0
Tuesday 5 Jul 2011 15:27

افغانستان کی بدلتی صورتحال (پسِ منظر اور تقاضے)

افغانستان کی بدلتی صورتحال (پسِ منظر اور تقاضے)
تحریر:عادل بنگش
براعظم ایشیاء کے نقشے پر سنگلاخ پہاڑوں اور گہری وادیوں پر مشتمل بہادر ملتِ افغان کی سرزمین، افغانستان اپنی خصوصی اہمیت کی حامل تاریخی اور جغرافیائی حیثیت کے ساتھ واقع ہے۔ رقبے کے لحاظ سے امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے برابر یہ ملک شمال میں 744 کلومیٹر کی سرحدی لمبائی کے ساتھ ترکمانستان، 1206 کلومیٹر کی سرحدی لمبائی کے ساتھ تاجکستان، 137 کلومیٹر کی سرحدی لمبائی کے ساتھ ازبکستان، شمال مشرق میں 76 کلومیٹر کی سرحدی لمبائی کے ساتھ چین، جنوب و جنوب مشرق میں 2430 کلومیٹر کی سرحد (ڈیورنڈ لائن ) کے ساتھ پاکستان اور مغرب میں 936 کلومیٹر کی سرحدی لمبائی کے ساتھ ایران سے منسلک ہے۔ پاکستان کے شمال میں افغانستان کی واخان پٹی اس کو تاجکستان سے جدا کرتی ہے۔ اس پٹی کی کل لمبائی 220 کلومیٹر جبکہ چوڑائی 13 کلومیٹر سے لے کر 64 کلومیٹر تک ہے۔ ماضی میں یہ پٹی ہندوستان (برٹش انڈیا) کو رَشیَن ایمپائر سے جدا کرنے کیلئے Buffer Zone کا کام دیتی تھی۔ Darius-I اور سکندر اعظم نے پہلی بار افغانستان کا رُخ کیا اور یہیں سے ہندوستان تک رسائی حاصل کی۔ مسلمان پہلی بار یہاں 7ویں صدی عیسوی میں وارد ہوئے۔ 1979ء میں سویت یونین کی طرف سے فوجی یلغار ، افغانی وار لارڈز کی آپس میں خونریز یوں، 2001ء میں امریکی سربراہی میں NATO کے حملوں اور تاحال مسلسل حالت میں جنگ میں رہنے کے باعث افغانستان ابھی تک ایک مضبوط، خودمختار اور خود کفیل ملک نہیں بن سکا، مگر قیمتی پتھر، قدرتی گیس، پٹرولیم، کوئلہ، کاپر، کرومائیٹ، سیسہ، لوہے وغیرہ کے ذخائر کی موجودگی کے باعث استعماری سوچ کی حامل حکومتوں کی نگاہ سے کبھی محو نہیں ہوا۔
 استعماری افواج کی تباہ کاریوں سے جنگلات سمیت ان تمام وسائل کو کافی بے دردی سے لوٹا گیا، تاہم جفاکش افغانی قوم نے اعلٰی معیار کی سبزیوں اور مختلف انواع کے پھلوں کے ذریعے روزگار زندگی چلایا۔ جنگ کی تباہ کاریوں اور ذرائع معاش مسدود ہونے کے باعث آبادی کے ایک بڑے حصے کی توجہ حشیش( افیون) کی کاشت و پیداوار کی طرف مبذول ہو گئی اور آج کل افغانستان کی GDP کا 50 فیصدحصہ افیون کی تجارت سے حاصل ہوتا ہے۔
 42 فیصد پختون، 27 فیصد تاجک، 9 فیصد ہزارہ اور20 فیصد دیگر اقوام پر مشتمل تقریبا 3کروڑ کی آبادی کی شرح خواندگی انتہائی ناگفتہ بہ ہے، جس کی بڑی وجہ شدت پسند تنظیموں کی طرف سے تعلیمی اداروں کی تباہ کاری اور اساتذہ کا بے دریغ قتل عام ہے۔ یوں سمجھئے کہ 80ء کی دہائی کے بعد ایک پوری نسل تعلیم سے محروم رہی۔ پھر بڑی تعداد میں سالہا سال پڑوسی ممالک کے کیمپس میں ہجرت کی زندگی گزارنے سے شدید احساس محرومی کا شکار ہو گئے۔
اگر تاریخ افغانسان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ایک بات جو بالکل واضح طور پر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ملتِ افغان نے کبھی بھی دیر تک بیرونی قابضین کو برادشت نہیں کیا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لینا ان کی قدیم روایت کا حصہ ہے۔
سکندرِ اعظم نے افغانستان سے واپس جاتے ہوئے ایک تاریخی جملہ کہا تھا "افغانستان میں داخل ہونا تو آسان ہے مگر یہاں سے نکلنا بڑا مشکل ہے"۔
کیونکہ افغانوں کے منظم چھاپہ مار دستوں نے اُس کی فوج کو شدید مشکلات سے دوچار کر دیا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو یہی حال روسی افواج کے ساتھ بھی ہوا، جب وہ واپسی پر اپنے ساتھ 15000 فوجیوں کی لاشیں ساتھ لے کر گئے اور یہی حال موجودہ NATO جتھوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ جس کے بارے میں امریکی دانشوروں کا کہنا ہے کہ امریکہ اس وقت ایک آبرومندانہ واپسی کے طریقے کو قابل عمل بنانے میں مصروف ہے۔ افغانستان کی دلدل میں پھنس کر چھاپہ مار گروہوں کے ہاتھوں پے در پے حزیمت بالخصوص آج کل جنوبی افغانستان میں بھاری جانی و مالی نقصانات اُٹھانے کے بعد سُرخ ہاتھیوں کے لشکر کے اُکھڑے ہوئے قدموں کو کون درک نہیں کر سکتا۔ ماضی میں جن گڑھوں کو سفید ہاتھیوں کو مارنے کیلئے کھودا گیا تھا آج خود اُنہی میں گر چکے ہیں۔ اور مختلف جگہوں پر مذاکرات کا سہارا لینے کی کوشش کر رہے ہیں، بالخصوص افغانستان میں طالبان کے ساتھ SAFE EXIT کیلئے مذاکرات، جس کی تصدیق خود برطانوی دفترِ خارجہ کے وزیر ایلسٹیئر برٹ نے کی ہے۔
جب ورلڈ ٹریڈ ٹاورز پر حملوں کا بدلہ لینے کے نام پر افغانستان پر دھاوا بو ل دیا گیا تو اس وقت کی امریکی اسٹبلشمنٹ اور جاسوسی اداروں نے Bad اور  Good طالبان کی اصطلاح کی ترویج بھی کی۔ Good Taliban سے اُن کی مراد عام افغانی شہری ہے، جو اُن کیلئے Potential Threat ہے، یعنی وہ کسی بھی وقت Bad Taliban بن سکتا ہے۔ لہٰذا اس وقت سے لے کر آج تک تمام بری و فضائی حملوں میں بلا تفریق خوب قتل عام کیا جا رہا ہے، جس کے بارے میں حال ہی میں افغانی صدر حامد کرزئی نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ 
حامد کرزئی کی تنقید پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کابل میں امریکی سفیر کارل ایکنبری نے میڈیا کے نمائندوں سے کہا کہ "افغانی صدر کے اس رویہ سے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے"۔ اس بات سے صاف واضح ہوتا ہے کہ امریکی حکام شکست کی خفت مٹانے کیلئے دوسروں کے سر الزامات تھونپ کر خود سے بوجھ ہٹانا چاہتی ہے۔ اس کوشش کی ایک اور جھلک ایبٹ آباد آپریشن کے ڈرامے کے ڈراپ سین میں اسامہ کے قتل میں نظر آتی ہے کہ کس طرح پاکستان کی آبرو ریزی کی گئی۔ اسی طرح متعدد بیانات میں پاکستانی سیکورٹی و انٹیلی جنس اداروں پر "بعض" بے بنیاد الزامات سے بھی اُن کے عزائم کی عکاسی ہوتی ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے پہلے سیاہ فارم صدر باراک اوبامہ نے وائٹ ہاؤس سے مارچ 2009ء میں پاکستان اور افغانستان کیلئے مشترکہ پالیسی کا اعلان کیا۔ اس پالیسی کا دوسرا حصہ دسمبر 2009ء میں سامنے آیا۔
AfPak کی اصطلاح کو رائج کیا گیا، جس کے ذریعے سے افغانستان اور پاکستان کو ایک ہی ترازو میں تولنے کی کوشش کی گئی۔ امریکہ کی تاریخی غلطیاں اپنی جگہ، مگر پاکستان کی جغرافیائ ، ایٹمی، عسکری اور عوامی معاشرتی اہمیت کو یکسر نظر انداز کر کے اسے افغانستان کے ساتھ ایک ہی پلڑے میں تولنا امریکیوں کی سب سے بڑی بھول ثابت ہو رہی ہے۔
امریکی اداروں نے اپنے جنگی جنون اور دنیا کا تنہا مقتدر سربراہ بننے کیلئے UN اور دیگر عالمی قوانین کی جس طرح دھجیاں اُڑائیں، آج اس جنون کے باعث نہ صرف یہ کہ تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں، بلکہ اپنے ساتھ ہونے والے بھیانک انجام سے کسی صورت بچنے کیلئے مضحکہ خیز حرکات کا ارتکاب بھی کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر سال 2011ء کے اوائل میں جنرل پیٹریاس نے ہی صدر اوبامہ کو افغانستان سے امریکی فوجی دستوں کے انخلاء کی سمری بھجوائی تھی اور صدر اوبامہ نے سمری پر دستخط کے بعد جولائی 2011ء سے انخلاء کا اعلان اُسی وقت کر لیا تھا۔ لیکن جس وقت اس سال جون میں صدر نے باقاعدہ اعلان کے ذریعے سے جولائی میں 10،000 اور ستمبر تک 33 ہزار امریکی فوجیوں کے مرحلہ وار انخلاء کے احکامات جاری کیے تو موجودہ امریکی فوجی قیادت سمیت اُن کے دیگر اداروں نے بھی اسے تشویشناک قرار دیا۔
اس بات سے قطع نظر کہ امریکی حکومت شدید اندرونی دباؤ کا شکار ہے اور اقتصادی طور پر مشکل دور سے گزر رہی ہے، اس وقت اُن کے اہم ترین ادارے نفسیاتی دباؤ کے باعث ٹکراؤ کا شکار ہیں، جو کہ ان کی حزیمت کی سب سے بڑی دلیل ہے اور ان کے تاریک مستقبل کی نشاندہی کرتی ہے۔
مارچ اور ستمبر 2009ء میں امرکی صدر اوبامہ" AfPak " پالیسی کے اعلان کے وقت اس پالیسی کی بنیادوں کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا سب سے بڑا مقصد طالبان سے مقبوضہ علاقے چھڑانا ہے، امریکی عوام کے تحفظ کیلئے دہشت گردی کو ختم کرنا ہے، افغانستان کی بہتر حفاظت کو یقینی بنانا ہے، جس کیلئے 30 ہزار اضافی فوجیوں کو 65 بلین بجٹ کے ساتھ افغانستان میں تعینات کر کے امریکی افواج کی تعداد 1 لاکھ کرنی ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ لڑائی جھگڑے بہت ہو چکے، اب افغان فورسز کو اپنے ملک کی حفاظت کیلئے خود تیار رہنا چاہیے جبکہ وقت آ گیا ہے کہ امریکی حکومت اپنے عوام کی فلاح وبہبود پر رقم خرچ کرے نہ کہ افغانستان میں دفاعی اخراجات پر۔
 اس پالیسی میں پاکستان کو Under estimate کرتے ہوئے اُسے Do More کہہ کر امداد کیلئے شرائط مزید سخت کیں اور ساتھ ہی پاکستان کے اندر براہ راست کارروائی کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا۔ اگرچہ پالیسی کا بیشتر حصہ صدر بش کی پالیسیوں کا Version#2 معلوم ہوتا ہے، مگر پہلی بار دنیا کا نام نہاد مضبوط ترین شخص یعنی امریکی صدر وائٹ ہاؤس کے اندر کمزور ترین شخص معلوم ہو رہا تھا۔ روزِ اول سے ہی ماہرین کے مطابق یہ ایک ناکام پالیسی تھی مگر افواج کا انخلاء اُس وقت بھی اور آج بھی ایک خوش آئند امر ہے۔
حال ہی میں فرانس نے بھی افغانستان سے اپنے چار ہزار فوجیوں کو مرحلہ وار واپس بلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ افغانی صدر حامد کرزئی سمیت دیگر افغانی اکابرین نے افواج کے انخلاء کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ " افغان عوام کا اپنے ملک میں اپنی استطاعت سے محفوظ رہنا ان کی بھلائی اور مفاد میں ہے"۔
اُمید ہے کہ افغانستان سے بیرونی افواج کے انخلاء سے پورے خطے پر اچھے اثرات مرتب ہونگے، لیکن یہ بات تب درست ہے جب یہ قابضین صرف علامتی طور پر افواج کو نہ نکالیں، بلکہ حقیقی طور پر انخلاء کو یقینی بنائیں۔ اس سلسلے میں پاکستانی فورسز کی بھی اہم ذمہ داریاں بنتی ہیں۔ پاکستانی حکومت اور تمام اہم اداروں کو انخلاء کے مراحل کے دوارن اور پس از انخلاء تمام تر حساسیتوں کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنے ہونگے، کیونکہ پاکستان اس وقت شدید اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے جن سے مقابلہ تب ہی کیا جاسکتا ہے جب پاکستان کی افواج اپنے ازلی شِعار یعنی " ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ " پر صحیح معنوں میں مخلصانہ اور مثبت طور پر عمل پیرا ہوں۔ افغانستان کیلئے پالیسی بھی انتہائی مخلصانہ ہونی چاہیے، کیونکہ ایک پرُامن اور ترقی یافتہ افغانستان ہی خطے کی امن کا ضامن ہو سکتا ہے۔
بقولِ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رہ:
آسیا (ایشیا) یک پیکر آب و گل است
ملتِ افغان در آن پیکر دل است
از فسادِ اُو فسادِ آسیا
در گشادِ اُو گشادِ آسیا
ترجمہ:
ایشیا آب وگل کا ایک پیکر ہے، اس پیکر کا دِل ملتِ افغان ہے۔
اُس میں فساد سے پورے ایشیا میں فساد ہو گا۔
اس میں خوشحالی سے پورا ایشیا خوشحال ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 82760
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش