0
Friday 26 Oct 2018 16:34

ہمارا معاشی بحران اور نئے پاکستان سے نئے سعودی عرب کی توقعات

ہمارا معاشی بحران اور نئے پاکستان سے نئے سعودی عرب کی توقعات
تحریر: تصور حسین شہزاد

وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ’’کامیاب‘‘ دورہ سعودی عرب پر پی ٹی آئی کے ’’کھلاڑی‘‘ بغلیں بجا رہے ہیں، جبکہ اپوزیشن والے ابھی تک اس معاہدے میں کیڑے ڈھونڈ رہے ہیں کہ کہیں سے کوئی منفی بات نکل آئے، تو وہ بھی تنقید کی توپوں کے رخ عمران خان کی طرف کر لیں، مگر ابھی تک انہیں کوئی ٹھوس بات نہیں ملی، البتہ آئیں بائیں شائیں ضرور کی جا رہی ہے۔ بہرحال پاکستان کو پہلی بار ایسا وزیراعظم ملا ہے جو اپوزیشن سمیت تمام مخالفین کی تنقید سے بے نیاز اپنی ہی دھن میں مگن اپنے کام میں مصروف ہے۔ عمران خان کے حالیہ دورہ سعودی عرب کو مختلف تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ سعودی عرب سے ملنے والے پیکیج کو بھی مبصرین چھان پھٹک کر دیکھ رہے ہیں کہ سعودی حکمرانوں نے آخر یہ ’’مہربانی‘‘ کس لئے دکھائی ہے۔ حالانکہ یہی سعودی حکمران نواز شریف کو ’’جھنڈی‘‘ کرا چکے تھے۔ پاکستان کیساتھ بھی ان کے تعلقات سرد مہری کا شکار تھے، مگر پاکستان میں حکومت بدلتے ہی سعودیوں کی سوچ بھی بدل گئی۔ سعودی حکمرانوں کو اُمید دکھائی دینے لگی کہ جو کام وہ نواز شریف سے نہیں کرا سکے، وہ اس نئے وزیراعظم سے کروا لیں گے۔

سعودی عرب نے کن شرائط پر یہ ’’مہربانی‘‘ کی ہے، اس حوالے سے دو اہم ترین نکات سامنے آئے ہیں۔ پہلا نقطہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ یمن سعودیہ جنگ میں پاکستان ثالث کا کردار ادا کرے گا اور دوسرا نقطہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے دوست ترکی کو سمجھائے گا کہ وہ عرب صحافی خشوگی کے قتل کے ایشو کے حوالے سے ہاتھ ہلکا رکھے۔ سعودی عرب اب یمن جنگ میں مار کھا کھا کر ادھ مُوا ہوچکا ہے۔ وہ اب اس ’’کمبل‘‘ کو چھوڑنا چاہتا ہے، مگر کمبل چونکہ اسے چھوڑ نہیں رہا، اس لئے اسے پاکستان کی امداد کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ یمن میں سعودی عرب نے بے پناہ بمباری کی، لاکھوں لوگوں کی زندگی تباہ کر دیں، انفراسٹرکچر ملیا میٹ کر دیا، سکولوں اور ہسپتالوں تک کو نہیں چھوڑا گیا۔ اب یمن میں لاشوں کے ڈھیر اور بھوک سے بلکتی انسانیت کی آہیں سعودی زوال کا باعث بننے لگیں تو اُسے اس جنگ سے نکلنے کا خیال آگیا۔ اس حوالے سے اب پاکستان کو گھیسٹا جا رہا ہے کہ وہ جنگ بندی کیلئے کردار ادا کرے۔

پاکستان چونکہ ایران کے قریب بھی ہے اور سعودی عرب کیلئے بااعتماد بھی، اس لئے یہ کام وہ بہتر انداز میں سرانجام دے سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب پاکستان کیا کرتا ہے، جبکہ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان کا یمن کے معاملے سے کوئی تعلق نہیِں، ہم صرف ثالثی کرکے دو مسلمان ممالک کے درمیان تصفیہ کروائیں گے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کہتے ہیں کہ یمن کا اس امداد سے کوئی تعلق نہیں، پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے، اس کی فوج سب سے بڑی ہے اور جب وزیراعظم عمران خان جیسا آدمی اقتدار میں آتا ہے تو اس کا فائدہ یہ ہے کہ آپ کو لیڈر شپ مل جاتی ہے اور عمران خان کو پوری اسلامی دنیا سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے اور ان کی بات سنتی ہے۔ عمران خان نے گذشتہ دورے میں بھی سعودی عرب سے بات کی کہ آپ کو اپنے تنازعات خود حل کرنا چاہیئے۔ دوسری جانب مبصرین نے اس دورے کو سراہا ہے، کہتے ہیں کہ عمران خان نے یمن جیسے اہم مسئلے پر درست پوزیشن اختیار کی ہے۔

پاکستان کے ثالثی کے کردار سے سعودی عرب اور ایران سمیت ساری اُمت مسلمہ کو فائدہ ہوگا جبکہ عالمی سطح پر پاکستان کا قد بڑھے گا۔ مبصرین کے مطابق وزیراعظم کا یمن کے حوالے سے اعلان اس لحاظ سے بھی خوش آئند ہے کہ وہ نہ صرف ملکی معاملات کیلئے فکر مند ہیں بلکہ وہ اسلامی دنیا کے معاملات پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور ان کے مسائل کے حل کیلئے فکر مند ہیں۔ مبصرین نے وزیراعظم کے خطاب کو بھی بہترین قرار دیا ہے، کہتے ہیں وزیراعظم کے خطاب سے ان کی راست گوئی اور بے باکی جھلک رہی تھی۔ مبصرین نے یمن کے حوالے سے مزید یہ بھی کہا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا ہے، ابھی یمن نے نہیں کیا۔ یمن کے معاملے میں کئی شراکت دار ہیں۔ یہ سلسلہ یمن سے ہوتا ہوا ایران تک جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حوثیوں کا اپنا موقف ہے، جو مدلل ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کی ثالثی کے حوالے سے ایران کیا کہتا ہے۔ بعض مبصرین نے کہا کہ یہ معاملہ کافی الجھا ہوا ہے۔ پاکستان کو یمن کے معاملے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملنے والی۔

اُدھر یمن سے زیادہ سعودی عرب کیلئے ایک اور بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے، وہ ترکی میں عرب صحافی خشوگی کا قتل ہے، جسے سعودی سفارتخانے کے اندر قتل کیا گیا۔ خشوگی کا نہ صرف قتل کیا گیا بلکہ انتہائی وحشیانہ انداز میں اس کی لاش کے ٹکڑے کئے گئے۔ ایسی حیوانیت کی اُمید صرف سعودی بدوؤں سے ہی کی جا سکتی ہے، جو اپنے مخالفین کیلئے کچھ بھی کر گزرنے سے گریز نہیں کرتے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ خشوگی کا قتل سعودی عرب کیلئے بڑا مسئلہ ہے۔ سعودی حکمرانوں کو توقع نہیں تھی کہ ایک صحافی کے قتل کا اتنا زیادہ ردعمل آ جائے گا۔ مبصرین کے مطابق عمران خان کو امداد کے بدلے یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ ترکی سے بات کریں اور ترکی کو سعودی عرب کے حق میں ہموار کریں۔ سعودی یہ چاہتے ہیں کہ ترکی خشوگی کے معاملے کو زیادہ نہ اُچھالے۔ پاکستان کو ترکی کو سمجھانے کا ہدف دیا گیا ہے کہ وہ خشوگی کے سعودی قاتلوں کے ٹرائل پر راضی ہو، یہ معاملہ یمن سے زیادہ خطرناک ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے اندر بھی کچھ لوگ ایسے موجود ہیں، جو پاکستان کے دوسرے ممالک کیساتھ تعلقات بالخصوص چین اور مشرق وسطیٰ کے حوالے سے امریکی مداخلت میں کہیں نہ کہیں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں، جو چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی روابط میں روڑے اٹکانے میں پیش پیش ہیں۔ میرے خیال میں پاکستان کو اب آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ وزیراعظم کے دورے سے بہت سے فوائد حاصل ہوں گے، چین کے دورے سے بھی ایسی ہی توقعات ہیں، جو سعودی عرب نے مدد کی ہے، چین کے دورے کے بھی پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات پڑیں گے۔ بہرحال زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستانی قوم پر اس وقت جو مشکل صورتحال چل رہی ہے، یہ عارضی ہے، عمران خان اس پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے، مگر یہ سوال ابھی بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ کس قیمت پر؟

کیونکہ سعودی عرب کے حوالے سے روزِ اول سے یہی ہوتا آیا ہے کہ اس نے پاکستان کو اپنے مفاد میں استعمال کیا ہے۔ ہم اسلامی بھائی چارے کی مروت میں اس کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں اور اس سے اپنی ضرورت کا مفاد بھی لے لیتے ہیں، مگر جو سعودی عرب اس مفاد دینے کے بدلے میں ہم سے مفاد لیتا ہے، وہ اس سے کہیں بڑا ہوتا ہے، جو وہ ہمیں دیتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کن شرائط پر ’’ہاں‘‘ کہہ آیا ہے اور مستقبل میں پاکستان کا خطے میں کیا کردار ہوگا۔ مگر حکومت کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیئے کہ سعودی یاری کے زعم میں پاکستان کے ہاتھ بھی بیگناہوں کے خون سے رنگین نہ ہو جائیں۔ نیا پاکستان اور نئے شاہ سلمان کے نئے سعودی عرب میں اب کچھ نیا ہی ہونا چاہیئے، وہ پرانی باتیں اور کرائے کے سپاہیوں کا کردار اب تبدیل ہونا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 757943
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش