1
0
Sunday 2 Feb 2020 22:37

پاراچنار، بالش خیل شاملات کا آخری حل

پاراچنار، بالش خیل شاملات کا آخری حل
رپورٹ: ایس این حسینی

لوئر کرم کے علاقے ابراہیم زئی کی ملکیتی اراضی پر اصل مالکان اور غاصب قبیلے کے مابین گذشتہ ہفتے مسلح تصادم ہوا، جس میں اگرچہ کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا، تاہم ایسی ہی کوئی معمولی اور ادنیٰ حرکت ایک خطرناک علاقائی تصادم کا باعث بن سکتی ہے۔ کیونکہ یہ علاقہ کرم کا انتہائی حساس علاقہ قرار دیا جاتا ہے۔ اسے علاقائی بولی میں "پرے کڑے" یعنی بارڈر کہا جاتا ہے۔ ایک ہی ضلع کے اندر بارڈر کا مطلب یہ ہے کہ یہ علاقہ شیعہ اور سنی قبائل کے مابین ایک طرح سے مسلکی سرحد ہے اور فریقین کے مابین تصادم یا کسی بھی ٹینشن کی صورت میں حکومت مقابل فریق کے کسی بھی فرد اور گاڑی کو بغیر کسی ضمانت کے آگے نہیں جانے دیتی۔ گذشتہ ہفتے اس علاقے میں جو تصادم ہوا، اہلیان بالش خیل اور ابراہیم زئی اس کا اصل سبب کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔

ابراہیم زئی کے سید نقی شاہ کا کہنا ہے کہ مخالف فریق (سنٹرل کرم کا پاڑہ چمکنی قبیلہ) بالش خیل کی ہزاروں جریب زمین ہڑپ کرنے کے بعد اب ابراہیم زئی کی اراضی میں مسلسل تجاوز کرنے پر تلا ہوا ہے۔ آئے روز ہمارے جنگل سے لکڑی لے جانا اور مویشی چرانا تو ان کا معمول بن ہی چکا ہے۔ صرف اسی پر صبر نہیں کیا جاتا، بلکہ جاتے وقت اکثر اوقات آگ لگا کر ہرے بھرے جنگل کو خاک و خاکستر کرنے سے بھی یہ لوگ نہیں کتراتے۔ آگ لگنے کی صورت میں اپنے افراد کو آگ بجھانے کی غرض سے جنگل بھیجنا پڑتا ہے۔ اس دوران حکومت کی کمک بھی طلب کی جاتی ہے۔ اس دفعہ بھی فائر بریگیڈ کی کمک طلب کی گئی، مگر جنگل اور دشوار گزار راستوں کے باعث ان کی کمک حاصل نہ کی جاسکی۔ فریق مخالف کا یہی معمول بنا ہوا ہے اور مجبوراً ہمارا بھی یہی معمول بنا ہے کہ ان کی زیادتیوں کا انتہائی صبر کے ساتھ مشاہدہ کرتے ہوئے، صرف آگ بجھانے تک محدود ہیں۔

ظفر علی کا کہنا ہے کہ پچھلے سال یعنی 30 دسمبر 2018ء کو بھی آگ لگانے کے معاملہ پر فریق مقابل کے ساتھ دن بھر مسلح تصادم ہوا۔ اس کے بعد مبینہ طور پر انتظامیہ نے فریق کا کردار ادا کرکے ریونیو ریکارڈ کے مطابق ہمارے تحفظات کو دور کرنے کی بجائے فریق مخالف کی طرفداری کی اور ہم سے کہا کہ تصفیہ ہونے تک دونوں فریق جنگل جانے سے گریز کریں۔ یعنی ان کے ساتھ ساتھ ہم بھی اپنے جنگل جانے سے اجتناب کریں اور یہ کہ ہم اپنی ہی اراضی اور جنگل کو متنازعہ قرار دے بیٹھیں۔ تاہم ایسے کسی تصفیے اور فیصلے کی بجائے ہمارے عمائدین نے ریونیو ریکارڈ کے مطابق فریقین کا بارڈر متعین کرنے پر زور دیا۔ مگر اس میں فریق مخالف کا نقصان نظر آنے کے باعث انتظامیہ نے ایسے کسی بھی فیصلے یا تصفیے سے پہلو تہی کی۔

سردار حسین کا کہنا ہے کہ پورا سال پاڑہ چمکنی کے تجاوزات پر صبر کرنے اور حکومت کو بار بار اپنی فریاد پہنچانے کے بعد جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو تقریباً ساڑھے بارہ مہینے اور وہ بھی انتظامیہ کے گوش گزار کرنے کے بعد اپنے جنگل کی حفاظت کیلئے روزانہ کی بنیاد پر بدرقہ (محافظ پارٹی) کا اہتمام کیا۔ چنانچہ وقوعہ کے دن ہماری مسلح پارٹی نے فریق مخالف کا جنگل میں مویشی چرانے اور لکڑی کاٹنے پر محاصرہ کر لیا اور ان کے افراد کو گرفتار کرنے کی کوشش کی، مگر بھاری کمک پہنچنے پر لڑائی شروع ہوگئی، جو کئی گھنٹوں تک جاری رہی، لہذا شرپسندوں کی گرفتاری میں کامبابی تو حاصل نہ کی جاسکی، تاہم دوطرفہ فائرنگ کے نتیجے میں بکھری بھیڑ بکریوں میں سے کچھ اپنے ساتھ لانے میں کامیابی حاصل کی۔ دن بھر لڑائی کے بعد انتظامیہ کی مداخلت سے لڑائی مغرب کے قریب تھم گئی۔

اہلیان ابراہیم زئی میں سے علامہ تجمل حسینی کا کہنا ہے کہ تصادم کے دوسرے روز جب حکومت نے جرگہ تشکیل دیکر انہیں صدہ بلایا اور مویشیوں کا مطالبہ کیا تو ہم نے اپنے پاس موجود تمام بھیڑ بکریوں کو ان کے حوالے کر دیا۔ مگر اگلے روز مزید بھیڑ بکریوں کا مطالبہ کیا گیا تو ہم نے جواباً کہا کہ جنگل میں لڑائی کے دوران معدودے چند جو بھیڑ بکریاں ہمارے ہاتھ آئی تھیں، حوالے کی جا چکی ہیں۔ مزید کوئی چیز ہمارے پاس موجود نہیں۔ مگر حکومت اصرار کرتی رہی کہ جب تک بھیڑ بکریاں حوالے نہیں کی جاتیں، کچھ نہیں ہوسکتا۔ جس پر اہلیان ابراہیم زئی نے کہا کہ ان کی لگ بھگ ایک دیڑھ لاکھ کی دس بارہ بکریاں تو تمہیں نظر آرہی ہیں۔ مگر ہماری کروڑوں کی اراضی اور جنگلات وغیرہ آپکو نظر نہیں آرہی۔
قربان این خدا را
یک بام و دو ہوا را


اہلیان ابراہیم زئی کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقامی انتظامیہ سے انصاف کی کوئی توقع نہیں۔ انہوں نے سیدھے ایک فریق کی حیثت اختیار کر لی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ہمارا یہی ارادہ اور فیصلہ ہے کہ پشاور اور اسلام آباد جاکر بالکل اسی انداز میں اپنی فریاد حکام بالا خصوصاً پاک فوج کے اعلیٰ حکام کے گوش گزار کرائیں کہ کاغذات مال کے مطابق آپ لوگ جو چاہیں فیصلہ سنائیں اور مقابل فریق کے ساتھ ہمارے تنازعہ کا ابدی حل نکالیں۔ آپ نہیں کرسکتے تو ہمیں خود اجازت دی جائے کہ ہم اپنے زور بازو سے اپنا حق چھین سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگلے جمعہ کو علامہ سید عابد حسینی بالش خیل مسجد میں جمعہ پڑھانے آرہے ہیں اور اس موقع پر اپنی پالیسی کا اعلان کریں گے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کیا اعلان کرنے والے ہیں تو جواباً کہا گیا کہ ابھی تک کسی کو اس حوالے سے کوئی پتہ نہیں کہ وہ کیا کہنے والے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 842194
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ارشاد علی
Pakistan
یہی آخری حل ہے۔ کافی دیر ہوگئی۔ مگر اب بھی ٹھیک ہے۔ اللہ کرے مومن کامیاب ہوں۔
ہماری پیشکش