1
8
Monday 16 Dec 2019 01:34

کوالالمپور سربراہی اجلاس کا اصل ہدف کیا ہے

کوالالمپور سربراہی اجلاس کا اصل ہدف کیا ہے
تحریر:  محمد سلمان مہدی
 
ملائیشیاء کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کی میزبانی میں ایک اسلامی سربراہی کانفرنس کوالالمپور میں ہو رہی ہے۔ چار روزہ چوٹی کی کانفرنس کا آغاز 18 دسمبر کو ہو رہا ہے۔ 21 دسمبر تک جاری رہنے والے اس اجتماع میں شرکاء قومی خود مختاری میں ترقی کے کردار پر رائے دیں گے۔ بنیادی طور پر ڈاکٹر مہاتیر نے اس ضمن میں پاکستان اور ترکی کی قیادتوں پر تکیہ کر رکھا ہے۔ ان دونوں ممالک کے علاوہ تیسرا ملک قطر ہے، جہاں سے قیادت کی سطح کی شرکت کی امید ہے اور ان تین کے علاوہ چوتھا ملک انڈونیشیاء ہے، جہاں سے صدارتی سطح کی شرکت متوقع ہے۔ 21 نومبر کو پتراجایا میں ڈاکٹر مہاتیر نے ملائیشیاء کے ساتھ ان چار ممالک کو کوالالمپور سربراہی اجلاس کا بانی قرار دیا اور یہی پانچ اصل محرک، نیوکلیئس یا کور گروپ ہیں۔
 
انکا کہنا ہے کہ پاکستان، ترکی اور قطر سے قیادت کی سطح کی شرکت کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ اس کانفرنس کے شریک سیکرٹری جنرل شمس الدین عثمان کا کہنا ہے کہ 52 ممالک نے شرکت کا یقین دلایا ہے۔ ان کے مطابق چار سو سے زائد مسلمان رہنما، مفکرین، دانشور اور علماء شریک ہوں گے۔ ان میں اڑھائی سو غیر ملکی ہوں گے۔ کوالالمپور کنونشن سینٹر میں ہونے والی اس بین الاقوامی کانفرنس میں سات ستون پر بات ہوگی۔ پہلا ستون ترقی و خود مختاری، دوسرا ستون۔۔۔۔ اور اچھا طرز حکومت، تیسرا ستون ثقافت و شناخت،  چوتھا ستون انصاف اور آزادی، پانچواں ستون امن و سلامتی و دفاع، چھٹا ستون تجارت و سرمایہ کاری اور ساتواں ستون ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ حکمرانی۔
 
یاد رہے کہ ڈاکٹر ایم یعنی مہاتیر نے اس مقصد کے لئے ایسے پلیٹ فارم کا تصور اس وقت پیش کیا تھا، جب وہ وزیراعظم نہیں تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کو ظلم و ستم کا سامنا ہے۔ اسلام سے خوفزدہ کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں پر جاری ظلم و ستم پر کسی کو بھی پریشانی نہیں ہے، جبکہ شمس الدین عثمان کا کہنا ہے کہ اس اجتماع میں مسلمانوں کو درپیش مسائل کا حل پیش کیا جائے گا۔ یعنی یہ سب کچھ جو یہاں بیان کیا گیا، میزبانوں کے پیش نظر یہ سبھی اہداف ہیں۔ مگر ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ حل تجویز بھی کر دیا جائے تو اس پر عمل کیسے ہوگا، اسے نافذ کون اور کیسے کرسکے گا!؟
 
مہاتیر صاحب کہہ چکے کہ انکی کانفرنس چھوٹی ہے جبکہ اسلامی سربراہی تنظیم او آئی سی ایک بڑی تنظیم ہے اور حکومتی قیادتی سطح پر ابتدائی طور پر محض پانچ ممالک کا انتخاب اسی وجہ سے کیا گیا کہ بہت سے مسلم ممالک کو خانہ جنگی کا سامنا ہے، یعنی بہت سے ممالک اپنے ہی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ ان پانچ ممالک کو بھی مسائل کا سامنا ہے، مگر وہ اتنے بڑے مسائل نہیں جتنے بڑے مسائل کا سامنا دیگر بڑے ممالک کو ہے۔ ان کے اس موقف کے ہوتے ہوئے بھی کوالالمپور کانفرنس کو او آئی سی اور خاص طور پر سعودی عرب کی قیادت کے مقابلے پر سمجھا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وزیراعظم عمران خان اتوار کے روز سعودی قیادت سے دارالحکومت ریاض میں ملے تو پاکستان میں ناقدین نے اسے پیشی سمجھا اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک نجی ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے اس منفی تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی۔
 
بظاہر موجودہ پاکستان حکومت کے موقف میں دم خم بھی ہے اور یہ منطقی و مدلل بھی ہے۔ یعنی یہ کہ پاکستان حکومت مسلم ممالک کے مابین خراب تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہے۔ یقیناً یہ اشارہ سعودی عرب اور ایران تعلقات کی طرف ہے اور ساتھ ہی قطر اور دیگر جی سی سی ممالک کی طرف بھی۔ مگر یہاں معاملہ اتنا سادہ و آسان بھی نہیں ہے۔ کیونکہ قطر اور ترکی کے بھی سعودی عرب سے تعلقات میں اخوان المسلمین جیسی اڑچن موجود ہے اور ان دونوں ممالک کے مصر کے ساتھ تعلقات میں بھی یہی اڑچن موجود ہے، تو قطر اور ترکی کے مسائل بھی موجود ہیں۔ سعودی عرب نے قطر کو جی سی سی کے سربراہی اجلاس میں مدعو کیا، جبکہ ایران کے ساتھ سعودی عرب تعلقات بحال نہ کرنے کی ضد پر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔
 
ترکی نیٹو کا رکن ملک ہے۔ قطر میں امریکی اڈے ہیں۔ پاکستان امریکا کا نان نیٹو اتحادی ہے۔ ملائیشیاء آسیان اور اپیک جیسے بین الاقوامی فورمز کا رکن ہونے کے ناطے اسی عالمی نظام سے جڑا ہوا ہے، جو اسلامو فوبیا پھیلاتا ہے۔ مانا کہ عالم اسلام مشکلات میں مبتلا ہے، مگر کشمیری مسلمانوں کو بھارتی مظالم سے اور روہنگیا مسلمانوں کو میانمار (برما) مظالم سے ملائیشیاء کیسے نجات دلا سکتا ہے!؟  جبکہ وہ خود ان دونوں ممالک کے ساتھ بھی کسی نہ کسی فورم پر جڑا ہوا ہے۔ ہم نے صرف دو مثالیں بیان کیں، ورنہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات و بحرین تو یمن سے لاحاصل جنگ میں مصروف ہیں اور یہ ترکی وغیرہ شام میں بھی منتخب جمہوری بشار الاسد حکومت کے خلاف امریکی اتحاد کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قطر اور ترکی کا پاکستان اور ملائیشیاء و انڈونیشیاء کے ساتھ مل کر بین الاقوامی اسلامی اجتماع کرنا ہضم نہیں ہورہا!۔ انڈونیشیاء بھی امریکی مغربی بلاک کا ہی حصہ ہے۔ کم و بیش ساٹھ کروڑ آبادی پر مشتمل پانچ مسلم ممالک بشمول عرب قطر کے، ان کا مل بیٹھنا یقیناً کسی خاص ایجنڈا کے تحت ہے۔
 
یقیناً سعودی عرب کی قائدانہ حیثیت کے لئے یہ اجتماع ایک چیلنج ہے اور یقیناً پاکستان کی موجودہ حکومت اس وقت ایک مشکل میں ہے کہ کسی طرح سعودی نمائندگی بھی یقینی بنا لی جائے۔ کوالالمپور اجتماع کا اصل ہدف شاید اکیس یا بائیس دسمبر کو کسی حد تک سامنے آنے کا امکان ہے۔ یعنی ایران اور سعودی عرب کی طرف سے کس سطح کی شرکت اور وہاں مشترکہ اعلامیہ، قراردادیں اور فیصلے۔ یہ سب کچھ خود ہی شکوک و شبہات کو کم یا زیادہ کرسکیں گے۔ اب تک تو یہی لگ رہا ہے کہ عالم اسلام کی قیادت اب یہ چند بڑے عجمی ممالک کریں۔ ویسے بھی بلحاظ آبادی انڈونیشیاء سب سے بڑا مسلم ملک ہے جبکہ پاکستان عالم اسلام کی واحد نیوکلیئر ریاست ہے۔ لیکن سعودی عرب امریکی مغربی بلاک کے اتنے کام آیا کہ اس نے ان سب کی حیثیت ختم کرکے رکھ دی۔
 
باوجود این کہ سعودی عرب امریکہ کا قابل اعتماد ترین شراکت دار، دوست اور اتحادی بن گیا۔ مگر، ساتھ ہی عالم اسلام و عرب میں سعودی عرب کی ساکھ خراب ہوگئی۔ منفی رائے عامہ، بس یہی ایک وجہ ہوسکتی ہے کہ کسی مشہور اور غیر متنازعہ رہنما کو آزمانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔  شہرت کے لحاظ سے عمران خان، غیر متنازعہ کے لحاظ سے ڈاکٹر مہاتیر اور اخوانیوں کے لحاظ سے ترکی کے رجب طیب اردگان اور قطر کے امیر۔ البتہ یہ سبھی احتمالات ہیں اور صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ امریکہ کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ جیسے تھنک ٹینک میں اسکالرز بھی کوالالمپور اجتماع کو سعودی قیادت کے لئے چیلنج سمجھ رہے ہیں! سعودی وہابی بادشاہت کا متبادل یہی پانچ کا ٹولہ ہی ہوسکتا ہے۔ ایران کی نسبت یہی امریکی بلاک کو قبول ہوسکتے ہیں۔ اکیس دسمبر کے اختتامی سیشن کے بعد ہی منظر واضح ہوگا۔ ورنہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ مخلص ہیں، تب بھی مسائل کے حل کے لئے مطلوبہ عملی اقدامات کرنے کی ہمت سے محروم ہیں۔ اس لئے زیادہ سے زیادہ جو ممکن ہے، وہ یہ ہے کہ درمند مفکرین کے لئے سربراہی اجلاس کتھارسس کا پلیٹ فارم بن جائے، جہاں وہ دل کی بھڑاس نکال لیں۔ خاص طور پر اخوانی حضرات۔
خبر کا کوڈ : 832954
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید اسد عباس
Pakistan
Informative new topic
well done
ہماری پیشکش