0
Sunday 2 Dec 2018 01:45

کیا علم اور دین میں تعارض ہے؟

کیا علم اور دین میں تعارض ہے؟
تحریر: محمد حسن جمالی
 
آج کے اس پیشرفتہ ترین دور میں بھی شعبہ تعلیم سے مربوط بعض افراد کے لئے کچھ علمی مسائل معمہ بنے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ روشنفکری کے نام سے دین سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ان کے خیال میں دین کے اندر جدید مسائل کا حل موجود نہیں۔ وہ کچھ سائنسی معلومات اور ریاضی فارمولے ازبر کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم تو بہت بڑے دانشمند ہیں اور دینی تعلیمات حاصل کرنے سے ہم بے نیاز ہیں۔ وہ پوری صراحت سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ دین سے دور رہنا ہی انسان کی ترقی اور تکاملی کا راز ہےـ اس بے بنیاد فکر کے اسباب و عوامل تو بہت زیادہ ہیں، لیکن غور کیا جائے تو اسے نسل جدید، جوان اور نوجوانوں کے ذہنوں میں پروان چڑھا کر مستحکم کرنے میں حقائق سے نابلد بعض مغربی دانشوروں کا بڑا کردار دکھائی دیتا ہے، انہوں نے تعلیم یافتہ طبقے کو طرح طرح کے شبھات کے ذریعے دین سے بیزار کرنے کے لئے اپنی پوری توانائیاں صرف کی ہے جس کا ایک بارز نمونہ یہ ہے کہ مغربی بعض نام نہاد مفکرین نے ایک مستقل نظرئیے کے طور پر علمی دنیا میں یہ بات پیش کردی کہ علم اور دین میں تعارض ہےـ مفہوم علم اور دین میں کوئی مطابقت نہیںـ علم اور دین کا محتوی آپس میں ٹکراتا ہےـ

دین کا دائرہ تنگ ہے جبکہ علم کے دائرے میں وسعت پائی جاتی ہےـ دیندار لوگ تنگ نظر جبکہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے لیس بے دین افراد روشن فکر اور اچھے خیالات کے مالک ہوتے ہیں وغیرہ۔ انہوں نے مختلف شکلوں میں اس مسئلے کو (تعارض دین علم) بیان کیا ہے اس مختصر  کالم میں قارئین کرام کو فقط اس شبھے کی طرف متوجہ کرانا مقصود ہے امید ہے کہ تحقیق کا شغف رکھنے والے دانشوران اس پر ریسرچ کرنے کی زحمت کریں گےـ اس شبھے کی پیدائش کا تاریخچہ دقیق معلوم نہیں لیکن یہ بدیہی ہے کہ اس کا تعلق جدید شبھات سے ہرگز نہیں، بلکہ بہت عرصہ پہلے یہ شبھہ دانشمندوں کی توجہ کا محور قرار پایا ہے ـ بعض اسلامی مفکرین نے اس پر تحقیق کرکے مقالے اور مستقل کتابیں لکھ ڈالی ہیں اور انہوں نے اپنی کتابوں اور مقالہ جات میں تمام زوایا سے اس مسئلہ پر سیر حاصل بحث کی ہے۔

بطور نمونہ مفکر اسلام آیت اللہ مصباح یزدی نے رابطہ علم و دین کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے، جس میں منطقی ترتیب کی پوری طرح رعایت کرتے ہوئے انہوں نے انتہائی حسین انداز میں مسئلہ تعارض علم و دین کی وضاحت کی ہے۔ اس کتاب میں آیت اللہ مصباح نے مغربی اور اسلامی مفکرین کے نظریات کا تقابلی جائزہ لیا ہے اور استدلال کے ذریعے یہ ثابت کردیا ہے کہ علم اور دین میں کوئی تعارض نہیں بلکہ ان میں کاملا مطابقت پائی جاتی ہے، ان دونوں میں دوستی اور محبت ہے نہ تعاند اور دشمنـی۔ مسئلہ تعارض علم و دین  اور مسئلہ رابطہ علم و دین کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم علم اور دین کی تعریف پر توجہ کریں آیت اللہ مصباح یزدی نے رابطہ علم و دین نامی اپنی کتاب میں دین کی سات اور علم کی نو تعریف ذکر کیا ہے جو بالترتیب ہم یہاں نقل کرتے ہیں اور کچھ قابل فکر سوالات لکھ کر قارئین کرام کو ان پر غور کرکے جوابات تلاش کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔

علم کی تعریفیں:
۱ـ علم یعنی اعتقاد جزمی۔
۲ـ علم یعنی واقع سے مطابقت رکھنے والی شناخت۔
۳ـ علم یعنی واقع سے مطابقت رکھنے والی شناخت حصولی۔
۴ـ علم یعنی واقع سے مطابقت رکھنے والی شناخت حصولی کلی۔
۵ـ علم یعنی معرفت حصولی کلی اور اس سے مناسبت رکھنے والی عملی دستورات۔
۶ـ علم یعنی شناخت حصولی کلی حقیقی۔
۷ـ علم یعنی شناخت حصولی تجربی۔
۸ـ علم یعنی مادی ظواہر کی شناخت۔
۹ـ علم یعنی مجموعہ مسائل کی معرفت۔
 
دین کی تعریفیں:
۱ـ احساس تعلق و وابستگی کا نام دین ہے۔
۲ـ امر قدسی پر اعتقاد رکھنے کو دین کہا جاتا ہے۔
۳ـ دین یعنی ماوراء طبیعت پر عقیدہ رکھنا اور اس سے مربوط رہنا۔
۴ـ دین یعنی رفتاری باور اور ارزشوں کا مجموعہ۔
۵ـ دین سے مراد محتوی کتاب وسنت ہے۔
۶ـ دین الٰہی حق۔
۷ـ سعادت پر معطوف اعتقادات۔
 
ذیلی سوالات قابل غور ہیں:
الف: کیا مفہوم ومحتوی علم ودین میں تعارض ہے؟
ب: علم اور دین کے درمیان نسب اربعہ میں سے کونسی نسبت پائی جاتی ہے؟
ج: کن عوامل کی بنیاد پر مغربی  مفکرین سے متاثر ہوکر بعض اسلامی مفکرین علم اور دین میں تعارض ہونے کے قائل ہوئے؟
د: اسلامی مفکرین نے اس شبھے کے جواب میں کیا راہ حل پیش ہے؟ نیز اس شبھے کے نقصانات کیا کیا ہیں؟
خبر کا کوڈ : 764385
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش