1
2
Tuesday 31 Dec 2019 02:29

در محضر سعدی

گفتار۔۔۔۔02
در محضر سعدی
تحریر: ساجد علی گوندل
Sajidaligondal55@gmail.com

موسیٰ علیہ السلام، قارون را نصیحت کرد: احسن کما احسن اللہ الیک۔۔ نشنید۔۔۔ و عاقبتش شنیدی [1]۔۔؟ کوئی شک نہیں کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے۔ یہاں  غور طلب پہلو یہ ہے کہ کیا اس کا معاشرتی ہونا طبیعی، غریزی و قہری ہے یا اختیاری۔۔؟ جیسا کہ بہت سارے حیوانات جیسے شہد کی مکھی و چیونٹیاں، غیریزی و قہری طور پر اس بات پر مامور ہیں کہ وہ ایک اجتماع میں زندگی بسر کریں۔ یعنی ان کی خلقت ہی اس انداز سے ہوئی ہے۔ کیا انسان کا اجتماعی ہونا بھی ایسا ہی ہے۔۔؟ کہ جس کا جواب یقیناً نہ میں ہوگا۔ لہذا پتہ چلا کہ انسان اجتماعی و معاشرتی ہے، مگر غریزی نہیں بلکہ اختیاری۔[2]  وہ بھی اس لیے کیونکہ اس کو بشر سے انسانیت تک کی مسافت طے کرنے میں بہت ساری مشکلات و ضروریات کا سامنا ہوتا ہے۔ اس طرح کمالات کے راستے میں ضروریات جنم لیتی ہیں اور جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ’’ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔‘‘ پس احتیاج و ضرورت انسان کو اجتماع کی طرف کھینچ لاتی ہے۔

لہذا جب بھی انسان اپنے آپ کو بے نیاز و غنی سمجھنے لگتا ہے تو حتی الامکان معاشرہ اور معاشرتی قوانین سے فرار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جرائم کا مرتکب ہوتا ہے، ظلم کرتا ہے، لوگوں کو غلام بنا کر ان پر حکومت کرنا چاہتا ہے۔ یعنی اجتماع میں رہتے ہوئے درحقیقت اجتماعی زندگی کو ترک کر دیتا ہے۔۔۔۔یطغی ان راہ استغنی[3] یعنی انسان جب خود کو بےنیاز سمجھتا ہے تو سرکشی و بغاوت پر اتر آتا ہے۔ لہذا کوئی بھی ریاست اس بات پر مجبور ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کے مریض لوگوں کو، عام معاشرتی افراد سے جدا کرے اور  ریاست کے اجتماعی ڈھانچے کو بچانے کے لیے کچھ تعزیرات اور سزاوں کا اجرا کیا جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا ایک دوسرے کی طرف محتاج ہونا اور پھر۔۔۔انتم الفقرائ الی اللہ[4] یعنی ہم سب کا خدا کی طرف محتاج ہونا، خدا کا ہم پر ایک خصوصی فضل ہے کہ جو ہمیں سرکشی و بغاوت سے باز رکھتا ہے۔۔۔

ہاں تاریخ انسانی میں بہت ساری ایسی مثالیں موجود ہیں کہ فرد نے جیسے ہی خود کو غنی محسوس کیا، سرکشی پر اتر آیا۔۔ ایک سادہ و پاکیزہ انسان کہ جس کا بچپن فقر و تنگدستی میں گزرا۔۔۔ اور بقول قرآن۔۔۔ کان من قوم موسیٰ۔[5]۔ یعنی موسیٰ کا چچازاد بھائی۔۔۔۔ اور وہ شخص کہ جو خدا سے ملاقات کے لیے طور تک جا پہنچا۔۔۔۔۔ ایسا کیا ہوا کہ خدا نے موسیٰ جیسے کلیم اللہ نبی کی بعثت کو اسی پاکیزہ اور طور پر جانے والے شخص کی ہدایت میں منحصر کر دیا۔۔۔۔۔ اورفرمایا۔۔ لَقد ارسلنا موسی بآیاتنا۔۔۔۔ الی فرعون و ھامان و قارون۔[6]  یعنی اسی شخص کی ہدایت کے لیے موسیٰ جیسے نبی کو مبعوث کرنا پڑا۔۔۔ ہاں مگر۔۔۔ وآتیناہ من الکنوز ما ان مفاتحہ لَتنوئ بالعصبۃ[7]۔ سے  پتہ چلتا ہے کہ اس کے گمانِ غناء و بے نیازی نے اسے بغاوت پر اکسایا اور پھر بقول سعدی جب اسے یہ کہا گیا۔۔۔ احسن کما احسن اللہ الیک۔[8] کہ جیسے اللہ نے تم پر احسان کیا ہے، تم بھی لوگوں کے ساتھ نیکی سے پیش آو۔ تو اس کا غرور اس سے مانع ہوا اور نہ صرف یہ کہ نصیحت کو قبول نہ کیا بلکہ یوں کہا کہ۔۔۔۔ اوتیتہ علی علم عندی[9] ۔۔۔۔ یہ سب تو میرے علم کا نتیجہ و حاصل ہے۔

فخرج علی قومہ فی زینتہ[10] اور پھر اسی شان و شوکت اور مغرورانہ انداز میں اپنی بغاوت کو عملی جامہ پہنانے لگا۔۔۔کہا۔۔۔ عاقبتش شنیدی۔۔۔ یہی بغاوت و شرکشی اس کی نابودی کا سبب بنی۔۔۔ فخسفنا بہ و بدارہ الارض[11]۔۔ پس زمین پھٹی اور اسے اس کے مال و متاع سمیت نگل لیا۔۔ بقول سعدی۔۔۔ آنکس کہ بدینار و درم خیر نیندوخت۔۔۔۔۔۔۔ سر عاقبت اندر سر دینار و درم کرد۔ وہ شخص کہ جس نے اپنے مال و دولت و ثروت سے نیکی نہ کمائی۔۔۔ تو سرانجام وہی مال و متاع اس کے لیے وبال ِجان بن جاتا ہے۔ خواھی کہ ممتع شوی از دینی و عقبی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باخلق کرم کن چو خدا با تو کرم کرد۔ اگر دنیا و آخرت میں سرخرو ہونا چاہتے ہو تو، خلقِ خدا کے ساتھ اسی طرح نیکی و احسان سے پیش آو، جیسے خدا نے تمہارے حق میں نیکی کی ہے۔ پھر اسی گفتار میں شیخ سعدی نے اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جود و بخشش دکھاوے یا احسان جتلا کر نہ کی جائے۔

 عربوں میں کہاوت ہے کہ ’’جد ولا تمنن فان الفائدہ الیک عائدہ‘‘ یعنی ’’بخشش کرو مگر احسان مت جتلاو  اور بےشک جود و کرم کا فائدہ پلٹ کر تمہاری طرف ہی آتا۔‘‘ فارسی میں کہا جاتا ہے  کہ’’از ھر دست می دھی با ھمان دست میگیری۔‘‘ یعنی جس ہاتھ سے دے رہے ہو، اسی ہاتھ سے واپس مل جائے گا۔ بقول شیخ سعدی۔۔۔۔
درخت کرم ھر کجا بیخ کرد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گذشت از فلک شاخ و بالایِ او۔ یعنی کرم و جود کا پودا جہاں کہیں بھی اپنی جڑیں گاڑ  دے ۔۔۔۔۔ تو پھر اس کی شاخیں حتی آسمانوں سے  ھی تجاوز کر جاتی ہیں۔ گر امیدواری کزو بر خوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بمنت منہ ارہ بر پایِ او۔ اگر بخشش کے درخت کا پھل کھانا چاہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو منت و احسان کے آرے سے اسے خود ہی مت کاٹو۔

شکرِ خدای کن کہ موفق شدی بخیر۔۔۔۔۔۔۔  ز انعام و فضلِ او نہ معطل گذاشت۔ اور خدا کا شکر بجا لاو کہ اس نے اپنے فضل و انعام سے تمہیں اس نیکی (بخشش) کی توفیق عطا کی ہے۔ منت منہ کہ خدا مت سلطان کنی ھمی۔۔۔۔۔۔۔ منت شناش ازو کہ بخدمت بداشتت۔ تمہیں خدا کا شاکر ہونا چاہیئے کہ اس نے تمہیں لوگوں کی خدمت کا موقع دیا۔ پس لوگوں کو عطا کرکے ان پر احسان نہ جتلاو، بلکہ خدا کا شکر ادا کرو کہ اس نے اس مسئولیت کے لیے تمہارا انتخاب کیا۔ اور امیرالمومنین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ’’کماتدین، تُدان و کما تزرع تَحصد و ما قدمت الیوم تقدم علیہ غدا[12] ‘‘ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے اور جو  بوو گے وہی کاٹوگے اور جو آج انجام دے رہے ہو، وہی کل تمہارے سامنے رکھا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]۔ گلستان سعدی، باب ھشتم، گفتار۔۔02۔۔۔ ترجمہ۔۔۔۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قارون کو نصیحت کی کہ لوگوں کے ساتھ احسان کرو، جیسے اللہ نے تمہارے ساتھ احسان کیا ہے۔ لیکن قارون نے اس نصیحت پر کان نہ دھرا۔۔۔۔ سعدی کہتا ہے۔۔۔۔ تو پھر پتہ ہے کہ اس کا انجام کیسا ہوا۔۔۔۔!
[2]۔ مجموعہ آثار شہید مطہری، ج۲۵ ص ۲۴۸
[3]۔ سورہ علق، ۶
[4]۔ فاطر ۱۵
[5]۔ قصص، ۷۶
[6]۔ غافر، ۲۳ و ۲۴
[7]۔ قصص، ۷۶
[8]۔ ایضاً ۷۷
[9]۔ قصص، ۷۸
[10]۔ قصص، ۷۹
[11]۔ قصص ،۸۱
[12]۔ نہج البلاغہ، خطبہ۱۵۳
خبر کا کوڈ : 835605
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Syeda Noorulain Zahra Naqvi
United Kingdom
ماشاءاللہ بہت باکمال اور بے حد مفید لکھا ہے، ایک ایک جملہ علم اور نصیحت سے بھرپور ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے قابل مصنفین کی بہت ضرورت ہے۔ ماشاءاللہ مولا سلامت رکھیں، آمین
ہماری پیشکش