0
Thursday 22 Nov 2018 09:36

نبیؐ رحمت کے ماننے والے زحمت نہ بنیں

نبیؐ رحمت کے ماننے والے زحمت نہ بنیں
تحریر: ثاقب اکبر
 
ان دنوں فضائیں عطرِ یادِ مصطفیٰ سے معطر ہیں، ذکر نبیؐ رحمت کی محفلیں سجی ہیں، محبوب خدا کی محبت کے گیت گائے جا رہے ہیں، احمد مجتبیٰ کی ولادت باسعادت کے روز کی خوشی میں زمین و آسمان عاشقان مصطفیٰ کے ساتھ شریک ہیں اور درود و سلام کے زمزمے ہر طرف سنائی دے رہے ہیں۔ ان دنوں اللہ اور اس کے فرشتوں کے ساتھ امت مصطفیٰ درود و سلام بھیجنے میں کچھ زیادہ ہی ہم آہنگ ہوگئی ہے اور ہونا بھی چاہیئے چونکہ پوری کائنات نبی کریم پر درود و سلام بھیجتی ہے، چنانچہ سنن ترمذی میں امیرالمومنین امام علی ؑ سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں:"میں نبی اکرم کے ساتھ مکہ میں تھا، جب ہم مضافات شہر کی طرف نکلے تو جو بھی پہاڑ اور درخت آپ کے سامنے آتا السلام علیک یا رسول اللہ کہتا۔" (حدیث ۶۲۶۳) نبی کریم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہ رحمت للعالمین ہیں، سارے جہانوں کے لئے رحمت ہیں، سارے زمانوں کے لئے رحمت ہیں، سب سرزمینوں کے لئے رحمت ہیں اور سب مخلوقات کے لئے رحمت ہیں۔ آپ کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے: فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (آل عمران:۹۵۱)"یعنی یہ اللہ کی رحمت کا ایک مظہر ہے کہ آپ ان کے حق میں بہت نرم ہیں، اگر آپ ترش رو اور سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے اردگرد سے چھٹ جاتے، پس آپ ان کی غلطیاں معاف کر دیں، بلکہ ان کے لئے اللہ سے مغفرت بھی طلب کریں، مزید یہ کہ انھیں مسائل میں شریک مشورہ بھی رکھیں۔"
اللہ تعالیٰ نے آپ کی سیرت اور روش حیات کو اسوہ حسنہ قرار دیا، یعنی خوبصورت نمونہ۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حسن اور خوبصورتی انسانوں کو جذب کرتی ہے، جبکہ بدصورتی سے ہر انسان گریزاں ہوتا ہے۔ گویا آپ کے وجودِ ذیجود میں جاذبیت ہی جاذبیت ہے۔ آپ کے بارے میں قرآن حکیم ہی کا ارشاد گرامی ہے:وَاِِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیمٍ(القلم:۴) "اور بے شک آپ اخلاق کے بلند ترین درجے پر فائز ہیں۔" آپ جیسے تھے، آپ کی خواہش تھی کہ آپ کے ماننے والے بھی اسی سانچے میں ڈھل جائیں، اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر کہ ان کا اسوہ حسنہ اپنائیں، گویا یہی کہنا چاہا ہے کہ ان کے ماننے والے ان کے سانچے میں ڈھل جائیں۔ اگرچہ یہ امر بہت عظیم ہے اور اس تک رسائی کسی کے بس میں نہیں، لیکن ہماری زندگی کے لئے رخ متعین کر دیا گیا ہے۔ ہمیں بہرحال انہی کے راستے پر چلنا ہے۔ اب یہ ہر کسی کی طلب، آرزو، استطاعت، کوشش اور توفیق پر منحصر ہے کہ کوئی آپ کی کس قدر قربت حاصل کر سکتا ہے۔ قرآن حکیم میں فرمایا گیا ہے: وَ قُو لُو ا لِلنَّاسِ حُسنًا(البقرہ:۳۸)"اور انسانوں سے خوبصورت پیرائے میں بات کرو۔"
 
جب کسی سے بحث و مجادلہ کی نوبت آئے تو بھی اچھے سے اچھا انداز اختیار کرو: وَ جَادِلھُم بِالَّتِی ھِیَ اَحسَنُ(النحل:۵۲۱) بلکہ اس سے بھی بڑھ کر رحمن کے بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: الَّذِینَ یَم شُو نَ عَلَی الاَرضِ ہَونًا وَّاِِذَا خَاطَبَہُمُ الجٰہِلُونَ قَالُو ا سَلٰمًا(الفرقان:۳۶)"یہ لوگ زمین پر نرم روی سے چلتے ہیں اور جاہل لوگ جب ان سے خطاب کرتے ہیں تو انھیں سلام کہہ کر گزر جاتے ہیں۔" یہ ساری باتیں اگر سچی ہیں اور ضرور سچی ہیں تو پھر ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ ہم نبی رحمت کی کیسی امت ہیں اور ان کے کیسے ماننے والے ہیں۔ کیا ہم بھی اپنے گھر والوں کے لئے شفیق اور مہربان ہیں، جیسا کہ نبی کریم تھے اور کیا ہم جب اپنے گھر سے باہر قدم رکھتے ہیں تو رحمت بن کر نکلتے ہیں یا زحمت بن کر، ہم دوسروں کے لئے شفقت اور مہربانی کا پیغام لے کر روانہ ہوتے ہیں یا سختی و ترش روئی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہمارے لہجوں میں نرمی ہوتی ہے یا سختی، ہمارے چہرے متبسم ہوتے ہیں یا خشن! ہمیں تو فرمایا گیا ہے کہ ایک دوسرے کو السلام علیکم کہو بلکہ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ سلام میں پہل کرو، نبی کریم کے بارے میں احادیث میں آیا ہے کہ آپ ہمیشہ سلام میں پہل کیا کرتے تھے۔ امیر المومنین امام علی ؑکہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کی ہر سنت پر عمل کیا ہے، لیکن ایک پر نہیں کرسکا اور وہ یہ کہ آپ ہی ہمیشہ سلام میں پہل کرتے رہے، میں کوشش کے باوجود کبھی سلام میں پہل نہیں کرسکا۔
 
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا دین پوری دنیا پر غالب آجائے تو پھر ہمیں اخلاق محمدی کو اپنانا ہوگا۔ مسلمان پوری دنیا میں جہاں جہاں ہیں، انھیں اپنے وجود سے، اپنے برتاﺅ سے، اپنی زبان سے، اپنے چہرے سے اور اپنی رفتار سے رحمت کا پیغام دینا ہوگا۔ ہمیں رحمت کی علامت بننا ہوگا۔ آج انسانیت مسلمان نما جن درندوں کے ہاتھوں زخم خوردہ ہے، بدقسمتی سے وہ اپنے آپ کو مسلمان کہلواتے ہیں بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا پر اسلامی حکومت اور اسلامی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اسلامی حکومت کے لئے اسلامی اخلاق ناگزیر ہے۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے:
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتحِ زمانہ
ہمیں ملکوں کو فتح کرنے کی فکر ترک کرکے دلوں کو فتح کرنے کی حکمت اختیار کرنا ہوگی۔ ہمارے ہاتھوں سے اگر خود مسلمان ہی اتنے نالاں ہوں کہ الامان الحفیظ کی صدائیں بلند کر رہے ہوں تو ہم غیر مسلموں کے لئے رحمت کے پیامبر کیسے بن سکتے ہیں۔
 
قرآن حکیم کو سمجھنے کے لئے ہمیں رسول اللہ کی سیرت کو سمجھنا ہوگا۔ آج ہم کوئی ایک آیت لے کر اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ آپ نے پورے قرآن حکیم کو سامنے رکھ کر مختلف قوموں، ملتوں، گروہوں اور لوگوں سے کیسا برتاﺅ کیا۔ آپ نے میثاق مدینہ میں بت پرستوں اور اہل کتاب کو بھی شریک کیا۔ آپ نے حبشہ کے مسیحی حاکم کو سچا اور عادل قرار دیا۔ آپ نے قتل و خون سے بچنے کے لئے اپنے لہو کے پیاسوں سے صلح کی۔ آپ نے نجران کے مسیحیوں کو امان نامہ لکھ دیا۔ اگر ہم اپنے مسلمانوں کے لئے ہی امان کے قائل نہیں تو غیروں کے لئے ہماری سنگدلی کا کیا عالم ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ القاعدہ ہو، داعش ہو یا ان کی مثال کوئی اور گروہ ان میں سے کوئی بھی رحمت کا پیامبر نہیں، یہ تو بشریت کے لئے زحمت اور اذیت کے پیامبر ہیں۔ یہ نبی رحمت کے نمائندے نہیں۔ جس کے وجود سے رحمت جھلکتی ہوگی اور جس کی زبان سے محبت چھلکتی ہوگی، وہی نبی رحمت کا نمائندہ ہوگا۔

ہمارے نبی نے غیروں کو بھی امن و سلامتی کا پیغام دیا، جب تک کوئی آپ پر حملہ آور نہ ہوا، آپ نے تلوار نیام سے نہیں نکالی، آپ ہی پر قرآن کریم کی یہ آیات اتری ہیں، جن میں فرمایا گیا ہے کہ جس نے ایک انسان کو بے گناہ قتل کر دیا، اس نے گویا ساری انسانیت کا خون بہا دیا:مَن قَتَلَ نَفسًا بِغَیرِ نَفسٍ اَو فَسَادٍ فِی الاَر ضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا(المائدہ:۲۳) مسند احمد ابن حنبل میں ایک صحیح حدیث میں ہے کہ حجة الوداع کے موقع پر آنحضرت نے سب حاضرین سے سوال کیا کہ کیا میں تمھیں بتاﺅں کہ مومن کون ہوتا ہے؟ پھر آپ نے فرمایا: من امنہ الناس علی اموالھم وانفسھم، والمسلم من سلم الناس من لسانہ ویدہ(حدیث۸۵۹۳۲) "جس سے سب انسانوں کے اموال اور ان کی جانیں محفوظ ہوں اور مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے انسان سلامت رہیں۔" آئیے ان تعلیمات کی روشنی میں ہم آپس میں اور ساری انسانیت کے لئے رحمت ہو جائیں، کیونکہ ہم نبی رحمت کے ماننے والے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 762633
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش