؐ حضرت امام حسینؑ کی شہادت کا غم جس طرح منایا، اس کی مثال ماضی میں 25، 30 سال قبل ملتی تھی۔ ماہ محرم الحرام کے دوران تمام مکاتب فکر کے لوگوں کی طرف سے یکم سے 10 محرم الحرام کے دوران جگہ جگہ پانی اور شربت کی سبیلوں کے ساتھ ساتھ لنگر کا وسیع انتظام دیکھنے میں آیا۔ اس موقع پر شہریوں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مسلمانوں کے کئی مسالک ہیں۔ بعض اوقات ان مسالک کے لوگ معمولی اختلاف رائے پر آپس میں دست و گریبان ہو جاتے ہیں۔ بغیر کسی تحقیق کے ایک دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگا کر باہمی نفرتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں، لیکن اب لوگوں پر یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلانے کیلئے یہ اسلام دشمنوں کی منظم سازش تھی۔

شہریوں نے مزید بتایا کہ ہم نے اس سال اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرکے دشمن کو بتا دیا ہے کہ ہم ایک تھے اور ایک ہی رہیں گے۔ شہریوں کا کہنا تھا کہ ہم سب کو نواسہ رسولؐ حضرت امام حسینؑ کا یوم شہادت انتہائی عقیدت و احترام سے منانا چاہیئے۔ حضرت امام حسینؑ اور ان کے خاندان نے قربانیاں پیش کرکے ایک تاریخ رقم کی اور اسلام کا علم بلند کیا۔ غم حسینؑ سے بڑھ کر یقیناً کائنات میں اور کوئی غم نہیں۔ شہادت امام حسینؑ ظلم و ناانصافی کے خلاف سینہ سپر ہونے کا نام ہے، امام حسینؑ کی عظیم قربانی اور شہادت ہم سب مسلمانوں کیلئے مشعل راہ ہے، ہمیں ایک دوسرے کی عزت اور احترام کرنا چاہیئے، یہی ہمارا دین اسلام سبق دیتا ہے کہ نواسہ رسول کی قربانی انسانیت پر وہ عظیم احسان ہے، جس کی مثال تاقیامت پیش نہیں کی جا سکے گی، جبکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ ’’جو لوگ دین میں تفرقہ پیدا کرتے ہیں اور مختلف ٹولیوں میں بٹ جاتے ہیں، وہ دین کے خیر خواہ نہیں۔

لوگوں کا مزید کہنا تھا کہ ماہ محرم میں نبی اکرمؐ اور ان کے نواسے امام حسین ؐسے سچی محبت رکھنے والا ہر شخص تڑپ اٹھتا ہے اور اتحاد امت کیلئے اپنی بساط کے مطابق کوشش کرتا ہے۔ یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم حضرت محمد مصطفٰیؐ کی ایک ایک ادا کو قیامت تک محفوظ رکھنا ہے۔ ہر مسلک نے اپنے علم و فہم کے مطابق قرآن و حدیث سے استنباط کرکے آپ (ص) کی مختلف اداؤں کو اپنایا ہوا ہے اور یہ سارے راستے اللہ اور اس کے رسول اکرمؐ کی اطاعت میں محبت رسول اکرمؐ کی شاہراہ سے گزرتے ہوئے اْخروی نجات اور جنت کی طرف جاتے ہیں۔ علماء کا کہنا تھا کہ یاد رکھیے! اسلام فتویٰ سے نہیں، تقویٰ سے پھیلا ہے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا اللہ نے ایک موقع پر فرمایا تھا ’’کوئی تمہاری راہ میں کانٹے بچھائے تو تم جواب میں کانٹے مت بچھاؤ، ورنہ دنیا میں کانٹے ہی کانٹے رہ جائیں گے، پھولوں کا نام و نشان تک مٹ جائے گا۔" ایک مرتبہ حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کی خدمت میں ان کے ایک عقیدتمند نے بطور نذر قینچی پیش کی تو آپ نے فرمایا ’’مجھے قینچی نہ دو میں کاٹنے والا نہیں ہوں، مجھے سوئی دو کہ میں جوڑنے والا ہوں۔‘‘

ہمارے زوال کا اصل سبب آپس میں تفرقہ بازی اور گروہ بندی ہے۔ اسلام دشمن طاقتوں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کے مختلف مسالک کے علمائے کرام کو آپس میں لڑوایا جائے، تاکہ اِن کی قوت مضبوط نہ ہوسکے۔ اس سلسلہ میں اسلام دشمن طاقتیں غیر مرئی طریقے سے ہر قسم کے وسائل بروئے کار لاتی ہیں۔ چنانچہ جب مسالک کے درمیان نفرت و عداوت کی آگ بھڑکتی ہے تو اِن کے درمیان اتحاد و اتفاق ختم ہو جاتا ہے۔ اِس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر اسلام کیخلاف نئے نئے فتنے سر اٹھانے لگتے ہیں، جس میں سراسر نقصان صرف اسلام اور مسلمانوں کا ہوتا ہے۔ ممتاز دیوبندی عالم دین اور کل مسالک علماء بورڈ کے سربراہ مولانا عاصم مخدوم کا "اسلام ٹائمز" سے خصوصی گفتگو میں کہنا تھا کہ کاش تفرقہ بازی کی تعلیم دینے والوں کو معلوم ہوتا کہ کسی کو مسلمان بنانا کتنی محنت، مشقت، ریاضت اور دلسوزی کا کام ہے اور پل بھر میں کسی کو کافر بنا دینا کتنی بڑی جسارت ہے۔ ہم زبان کی ایک ہی حرکت سے لاکھوں مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتے ہیں۔ کاش! ہم میں سے کسی نے اپنے کردار، اخلاق، علم، عمل اور محبت کے ساتھ کسی غیر مسلم کو حلقہ بگوش اسلام کیا ہوتا تو ہمیں اْس کی قدر و قیمت کا احساس ہوتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ فرقہ واریت کا ناسور ہمارے معاشرے میں کس قدر سرایت کرچکا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج کا مسلمان خود کو مسلمان کہلوانے کے بجائے اپنے مسلک کو ترجیح دیتا ہے۔ ہمیں مسلک کے حصاروں سے نکل کر بطور مسلمان سوچنا ہوگا، بطور امت سوچنا ہوگا۔ مولانا عاصم مخدوم نے کہا کہ پاکستان کا آئین ہر مسلک و مذہب کو مکمل مذہبی آزادی دیتا ہے، کیوں نہ ہم بھی آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے عقیدے کا احترام کریں۔ انہوں نے کہا کہ میرے عقیدہ میں ماتم کرنے کی اجازت نہیں، مگر جس کا عقیدہ ماتم کرنے کی اجازت دیتا ہے، اسے روکنے کا بھی مجھے حق نہیں، میں کون ہوتا ہوں کہ کسی کو اس کے عقیدے پر عملدرآمد سے روکوں؟ انہوں نے کہا کہ ہر شخص اپنے عقیدے پر عمل درآمد کیلئے آزاد ہے۔ اس لئے جو امت میں تفرقہ ڈالتا ہے، وہ مسلمان نہیں بلکہ اسلام دشمنوں کا ایجنٹ ہے۔

ممتاز شیعہ عالم دین مولانا محمد رضا عابدی نے "اسلام ٹائمز" سے گفتگو میں کہا کہ ہمارے سٹیج سے ہمیشہ وحدت کا پیغام دیا گیا ہے۔ ہم نے ہمیشہ بھائی چارے اور اتحاد کی بات کی ہے، ہاں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو دونوں طرف ہیں، وہ تفرقے کی بات کرتے ہیں، تو ان کا علاج یہ ہے کہ ان کی حوصلہ شکنی کی جائے، انہیں سٹیج پر ہی نہ آنے دیا جائے۔ اب عوام بھی باشعور ہوچکے ہیں، معاشرے میں برداشت کا کلچر بنتا جا رہا ہے، مزید اس پر علماء اگر کام کریں تو اس میں مزید بہتری بھی آسکتی ہے۔ مولانا محمد رضا عابدی کا کہنا تھا کہ اس محرم الحرام کے پہلے عشرے میں آپ نے وحدت کا جو مظاہرہ دیکھا ہے، یہ مثالی ہے، اس میں اہلسنت ہی نہیں دیگر مذاہب کے لوگوں نے بھی عزاداری کے پروگرامز میں شرکت کی ہے۔ سکھ، ہندو اور مسیحی رہنما بھی شریک ہوئے۔ یہ ایک مثبت پیشرفت ہے۔ اسے مزید وسعت دی جانی چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 751639
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش