0
Monday 27 Jun 2011 13:09

مسلم ممالک اپنے فیصلے خود کرنے کی عادت ڈالیں!

مسلم ممالک اپنے فیصلے خود کرنے کی عادت ڈالیں!
پاکستان، افغانستان اور ایران نے تہران میں انسداد دہشت گردی کی عالمی کانفرنس سے پہلے ہونے والے سہ فریقی اجلاس کے بعد کئے جانے والے مشترکہ اعلامیئے میں دہشت گردی کے خلاف مل کر جدوجہد کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے یہ عہد کیا ہے کہ وہ غیرملکی مداخلت کے خلاف بھی متحد ہو کر سینہ سپر ہوں گے، کیونکہ یہ اسلام کی روح، اس خطے کی پُرامن ثقافتی روایات اور عوام کے وسیع تر مفاد کے منافی ہے۔ صدر زرداری نے اس موقع پر شدت پسندی سے نمٹنے کے لئے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ شدت پسندی یوں تو پوری دنیا کے لئے ایک خطرہ ہے، لیکن پاکستان افغانستان اور ایران تینوں ممالک کے لئے یہ خاص طور پر ایک بڑا چیلنج ہے، اس لئے اس سے نبرد آزما ہونے کے لئے علاقائی سوچ اور اپروچ سے کام لینا ضروری ہے۔ افغانستان میں نائن الیون کے بعد امریکی و اتحادی افواج کی آمد اور ان کے مقاصد و اہداف کے بارے میں پاکستان، افغانستان اور ایران کے نقطہ نظر میں واضح اختلاف موجود ہے، لیکن اب صدر اوبامہ کی طرف سے افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے بارے میں ایک معین لائحہ عمل پیش کرنے اور امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن اور سیکرٹری دفاع رابرٹ گیٹس کی جانب سے برملا یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ امریکہ طالبان سے درپردہ مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے، اسلام آباد، کابل اور تہران کے لئے باہمی مشاورت کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے، کیونکہ جب تک اس مسئلے کا جملہ فریقوں کے لئے کوئی قابل قبول حل سامنے نہیں آتا، اس وقت تک اس علاقے میں پائیدار امن کا خواب محض ایک سراب ہی رہے گا۔ 
اس حوالے سے دیکھا جائے تو مستقبل کے بارے میں مختلف خدشات اور شکوک و شبہات تو یقیناً موجود ہیں، لیکن کٹھن مسائل اور مشکلات کو دیکھ کر عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا بھی کوئی دانشمندی نہیں، اس لئے اس پُر خار جنگل سے نکلنے کا کوئی راستہ تلاش کرنے کی ہر کوشش کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ اگر پاکستان افغانستان اور ایران کی مشترکہ کوششوں سے دہشت گردی کے خاتمے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں، علاقے میں امن و استحکام کی راہیں کھلتی ہیں تو اس سے صرف ان تینوں ملکوں کو ہی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ اس کا دائرہ مشرق وسطیٰ، سنٹرل ایشیا کی ریاستوں اور چین تک پھیل سکتا ہے، جس سے اس پورے خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ افغانستان، ایران اور پاکستان کے سمندری اور زمینی راستوں سے استفادہ کر سکتا ہے، تو ایران اپنے تیل اور گیس کے ذخائر کو جنوبی ایشیا کی وسیع تر منڈیوں تک پہنچا سکتا ہے اور پاکستان ایران سے تیل اور گیس کی خریداری کر کے نہ صرف اپنی توانائی کی ناگزیر ضروریات پوری کر سکتا ہے بلکہ ملک میں پٹرول، گیس اور بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں میں بھی قابل ذکر حد تک کمی لائی جا سکتی ہے، جن میں ہونے والے مسلسل اضافے نے عوام کی کمر توڑ دی ہے اور وہ ایک ایسے معاشی بوجھ کے نیچے دبتے چلے جا رہے ہیں، جس سے نکلنے کی انہیں کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی۔ 
صدر زرداری نے ایرانی صدر احمدی نژاد سے ملاقات میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر پیش رفت کے بارے میں جس طرح کھل کر بات کی ہے، خدا کرے کہ وہ اس پر عملدرآمد کے بارے میں بھی اتنے ہی سنجیدہ ہوں، کیونکہ بھارت کے اس منصوبے سے نکل جانے کے بعد پاکستان اور ایران اسے اب زیادہ تیزی کے ساتھ مکمل کر سکتے ہیں۔ اگر پاکستان میں آنے والی مختلف حکومتیں امریکی دباؤ میں آ کر اس منصوبے کو التواء در التواء میں نہ ڈالتیں تو یہ کب کا مکمل ہو چکا ہوتا، لیکن ایسا نہ ہو سکا اور اب اس کے نقصانات کا سامنا پاکستانی عوام ہی کو کرنا پڑ رہا ہے کہ ہمیں اپنی صنعتوں اور کارخانوں کو چلانے اور اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے گیس دستیاب ہے نہ بجلی۔ اگر بلوچستان کے لئے ایران سے 100 میگا واٹ بجلی صرف 6 سینٹ فی یونٹ کی ارزاں تر قیمت پر خریدی جا سکتی ہے تو اس خریداری میں اور اضافہ کیوں نہیں کیا جا سکتا، پاکستان اپنے وسائل سے گیس اور بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے منصوبہ بندی ضرور کر رہا ہے، لیکن وسائل کی کمی، بدانتظامی، بدعنوانی اور سیاسی عدم استحکام کے باعث ان منصوبوں کی بروقت تکمیل کے بارے میں کوئی ضمانت دینا ممکن نہیں۔ اس لئے وقت کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان امریکہ کو دو ٹوک الفاظ میں بتا دے کہ اگر وہ پاکستان کے مسائل کو حل کرنے اور اس کی ناگزیر ضروریات کو پوری کرنے میں مدد نہیں کر سکتا تو پھر اسے دوسرے ممالک سے مدد لینے کی کوششوں میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہئے۔
 صدر زرداری نے پاکستان اور ایران کے درمیان موجودہ تجارت کو ایک ارب ڈالر سالانہ سے بڑھا کر 4 ارب ڈالر تک لے جانے اور پاکستان ایران اور ترکی کے درمیان ریل ٹرانزٹ سسٹم کو ترقی دینے کی جو بات کی ہے، اس کی افادیت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا، کیونکہ اس سے اس پورے خطے میں ترقی کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں، لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ہو سکتا ہے، جب ہماری حکومتیں اور ارباب اختیار علاقائی سطح پر تعاون بڑھانے کے لئے صرف زبانی جمع خرچ کرنے پر ہی اکتفاء نہ کریں، بلکہ اس کے لئے ٹھوس اور موثر عملی اقدامات بھی کریں۔ مسلم ممالک میں باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لئے او آئی سی، عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل جیسی متعدد تنظیمیں موجود ہیں، جن کے پاس وسائل کی بھی کمی نہیں، لیکن محض بے عملی کے باعث وہ اب تک نہ سیاسی سطح پر یورپی یونین جیسا اثر و رسوخ حاصل کرنے کے قابل ہو سکی ہیں نہ باہمی اقتصادی رشتوں کو مضبوط کرنے میں ان کا کوئی موثر کردار ہے اور ان کا کام صرف یہاں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے کہ دشمن جب کسی مسلمان ملک کے خلاف کوئی اقدام کر گزرتا ہے تو وہ اس کے خلاف قرار داد مذمت پاس کر دیتی ہیں۔
اگر پاکستان افغانستان اور ایران اس دہشت گردی کے خاتمے، منشیات کے سدباب اور اقتصادی و تجارتی تعاون کے لئے حالیہ سہ فریقی اجلاس میں طے کئے جانے والے لائحہ عمل کا بھی یہی حشر ہوتا ہے، اور وہ بھی محض کاغذی کارروائی تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے، تو اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان، ایران اور افغانستان اپنی افرادی قوت، مادی وسائل اور فنی مہارت کو کام میں لائیں اور مغرب کی اندھا دھند تقلید اور دست نگری کی بجائے سائنس اور ٹیکنالوجی کے ہر شعبے میں اتنی پیش رفت کریں کہ وہ خود ترقی یافتہ ملک بن ہو جائیں، کیونکہ اقتصادی خود مختاری کے بغیر وہ کبھی سیاسی خود مختاری حاصل نہیں کر سکتے، ان ممالک کو یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ جب تک وہ اپنی قومی و اجتماعی ترقی کے لئے اپنے وسائل کو پوری ذمہ داری اور منصوبہ بندی سے استعمال کرنے کے لئے عملی اقدامات نہیں کریں گے، اس وقت تک ان کے مذاکرات سے امت مسلمہ کو کوئی عملی فائدہ نہیں ہو گا اور ان کے الفاظ خواہ وہ کتنے ہی بلند آہنگ کیوں نہ ہوں فضاء میں بکھر کر رہ جائیں گے۔
"روزنامہ جنگ"
خبر کا کوڈ : 81378
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش