0
Thursday 7 Jul 2011 13:55

افغان پاک سے پاک افغان تک

افغان پاک سے پاک افغان تک
تحریر:آصف ایزدی
جب انیس سو چھیاسٹھ کی ویتنام جنگ امریکہ کے لئے بد سے بدترین ثابت ہو رہی تھی، تو سینیٹر جارج ایکین نے اُس وقت کے صدر امریکہ لینڈن جانسن کو مشورہ دیا کہ فتح کا اعلان کرتے ہوئے اپنی فوجوں کو واپس بلا لو۔ صدر جانسن نے اِس مشورے پر کان نہیں دھرا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ امریکیوں کا انخلاء شکست خوردہ فوج کی صورت ہو۔ سات سال بعد آنے والے نئے امریکی صدر رچرڈنکسن نے اُس وقت ویتنام سے فوجوں کا انخلاء شروع کیا، کیوں کہ انہیں کسی بھی محاذ پر کامیابی نہیں مل رہی تھی اور ایسی صورت میں فوجوں کا انخلاء کرتے وقت امریکہ فاتح ہونے کا اعلان بھی نہیں کر سکتا تھا۔ امریکہ کے موجودہ صدر باراک اوبامہ کے ذہن میں شاید سینیٹر ایکین کا مشورہ ہو، جس پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے غیرمتوقع طور پر افغانستان سے فوجوں کے مرحلہ وار انخلاء کا اعلان کر دیا۔ صدر اوبامہ کے ذہن میں شاید یہ بات بھی ہو کہ افغانستان میں جاری جنگ طویل ہوتی جا رہی ہے اور گذشتہ ماہ اس کا دورانیہ ویتنام کی جنگ سے بھی ایک ماہ زائد ہو چکا ہے۔
صدر اوبامہ نے اپنی تقریر میں افغانستان جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے فاتح ہونے کا دعویٰ تو نہیں کیا، لیکن انہوں نے سال دو ہزار نو سے جاری فوجی مہمات کی مجموعی کامیابی کو ضرور موضوع بنایا ہے۔ صدر اوبامہ نے افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ تنظیم کی قیادت اور صلاحیت کو پہنچائے جانے والے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ القاعدہ تنظیم کی آدھی قیادت جن میں اسامہ بن لادن بھی شامل ہے، جو ختم کیا جا چکا ہے۔ صدر اوبامہ کی طرف سے کئے جانے والے دیگر دعوؤں میں طالبان جنگجوؤں کی فعالیت کم کرنے اور افغان پولیس و آرمی کی تیاری کا ذکر کیا گیا ہے، جنہیں افغانستان کی داخلی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے امریکہ اور نیٹو افواج نے عملی تربیت اور وسائل مہیا کئے ہیں، تاہم ان کی صلاحیت پر کئی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ 
یہ سچ ہے کہ امریکی افواج نے جنوبی افغانستان میں کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن وہ طالبان کو مکمل طور پر شکست نہیں دے سکے۔ مشرقی افغانستان جو حقانی نیٹ ورک کا مضبوط گڑھ ہے میں جنگی محاذ کھولے گئے اور شمال جو نسبتاً پرامن علاقہ ہے وہاں بغاوت سر اٹھا رہی ہے۔ اگرچہ افغان فوجیوں نے کچھ ترقی کی ہے، لیکن اس بارے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے ملک کی کماحقہ حفاظت کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں، تاہم اس بات کے امکانات کم ہیں کہ وہ سال دو ہزار چودہ تک امریکہ اور نیٹو افواج سے حفاظت کی جملہ ذمہ داریاں سنبھال لیں گی۔ ان شکوک میں اضافہ طالبان کی طرف سے افغان دارالحکومت کابل میں واقعہ ایک فائیو سٹار ہوٹل کو نشانہ بنانے کا واقعہ بھی ہے، جس کی انتہائی سخت حفاظت کے انتظامات کئے گئے تھے۔
افغانستان کے لئے نئے مقرر کردہ امریکی سفیر ریان کروکر نے آٹھ جون کو امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات سے متعلق کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے حقیقت پسندی سے کام لیا۔ انہوں نے کہا افغان حکومت کو انتظامی و حفاظتی امور کی سپردگی دشوار گزار عمل ہو گا، لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ کامیابی کے امکانات موجود نہیں۔ اُن کے اس بیان کو اگر سادہ الفاظ میں منتقل کیا جائے تو مطلب یہ تھا کہ افغانستان میں حفاظتی امور کی افغان پولیس اور فوج کو سپردگی تو ہو جائے گی، لیکن اس تجربے کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ 
صدر اوبامہ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ افواج کی واپسی کسی کمزوری کے سبب نہیں کر رہا، اگر اس بیان کو سچ مان لیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ امن کے لئے کوشاں ہے جبکہ حقیقت حال اس سے مختلف ہے۔ یہ امریکہ ہی ہے جو افغانستان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لئے طالبان سے مذاکرات کا خواہشمند ہے۔ امریکہ نے بالآخر پاکستان کے بیان کردہ مؤقف اور حقیقت کو سمجھ لیا ہے کہ افغان مسئلے کا حل طاقت کے استعمال سے نہیں بلکہ گفت و شنید کے ذریعے تلاش کیا جا سکتا ہے۔ طالبان کو مذاکراتی عمل میں حصہ بنانے کے لئے یہ شرائط عائد کرنا کہ وہ پرتشدد کارروائیاں روک دیں گے، القاعدہ سے اپنے تعلق کو ختم کر دیں گے اور افغان آئین کا احترام کریں گے منطقی نہیں، بلکہ یہ شرائط تو مذاکرات کا حاصل اور ان کا نتیجہ ہونا چاہئے تھیں۔ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کی کامیابی کا دارومدار بڑی حد تک اُن سے طے ہونے والے معاملات سے بھی ہے۔ عالمی برادری کو چاہئے کہ وہ مذاکراتی عمل میں شریک طالبان قیادت کے لئے مراعات کا اعلان کرے۔ اُن پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ یقینا عالمی سطح پر طالبان کو قریب لانے کے لئے کوششیں جاری ہیں کیونکہ یہ محض اتفاق نہیں کہ صدر اوبامہ کی جانب سے فوجوں کے انخلاء سے ٹھیک پانچ روز قبل اقوام متحدہ نے طالبان اور القاعدہ تنظیم کو دو الگ الگ شناخت سے متعلق قرارداد منظور کی اور اس طرح سے اقوام متحدہ نے دو فہرستیں مرتب کی ہیں، جو طالبان اور القاعدہ تنظیم کے قائدین سے متعلق ہیں۔
 امریکہ کی افغانستان سے متعلق نئی حکمت عملی نے پاکستان کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے۔ امریکی حکومت جو پہلے معاملات کو افغانستان پاکستان کے تناظر میں دیکھتی تھی، اب پاکستان افغانستان کے نکتہ نظر سے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اقدامات کر رہی ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ اندیشہ ہے کہ کہیں ہماری سیاسی قیادت امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی کوششوں میں ملکی سلامتی کو خطرے میں نہ ڈال دے، جو جوہری اثاثوں کی حفاظت ہی کی طرح ایک اہم و کلیدی شعبہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 83390
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش