6
Thursday 25 Jul 2019 00:14

امریکا کی مشکل کشاء، عمران خان کی انصافین حکومت

امریکا کی مشکل کشاء، عمران خان کی انصافین حکومت
تحریر: محمد سلمان مہدی
 
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے تین روزہ دورہ امریکا سے پہلے اس حقیر نے ایک تحریر بعنوان ”ٹرمپ و عمران ملاقات، کیا ہونے جا رہا ہے؟“ میں اہم نکات پیش کر دیئے تھے، لیکن اب جب یہ دورہ تمام ہوچکا ہے تو ایک اور اپ ڈیٹ ناگزیر سمجھتا ہوں۔ بغیر کسی تمہید کے عرض یہ کہ امریکی بلاک کے لئے عمران خان کا یہ دورہ انتہائی کامیاب ثابت ہوا۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان کے لئے بھی یہ دورہ کامیاب ثابت ہوا، لیکن بحیثیت ایک ملک پاکستان کے لئے یہ دورہ اس لئے کامیاب نہیں قرار دیا جاسکتا کہ اس سے پاکستان کی آزادی و خود مختاری پر امریکی مفاد ایک اور مرتبہ غلبہ پا چکا ہے۔ یقیناً عمران خان کے چاہنے والے یا انصافین حکومت کے طرفداروں کی طبع نازک پر یہ جملے گراں گزرے ہوں گے، لیکن انصاف پسند لوگ ٹرمپ کے تازہ ترین موقف کا جائزہ لیں تو حقیقت واضح ہے۔
 
22 جولائی کو اوول آفس یعنی وائٹ ہاؤس صدارتی دفتر میں ڈونالڈ ٹرمپ کی عمران خان سے ملاقات کے وقت دونوں کی صحافیوں سے بات چیت ان کی باقاعدہ آفیشل بات چیت سے پہلے کی تھی۔ جو کچھ طے پایا ہے وہ بعد میں رسمی ملاقات میں پایا ہے، مگر اس پر نہ کوئی بیان جاری کیا گیا اور نہ ہی کوئی پریس بریفنگ ہوئی ہے۔ ٹرمپ نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ بہت سارے معاملات پر بات کر رہے ہیں، لیکن جن عنوانات کا نام لیا وہ تین تھے، یعنی فوجی معاملات، دہشت گردی اور تجارت۔ البتہ وائٹ ہاؤس کی جاری کردہ فیکٹ شیٹ کے مطابق صدر ٹرمپ جنوبی ایشیاء میں امن، استحکام اور خوشحالی کے لئے جو ضروری اہم معاملات ہیں، ان پر پاکستان سے تعاون کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ بات جب جنوبی ایشیاء کی ہوتی ہے تو اس سے مراد سارک ممالک والا جنوبی ایشیاء ہوتا ہے اور کھینچ تان کر افغانستان بھی جنوبی ایشیاء میں ہی سمجھا جاتا ہے۔ مغربی بلاک چین کو مشرقی یا جنوب مشرقی ایشیاء یا مشرق بعید کہتا ہے جبکہ ایران کو مشرق قریب اور مشرق وسطیٰ میں قرار دیتا ہے۔
 
لہٰذا ٹرمپ نے عمران سے ملاقات کو عظیم اور اہم ملاقات قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ان کو یعنی امریکا یا امریکی حکومت کو ان کی مشکلات سے نکالنے کے لئے مدد کرنے جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے یہ جھوٹ بھی کہا کہ افغانستان میں انہوں نے فوجی کی بجائے پولیس کا کردار ادا کیا ہے۔ نائن  الیون حملوں کے بعد افغانستان پر جنگ مسلط کرکے بے گناہ افغان مسلمانوں کا قتل عام کرکے، ان کی املاک و ملکی انفراسٹرکچر تباہ و برباد کرکے تقریباً اٹھارہ برس سے وہاں فوجی اڈے بنا کر قبضہ کر لینے کے بعد بھی ٹرمپ کہتے ہیں کہ امریکا پولیس مین کا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے۔ البتہ ٹرمپ نے جو کڑوا سچ بیان کیا ہے، وہ بھی سن لیجیے:
 "....we were paying $1.3 billion to Pakistan as aid, for many years. The problem was Pakistan - this is before you - Pakistan was not doing anything for us. They were really, I think, subversive. They were going against us. And this is something we'll be ta- - I ended that about a year and a half ago, the $1.3 billion. And I tell you what: To be honest, I think we have a better relationship with Pakistan right now than we did when we were paying that money. But all of that can come back, depending on what we work out.
 
موجودہ امریکی صدر ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ ماضی میں یعنی عمران حکومت کے آنے سے پہلے پاکستان امریکا سے ایک ارب تیس کروڑ ڈالر امداد بھی لے رہا تھا لیکن امریکا کے لئے کچھ بھی نہیں کر رہا تھا (بلکہ) ستیاناس کر رہا تھا۔ ایک اور سوال کے جواب میں ٹرمپ نے عمران خان کی باتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے چند ہفتوں میں امریکا نے کافی پیش رفت کی ہے اور اس کے لئے پاکستان نے امریکا کی مدد کی ہے، جبکہ ایک صحافی نے ماضی سے متعلق سوال کیا تو ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ماضی میں پاکستان نے امریکا اور امریکی صدور کا احترام نہیں کیا۔ البتہ انہوں نے خود ہی وضاحت کر دی کہ ماضی میں امریکا میں غلط (آدمی) صدر تھا۔ حالانکہ عمران خان کی موجودگی میں ٹرمپ نے پاکستان پر اس الزام سے پہلے ایران پر الزام لگایا کہ ایران امریکا کا احترام نہیں کرتا اور سی آئی اے نیٹ ورک پکڑنے والی خبر کو ٹرمپ نے جھوٹ قرار دیا۔

اور ساتھ ہی ٹرمپ نے عمران خان پر ایسی گگلی ماری کہ پاکستان کے وزیراعظم کو ٹرمپ کی ہاں میں ہاں ملانی پڑی۔ ٹرمپ نے کہا کہ ایران جھوٹ بولتا ہے، امریکا کے خلاف پروپیگنڈا کرتا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان کبھی بھی (ہمارے خلاف) ایسا کرے گا۔ ابھی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ عمران خان درمیان میں کودے، کہنے لگے ہرگز نہیں! ٹرمپ نے فوراً کہا پاکستان ہرگز جھوٹ نہیں بولتا، عمران خان نے کہا ہرگز نہیں تو ٹرمپ نے کہا لیکن ایران ایسا کرتا ہے۔ اس کے بعد ایران کے خلاف باتیں کرکے پاکستانی صحافیوں سے کہا کہ وہ سوال کریں۔ جوں ہی سوال ہوا تو ٹرمپ نے یہی الزام پاکستان پر بھی لگا دیا کہ پاکستان نے امریکا اور امریکی صدور کا احترام نہیں کیا۔ اسی سانس میں کہا کہ اب پاکستان ہماری بہت مدد کر رہا ہے۔ پاکستان کے موجودہ کردار پر ٹرمپ کا کہنا تھا:
And I will say, as of this moment, they're working very hard and very nicely, and we appreciate it.
 
آزادی صحافت پر قدغن کے حوالے سے سوالات پر ٹرمپ اور عمران خان میں چند لمحوں کے لئے ایک مزاحیہ بحث چھڑ گئی کہ ذرایع ابلاغ نے ٹرمپ کو زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا یا عمران خان کو، ٹرمپ کہنے لگے کہ وہ زیادہ ہدف تنقید ہیں اور ازراہ مزاح کہا جناب وزیراعظم آپ جھگڑ رہے ہیں، صبر، میری بات سنیں۔ البتہ حکومت کے مخالف سیاستدانوں پر سخت موقف پر دونوں ہی نے ایک دوسرے کی تعریف کی۔ ایک صحافی نے بیک وقت دو سوال کر ڈالے کہ کیا ٹرمپ 2020ء کا صدارتی الیکشن جیت لیں گے اور مالی بدعنوانیوں پر کارروائی سے متعلق عمران خان سے سوال بھی ساتھ ہی شامل تھا۔ ٹرمپ اپنے الیکشن پر بولنے سے پہلے ہی قہقہ لگا کر کہنے لگے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ (عمران خان) جیت جائیں گے، وہ ان کے لئے مہم چلائیں گے، وہ انکی مہم میں مدد کریں گے۔

بلاول بھٹو بھی اسی ماہ امریکا کا دورہ کرچکے ہیں۔ عمران خان پر ان کی نپی تلی تنقید کے ساتھ ساتھ عظیم تر قومی مفاد میں وہ عمران خان کے دورہ امریکا پر یہ تاثر دے رہے ہیں گویا یہ ورلڈ کمیونٹی کو انگیج کرنے کی ایک کوشش ہے، جس کا ساتھ ہر ایک کو دینا چاہیئے، چونکہ امریکا عمران خان سے راضی ہے، اس لئے پاکستان کے اہم سیاسی کردار گول مول ردعمل دے رہے ہیں۔ ان کو ٹرمپ حکومت کا یہ پیغام عمران خان کے دورے نے دے دیا ہے کہ فی الحال امریکی حکومت کو زرداری اور نواز شریف کے خلاف کارروائی پر کوئی تشویش نہیں ہے۔ ویسے بھی امریکی بلاک کے لئے پاکستان میں عمران خان سے بہتر کون ہوسکتا ہے۔ جدید مغربی ثقافت کا عملی پیروکار جس کے ساتھ میلانیہ ٹرمپ کو تصویر کھنچواتے ہوئے بہت اچھا لگتا ہے، جس کو امریکی عدالت نے سیتاوائٹ کی بیٹی ٹیریان کا باپ قرار دیا اور وہ ٹیریان جب برطانیہ جاتی ہے تو عمران خان کی مطلقہ بیوی جمائما کے ساتھ رہتی ہے، جہاں عمران خان کے اپنے دو بیٹے اپنی ماں جمائما کے زیر سایہ پرورش پا رہے ہیں۔
 
نواز اور زرداری اتنا کھل کر جدید مغربی اقدار پر عمل کرنے میں ڈرپوک ثابت ہوئے ہیں۔ حالانکہ سیکولر ریاست کے منصوبے میں کبھی کبھار انہوں نے کمی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا اور جہاں موقع ملا تو امریکی بلاک کی ڈکٹیشن پر حلف نامے سے دین کا خانہ نکال کر ایک غیر مسلم اقلیت کو غیر اعلانیہ طور مسلمانوں میں شامل ظاہر کرنے کا اشارہ بھی دیا ہوگا، لیکن مجموعی طور پر وہ دونوں امریکا کے لئے وہ سب کچھ نہ کرسکے جو اب عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد امریکا کے لئے کیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے خود یہ شکایت کی ہے کہ پاکستان جو کرسکتا تھا، جو اسے امریکا کے لئے کرنا چاہیئے تھا، وہ اس نے نہیں کیا، لیکن اب کر رہا ہے!!! 
(نوٹ: مزید اگلی تحریر میں)
خبر کا کوڈ : 806867
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش