0
Friday 19 Oct 2018 21:30

محمد بن سلمان کے ایڈوینچرز

محمد بن سلمان کے ایڈوینچرز
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

بادشاہتیں خاندانی نظام حکومت کے طور پر قائم ہوتی ہیں اور شخصی مفادات کے تحت کام کرتی ہیں۔ ریاست کا وہی مفاد ہوتا ہے، جو صاحب اختیار کا مفاد ہوتا ہے، صبح کے دشمن شام کے دوست اور شام کے دوست صبح کے دشمن بن سکتے ہیں۔ اس لئے جو لوگ درباروں اور شاہوں سے وابستہ ہوتے ہیں، وہ اپنے مفادات اور نظریات کا سودا کرکے ہی عہدہ کو حاصل کرتے ہیں۔ آل سعود میں ایک نظام جاری تھا کہ باپ کی وفات کے بعد ایک کے ایک بعد ایک بھائی بادشاہ بن رہے تھے، ہر نیا آنے والا زندگی میں ہی ولی عہد بنا لیتا تھا، تاکہ وہ امور سلطنت کو  سیکھ لے اور جب بادشاہ  دنیا سے رخصت ہو جائے تو وہ اس کی جگہ لے لے۔ ملک سلمان اسی طریقہ کار کے مطابق بادشاہ بنے، مگر انہوں نے بجائے کسی بھائی کو ولی عہد نامزد کرنے کے بیٹے محمد کو ولی عہد بنا دیا۔ اس عمل سے شاہی خاندان میں کافی اضطراب پیدا ہوا، جس کی بازگشت کافی دور تک سنی گئی، مگر مخالف آوازوں کو دبا دیا گیا۔ شہزادہ محمد صرف ولی عہد نہیں بنا بلکہ اس نے تمام اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ یہاں تک بھی بات قابل قبول رہتی مگر اس نے اپنی ناتجربہ کاری اور راتوں رات اقتدار پر مکمل قبضے کی خواہش کی وجہ سے بہت سے ایسے ایڈونچرز کئے جن کی وجہ سے  سعودی عرب بالخصوص اور خطے کے ممالک بالعموم  مسائل کا شکار ہوگئے ہیں۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ لبنان کے منتخب وزیراعظم سعد الحریری سعودی عرب کے دورے پر گئے تھے اور وہیں سے ان کا استعفٰی سامنے آیا، جس کو پوری دنیا کے میڈیا نے نمایاں جگہ دی تھی، مگر اس کے ردعمل میں لبنان کے صدر نے کہا تھا کہ ہمارے وزیراعظم سے یہ استعفیٰ زبردستی لیا گیا ہے اور انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ اس طرح یہ تنازع ایک سفارتی کرائسز کی صورتحال اختیار کر گیا تھا، بعد میں فرانس کی مداخلت پر انہیں رہائی ملی اور ان کا استعفیٰ بھی واپس ہوا تھا۔ یہ شہزادہ محمد کا بڑا ایڈونچر تھا، جو ناکامی سے دوچار ہوا۔ یمن کے سیاسی حالات اور وہاں کے عوام  کی بیداری کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ یمن پر بھی براہ راست حملہ کیا جائے گا۔ پوری دنیا یہ کہہ رہی تھی کہ آپ یمن پر حملہ نہ کریں، یہ حملہ آپ کے گلے پڑے گا، مگر اختیار چیز ہی ایسی ہے، جو حکمت کی ہر بات سے دور کر دیتی ہے۔ مشرق و مغرب سے جمع کیا گیا اسلحہ اور اپنی فوجوں کی تربیت کا بھی امتحان لینا تھا، اس لئے یمن پر حملہ کیا گیا۔ یمن پر اس حملے کے نتیجے میں لاکھوں بے گناہ لوگ مارے گئے، اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا، رہی سہی کسر ہیضہ کی وبا اور قحط نے نکال دی۔ اس ایڈونچر کا نتیجہ کیا نکلا؟ اس کا نتیجہ بھی ایک شکست کی صورت میں ہی نکلا، جو صورتحال حملہ کرتے وقت تھی، وہی صورتحال آج بھی قائم ہے، اس ایڈونچر کے نتیجے میں سعودی عرب کے حصے میں مظلوم یمنیوں کی آہیں اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی بددعائیں ہی آئیں۔

سعودی عرب ان ممالک میں سے ہے، جنہوں نے شام کی جنگ کو بڑے منظم انداز میں فکری، افرادی اور عملی قوت فراہم کرکے  آگے بڑھایا۔ سعودی عرب کا خیال تھا کہ بہت جلد شام کی صورت میں ایک اتحادی ملنے والا ہے، جو اس کا فرمانبردار بھی ہوگا۔ النصرہ سے لیکر جیش الاسلام تک بڑے بڑے گروہوں کو بے تحاشہ فنڈنگ دی گئی، اسلحہ اور  گاڑیاں فراہم کی گئی، جس کی وجہ سے شام پچھلے کئی سال سے جنگ میں جل رہا ہے اور شامی مشرق و مغرب میں بے یارو مدگار پڑے ہیں۔ اتنی بڑی سرمایہ کاری کے بعد نتیجہ کیا نکلا؟ یہ ایڈوینچر بھی گلے میں پڑ گیا اور بڑی تعداد میں لوگ قتل ہوچکے ہیں، ان کو فراہم کئے گئے وسائل شام کو برباد کرنے میں صرف ہوچکے ہیں اور کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا اور شام پر بشار کی حکومت اسی طرح قائم ہے۔ محمد بن سلمان کا ایک ایڈونچر اپنے امیر رشتہ داروں کو گرفتار کرنا تھا، عجیب بات یہ ہے کہ انہیں گرفتار کرنے کے بعد فائیو سٹار ہوٹلوں میں رکھا گیا، جہاں انہیں خوب بلیک میل کرنے کے بعد کئی ارب ڈالر ان سے نکلوائے گئے۔ یہ بھی اس بات کا اظہار تھا کہ خاندانی اختلافات عروج پر ہیں، جو باہم حل نہیں ہوسکے، اس لئے انہیں گرفتار کیا گیا۔ اس ایڈونچر نے بھی شاہی خاندان کی ٹوٹ پھوٹ میں اضافہ کیا۔

شہزادہ محمد نے شام میں گروہوں کی حمایت، یمن، اخوان اور الجزیرہ سمیت کئی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے قطر سے اپنے تعلقات کو ختم کر دیا۔ یہ خطے کا بڑا سفارتی بحران تھا، جس میں جی سی سی  کے دو ممبر عرب مسلمان ممالک باہم دست و گریبان تھے۔ یہ بحران اس قدر بڑھا کہ سعودی صحرا میں چرنے والے قطری اونٹوں کو بھی قطر کی طرف ہانک دیا گیا۔ اب کچھ عرصہ پہلے یہ خبر آئی کہ  قطر کو جزیرے میں تبدیل کرنے کے لئے کئی ملین ڈالر کی لاگت سے قطر کے گرد ایک نہر کھودی جا رہی ہے۔ا س ایڈونچر کا نتیجہ بھی صفر نکلا ہے، کیونکہ قطر فیفا کی میزبانی کے لئے تیار ہے اور کھانے پینے کے جس بحران کا کہا جا رہا تھا، اس کو بڑی مناسب حکمت عملی سے روک دیا گیا۔ قطری معیشت بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان کا تازہ ایڈونچر واشنگٹن پوسٹ کے مشہور صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا ہے۔ یہ عجیب غریب ایڈونچر ہے، جس میں اپنے ہی ملک کے صحافی کو جو کہ امریکی شہریت بھی لے چکا ہے، سفارتخانے میں بلا کر بڑی بے دردی سے قتل کر دیا گیا ہے اور بعض خبروں کے مطابق الٹا لٹکا کر قتل کیا گیا اور پھر ان کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے۔ یہ واقعہ پچھلے دو ہفتوں سے بین الاقوامی ایشو بنا ہوا ہے اور یہ ایڈونچر محمد بن سلمان کے گلے پڑا ہوا ہے۔

ایک طرف ترکی ہے اور دوسری طرف امریکہ اور یورپی ممالک ہیں، جو اس قتل کی درست تحقیق اور ذمہ داری کی صورت میں نتائج بھگتنے کا کہہ رہے ہیں۔ اس پر امریکی ردعمل بڑا عجیب ہے، لگ یوں رہا ہے کہ صدر ٹرمپ اس  قتل پر بھی بزنس کر رہا ہے، اس نے پہلا بیان بڑا شدید دیا کہ اگر سعودی عرب کا ہاتھ ثابت ہوا تو کارروائی ہوگی اور جب سعودی عرب کا موقف آیا کہ ہم اسلحہ کے ایک سو بیس ارب ڈالر کے سودوں پر نظرثانی کریں گے تو ٹرمپ نے  سعودی کنگ سے بات کی اور بیان دیا کہ انہوں  بدمعاشوں اور قاتلوں نے قتل کر دیا ہوگا، اس کی تحقیق ہونی چاہیئے۔ ممکن ہے ٹرمپ سعودیہ کو  کلین چٹ دے دیتے، مگر مڈٹرم انتخابات درپیش ہیں اور ساتھ میں امریکی سینیٹ سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے، جس کی وجہ کچھ گرم بیانات  دیئے گئے، ورنہ دونوں کا ایک دوسرے کے بغیر گزارہ نہیں ہے۔ یہ ایڈونچر بھی شہزادہ محمد کے گلے پڑتا نظر آرہا ہے۔ محترم شہزادہ محمد بن سلمان آپ کے ایڈونچرز کی وجہ سے خطہ عدم استحکام سے دوچار ہے، مسلمان قتل ہو رہے ہیں، ان کے شہر ویران ہو رہے ہیں اور انہی کی  خواتین بیوہ اور بچے یتیم ہو رہے ہیں، اس لئے آپ ان ایڈونچرز کی جگہ  لوگوں کو امن دینے کی کوشش کریں، امن کے ذریعے جو تبدیلی آئے گی  وہ دیرپا ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 756749
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش