0
Tuesday 10 Dec 2019 20:37

سندھ حکومت اور آئی جی پولیس کے بعد جیالی حکومت اور وفاق بھی آمنے سامنے

سندھ حکومت اور آئی جی پولیس کے بعد جیالی حکومت اور وفاق بھی آمنے سامنے
ترتیب و تدوین: ایس حیدر

سندھ حکومت اور آئی جی سندھ کے بعد تبادلوں کے معاملے پر سندھ حکومت اور وفاق بھی آمنے سامنے آگئے، سندھ حکومت نے ایس ایس پی عمرکوٹ کی خدمات واپس نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا، وفاق نے ایس ایس پی عمرکوٹ اعجاز شیخ کی خدمات واپس لے لی تھیں، سینئر افسران کے تبادلے کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنماء و قائد حزب اختلاف سندھ فردوس شمیم نقوی نے ایک ہفتے میں سندھ کے دو سینئر ایس پی کے تبادلوں پر چیف سیکیرٹری سندھ کو خط لکھ دیا، دوسری جانب سندھ پولیس میں بڑے پیمانے پر کرپشن کا انکشاف بھی سامنے آگیا، جس کے بعد سندھ سرکار نے تحقیقات اینٹی کرپشن سے کروانے کا فیصلہ کر لیا، آئی جی سندھ سمیت 22 افسران کے تبادلے بھی کئے جائیں گئے۔ تفصیلات کے مطابق سندھ پولیس میں ایک اور تبادلے پر تنازع کھڑا ہوگیا، سندھ سرکار اور آئی جی سندھ کے بعد اور سندھ حکومت اور وفاق بھی آمنے سامنے آگئے، سندھ حکومت نے ایس ایس پی عمرکوٹ کی خدمات واپس نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایس ایس پی اعجاز شیخ سندھ میں کام کرتے رہیں گے۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے احکامات پر متعلقہ حکام کا اعجاز شیخ کو چارج نہ چھوڑنے کا حکم دیا، جبکہ سندھ حکومت نے وفاق کو ایس ایس پی اعجاز شیخ کا تبادلہ روکنے سے تحریری آگاہ کر دیا ہے۔ چیف سیکرٹری سندھ کی جانب سے وفاقی حکومت کو خط لکھا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ایس ایس پی عمرکوٹ اعجاز شیخ کی ضرورت ہے، صوبہ بدر نہیں کیا جا سکتا۔ خیال رہے اس سے قبل وفاق نے ایس ایس پی عمرکوٹ اعجاز شیخ کی خدمات واپس لے لی تھیں۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ کی ہدایت پر ایس پی ایسٹ اظفر مہیسر اور ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان کا تبادلہ کر دیا گیا،جس کے بعد سینئر پولیس افسران کے تبادلے پر سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی نے چیف سیکرٹری سندھ کو خط لکھا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ بغیر کیس انکوائری کے سینئر افسران کے تبادلے مشکوک ہیں اور ان پر ہمیں تشویش ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کی ہدایت پر ایس پی ایسٹ اظفر مہیسر کا تبادلہ کیا گیا، اظفر مہیسر نے یوسف ٹھیلے والے کا بیان قلمبند کیا تھا، یوسف ٹھیلے والے نے بیان میں کہا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے مراسم تھے اور ان سے ملنے جاتا تھا۔

دوسرا تبادلہ ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان کا کیا گیا، ڈاکٹر رضوان نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ جرائم پیشہ عناصر کو بااثر افراد کی پشت پناہی حاصل ہے، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پولیس افسر کا تبادلہ کر دیا تھا۔ خط میں فردوس شمیم نقوی نے سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی پر جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی کا الزام لگایا ہے۔ خط میں کہا گیا کہ سندھ پولیس کے حالیہ ایکٹ کے مطابق پولیس افسران کو بغِیر کسی انکوائری کے تبادلہ نہیں کیا جا سکتا، آئی جی پولیس افسران کے تبادلے پر راضی نہیں تھے، مگر اعلیٰ حکام نے ایس پی ایسٹ اظفر مہیسر اور ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان کا تبادلہ آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام کی مرضی کے بغیر کیا، چیف سیکریرٹری کو ایمانداری اور شفافیت سے کام کرنا چاہیے۔ وزیراعلیٰ سندھ کی اندھی تقلید سے تمام ایماندار افسران کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے، پولیس افسران کے تبادلوں کے فیصلے پر فوری نظرثانی کی جائے۔

آج بروز منگل جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس آغا فیصل پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو سندھ حکومت کی جانب سے ایس ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان کو صوبہ بدر کرنے کیخلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ درخواستگزار مزمل ممتاز ایڈووکیٹ نے کہا کہ سندھ حکومت بے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ایس ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان کو صوبہ بدر کر دیا، ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان نے کراچی اور شکارپور میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا، گٹکا مافیا کیخلاف کارروائی کرنے پر ڈاکٹر رضوان کو صوبہ بدر کر دیا گیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریماکس دیئے یہ معاملہ انتظامی ہے، عدالت کیسے مداخلت کرسکتی ہے۔ نئے ایس ایس پی شکارپور کی کارکردگی دیکھنے کے بعد دیکھیں گے کہ کون اچھا کام کر رہا تھا، اگر نئے ایس ایس پی نے کام اچھا نہ کیا، تو صوبائی حکومت سے پوچھیں گے۔ عدالت نے درخواست کی مزید سماعت 15 جنوری تک ملتوی کر دی۔

دوسری جانب سندھ سرکار اور سندھ پولیس میں سرد جنگ شدت اختیار کرگئی ہے، آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام سے سندھ حکومت سے اختلافات کے بعد پولیس بجٹ کی تحقیقات کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ سندھ پولیس میں کمپیوٹرز اور لپ ٹاپ کی خرید و فروخت میں کروڑوں کا گھپلا سامنے آیا ہے، پولیس کی گاڑیوں می پیٹرول اور ڈیزل کے پیسوں میں ہھیرا پھیری، پولیس کے اعلیٰ افسران بشمول آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام کے اثاثوں کی تحقیقات، آئی جی سندھ سمیت اعلیٰ پولیس افسران کے ملکی و غیر ملکی دوروں کی تفصیلات بھی طلب کر لی گئی ہے۔ آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام کے نور نظر افسران کی فہرست بھی تیار کرنے کا حکم دے دیا گیا، ایرانی ڈیزل اور پیٹرول کی غیر قانونی خریدوفروخت میں ملوث پولیس افسران بھی شاملِ تفتیش ہونگے۔ سندھ حکومت کے مخالف اور آئی جی سندھ کے نور نظر 22 اعلیٰ پولیس افسران کو فوری طور پر تبدیل کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے، جن میں آئی جی سندھ کلیم امام اور کراچی پولیس چیف کے نام بھی شامل ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ سندھ پولیس کی کمان سندھ سرکار اپنے کس جیالے کے ہاتھ میں دیتی ہے اور آئی سندھ کے بعد وفاق کے ساتھ سندھ حکومت کا تنازعہ عوام کو کتنا مہنگا پڑتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 831937
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش