2
0
Wednesday 14 Nov 2018 18:54

بی بی سی اردو کی خبریں اور تجزیات

بی بی سی اردو کی خبریں اور تجزیات
تحریر: سید اسد عباس

مغربی ذرائع ابلاغ کی کسی بھی خبر پر من و عن یقین کرنا جبکہ معلوم ہو کہ یہ میڈیا بڑی حد تک اپنی ریاستوں کے مفادات کا محافظ ہے، ان کی اس خطے کی سیاست اور معاشرے میں دلچسپیاں ہیں، وہ اور ان کی ریاستیں ہمارے خطے میں پالیسیوں اور معاشرے پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں، بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے انداز کو سمجھنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے۔ وہ لوگ معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں اور اپنی خبروں کو ایسا رنگ دیتے ہیں، جس سے ادارہ خبر دیتا ہوا ہی محسوس ہوتا ہے، تاہم وہ رائے عامہ کے استوار کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ہمارے معاشروں میں نفوذ کے سبب اب جنگ فقط ہتھیاروں کی جنگ نہیں رہ گئی۔ یہ جنگ، جنگ نرم میں بدل چکی ہے، جس کا ریاستوں اور اس کے اداروں کو بہت اچھی طرح ادراک ہے۔

بی بی سی برطانیہ کا ایک اہم اور قدیم ترین نشریاتی ادارہ ہے، جو عرصہ دراز سے صحافتی ذمہ داریاں انجام دے رہا ہے۔ یہ نشریاتی ادارہ ویسے تو آزاد پالیسی کا حامل ہونے کا دعویٰ دار ہے، تاہم اپنے ریاستی مفادات کی پھرپور ترجمانی کرتا ہے۔ بی بی سی اردو کی خبروں اور تجزیات کے حوالے سے چند ایک مثالیں پیش کرکے میں اپنے اصل موضوع کی جانب آوں گا۔ گذشتہ دنوں یوم اقبال کے موقع پر بی بی سی اردو نے شاعر مشرق، حکیم الامت، مسلمان فلاسفر، خالق تصور پاکستان علامہ محمد اقبال کے معاشقوں کے حوالے ایک رپورٹ شائع کی۔ جس میں ایک جرمن خاتون ایما کو لکھے گئے علامہ اقبال کے خطوط کا حوالہ نیز ان کی شاعری کو بھی پیش کیا گیا۔ یہ مضمون سوشل میڈیا کے ذریعے میری نظر سے گذرا۔ حکیم الامت کا عاشق قرآن و رسول اور ہمدرد قوم و ملت ہونے کا وہ تاثر جو ہم اپنی نسلوں کو دینے کی کوشش کرتے ہیں، کے برخلاف بی بی سی اردو کی اس رپورٹ میں اقبالیات کا ایک نیا پہلو بیان کیا گیا تھا۔ بی بی سی اردو کی اس رپورٹ کا اقبال ایک عاشق مزاج شخص ہے، جو جرمن خاتون کے عشق میں اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا ہے، دو بچوں کا باپ ہونے کے باجود ایما کی یاد میں ٹھنڈی آہیں بھرتا ہے، نہ فقط ایما بلکہ عطیہ فیضی نامی کوئی خاتون بھی اقبال کے حلقہ یاراں میں شامل تھی۔

رپورٹ کا آغاز علامہ اقبال کے ان الفاظ سے ہوتا ہے، جو انہوں نے ایما کو جرمن زبان میں لکھے گئے خط میں لکھے: "میں زیادہ لکھ یا کہہ نہیں سکتا، آپ تصور کرسکتی ہیں کہ میری روح میں کیا ہے۔ میری بہت بڑی خواہش ہے کہ میں دوبارہ آپ سے بات کرسکوں اور آپ کو دیکھ سکوں، لیکن میں نہیں جانتا کیا کروں۔ جو شخص آپ سے دوستی کرچکا ہو، اس کے لئے ممکن نہیں کہ وہ آپ کے بغیر جی سکے۔ براہِ کرم میں نے جو لکھا ہے اس کے لئے مجھے معاف فرمائیے۔" بی بی سی اردو کی اقبال کے حوالے سے اس رپورٹ کے مصنف ظفر سید مزید لکھتے ہیں: "ایما سے اقبال کے تعلق کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی، تاہم ایما نے اقبال کی "میوز" بن کر ان کی شاعری میں وہ کسک اور دردمندی پیدا کر دی جس سے ان کی شاعری عبارت ہے۔

ان کے کلام میں کئی نظمیں ایسی ہیں جو اس دور کی یادگار ہیں۔
اوپر دی گئی مثالوں کے علاوہ "حسن و عشق،۔۔۔ کی گود میں بلی دیکھ کر، چاند اور تارے، کلی، وصال، سلیمیٰ، عاشقِ ہرجائی، جلوۂ حسن، اخترِ صبح، تنہائی اور دیگر کئی نظمیں شامل ہیں، جن پر ایما سے تعلق کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ اقبال اور ایما کا ملاپ نہیں ہوسکا، لیکن اردو دنیا کو پھر بھی ایما کا شکرگزار ہونا چاہیئے کہ ان کی بدولت اردو کو چند لازوال رومانوی نظمیں مل گئیں۔ اقبال یقیناً ایک انسان تھے، ان کا شعری ذوق اس بات کا آئینہ دار ہے کہ وہ حساس دل و دماغ کے مالک تھے۔ کسی خاتون سے محبت ہو جانا ایک انسان اور شاعر کے لئے تو بہت فطری ہے، تاہم جس انداز سے بی بی سی اردو کے اس مضمون میں اقبال کا آپریشن کیا گیا ہے، اس سے ان کی کہی ہوئی سب باتیں، امت کو مجتمع کرنے سے متعلق اشعار، خودی، شہبازی سب ہوا ہو جاتی ہے۔

اسی طرح بی بی سی کی رپورٹس کا ایک اور سلسلہ مردوں اور خواتین کے خفیہ تعلقات سے متعلق ہے، جو بی بی سی اردو کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تحریروں میں سے ایک ہے، یعنی معاشرے کا ایک بڑا حصہ جو بی بی سی اردو کو استعمال کرتا ہے، ان خبروں کو دیکھ اور پڑھ رہا ہے۔ یہ بھی ہمارے معاشرے کو ایک خاص سمت میں لے جانے کی ایک کاوش و کوشش ہے۔ میں نہیں کہتا کہ یہ سب باتیں حقیقت نہیں رکھتی ہیں، یقیناً ان میں سے کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہے، تاہم ان باتوں میں حقیقت کا پہلو ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی کا پہلو بھی موجود ہے۔ جو ہمارے نوجوانوں کو اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ان کی خفیہ حرکات کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہیں بلکہ معاشرے میں یہ چیز موجود ہے اور ہر کوئی اسے ہماری ہی مانند خفیہ انداز سے انجام دے رہا ہے۔ حوصلہ افزائی کا پہلو آزادی اظہار کے پہلو سے زیادہ خطرناک ہے۔ مجرم کو جب تک احساس تنہائی ہو، وہ جرم کو حوصلہ سے انجام نہیں دیتا، لیکن جب اسے معلوم ہو کہ اس جرم میں وہ تنہا نہیں تو پھر اس کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں۔

بی بی سی کی سبھی خبروں کو تقریباً اسی انداز سے تنقیدی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ ان خبروں اور رپورٹس کے اندر خبر کے ساتھ ساتھ پیغامات بھی چھپے ہوتے ہیں، جو خود بخود اذہان تک پہنچ کر انسانی شخصیت اور سماجی اقدار کا حصہ بن جاتے ہیں۔ بی بی سی کی خبریں پڑھنے والا ہر شخص اس سمجھ بوجھ کا حامل نہیں ہے کہ وہ ان چھپے ہوئے پیغامات اور خبر کے درمیان تمیز کرسکے، لہذا رائے عامہ کا تشکیل پانا ایک حتمی امر ہے۔ جہاں مغربی ذرائع ابلاغ کی خبروں پر آنکھیں بند کرکے یقین کرنا مشکل ہے، وہیں آزادی صحافت کے پردے میں ان سے مکمل طور پر پہلو تہی بھی نہیں کی جاسکتی۔ مغربی میڈیا ہماری علاقائی اور قومی زبانوں میں خبریں نشر ہی اس لئے کرتا ہے کہ معاشرے کے ایک بڑے طبقے کو اپنی خبر کے ذریعے گمراہ کیا جاسکے۔

بی بی سی اردو گذشتہ کافی عرصہ سے چین کے صوبہ سنکیانگ کے مسلمانوں کی حالت زار پر خبریں شائع کر رہا ہے۔ وہاں بسنے والے اویغور مسلمانوں کی قید و بند کی داستانیں بی بی سی اردو کے صفحات پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ حال ہی میں گلگت بلتستان کے تاجروں کی ایک خبر شائع ہوئی ہے، جس میں وہ حکومت پاکستان سے سنکیانگ صوبے میں قید اپنی بیویوں کی رہائی کے لیے مدد کی اپیل کر رہے ہیں۔ یہ معاملہ سی پیک کے تناظر میں بہت اہمیت کا حامل ہے، چین اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے اقتصادی تعلقات، ہماری معاشی ترقی، چین کے دنیا میں ایک معاشی قوت کے طور پر ابھرنے کے بیچوں بیچ وہاں کی مسلمان آبادی پر مظالم کی داستانیں قطعاً بھی غیر اہم نہیں ہیں۔

اویغور مسلمانوں کی برین واشنگ کیوں کی جا رہی ہے؟ کیا واقعی ایسا ہو رہا ہے؟ سنکیانگ میں مسلمانوں کی حالت زار کیا ہے؟ وہ اویغور مسلمان جو مختلف ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں، ان کی باتوں میں کس حد تک صداقت ہے؟ ان تمام باتوں سے پہلو تہی ممکن نہیں ہے۔ اگر اویغور مسلمانوں کی حالت زار سے متعلق خبر رسانی کا کام فقط بی بی سی اردو کے ہی ذمہ رہا تو بہت جلد پاکستان میں چینی حکومت کے مسلمانوں پر مظالم کے حوالے سے رائے عامہ تیار ہو جائے گی اور اس کے بعد چین سے معاشی تعلقات ایک سکیورٹی تھریٹ کی صورت میں ہمارے سامنے ہوں گے۔ لہذا ارباب اقتدار کو اس سلسلے میں قبل ازیں اقدامات لینے چاہیں۔
خبر کا کوڈ : 761271
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Russian Federation
بہت اہم نکات کی طرف توجہ دلائی ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ، مغرب کے جاسوسی ادارے، مغرب کا استعماری نظام، مغربی جاسوسی اداروں کی جاری سرگرمیاں یہ سب نشر ہونا چاہیے۔ ہمیں مغرب نے جکڑ رکھا ہے۔ اس سے نجات کے لئے دشمن شناسی ضروری ہے اور دشمن شناسی کے لئے محترم کالم نگار نے بہت اچھے موضوع کا انتخاب کیا ہے۔ بیداری اور شعور کے اس سلسلے کو جاری رہنا چاہیے۔
معیز عالم
India
بہت ھی معلوماتی تحریر
ہماری پیشکش