0
Thursday 6 Feb 2020 12:37

اظہار یکجہتی مگر الگ الگ کیوں؟؟

اظہار یکجہتی مگر الگ الگ کیوں؟؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

لاہور سمیت دنیا بھر میں 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا۔ لاہور میں پنجاب حکومت کی جانب سے مرکزی تقریب کا اہتمام مال روڈ پر پنجاب اسمبلی کے سامنے فیصل چوک میں کیا گیا۔ تقریب میں وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار مہمان خصوصی تھے اور انہوں نے خطاب بھی کیا۔ اسی طرح دیگر وزراء اور ارکان اسمبلی بھی تقریب میں شریک ہوئے۔ شرکاء کی بھی ایک بڑی تعداد اس جلسے میں شریک ہوئی۔ سول سیکرٹریٹ سے سرکاری افسران اور سیکرٹریٹ ملازمین کی بڑی تعداد چیف سیکرٹری کی قیادت میں ریلی کی صورت میں فیصل چوک پہنچے۔ لاہور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ، محکہ صحت، پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ سمیت دیگر سرکاری اداروں سے بھی ملازمین کی ریلیاں فیصل چوک پہنچیں، جہاں مرکزی جلسے میں شریک ہوئیں۔ لاہور کے تمام ہسپتالوں میں بھی ریلیاں نکالی گئیں۔

شرکائے جلسہ نے بینرز اور پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے، جن پر کشمیریوں کے حق میں اور بھارت کیخلاف نعرے درج تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے فیصل چوک سے تھوڑا ہی آگے، مشرق کی طرف الحمراء چوک میں جلسہ کیا گیا۔ اس جلسے میں مسلم لیگ (ن) لاہور کی قیادت شریک ہوئی۔ لیگی رہنماوں نے بھی یکجہتی کشمیر کے حوالے سے بلند بانگ تقاریر کیں، کشمیر کی آزادی کیلئے اقتدار میں نواز شریف کی ضرورت پر زور دیا۔ مسئلہ کشمیر کا واحد حل یہ تجویز کیا گیا کہ اگر نواز شریف یا شہباز شریف وزیراعظم ہوتے تو مسئلہ کشمیر حل ہوچکا ہوتا۔ فیصل چوک کی مغربی جانب ریگل چوک میں جماعت اسلامی نے اپنا پنڈال سجایا ہوا تھا۔ جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل امیر العظم سمیت دیگر صوبائی قیادت نے خطابات کئے۔ جماعت اسلامی کے جلسے میں بھی کشمیر کی آزادی کیلئے "جراتمند اور ایماندار قیادت" کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

جماعت اہلحدیث کی جانب سے دالگراں چوک سے ریلی نکالی گئی۔ تحریک لبیک پاکستان نے داتا دربار سے پنجاب اسمبلی تک ریلی نکالی۔ اسی طرح تحریک صراط مستقیم نے بھی شاد باغ سے رنگ روڈ تک یکجہتی کشمیر ریلی کا اہتمام کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اس میں اپنا تھوڑا سا حصہ ڈالا اور ثمینہ خالد گھرکی اور عزیزالرحمان چن کی قیادت میں چند کارکنوں نے لاہور پریس کلب کے باہر کیمپ لگایا اور کشمیریوں کے حق میں نعرے بازی کرکے گھروں کو رخصت ہوگئے۔ ریلیوں کے علاوہ شہر بھر میں سیمینارز کا بھی اہتمام کیا گیا، جس میں شہریوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ لاہور کے تمام کالجز اور یونیورسٹیز میں تقاریب اور ریلیاں ہوئیں۔ سیمینارز میں بھی مقررین نے کشمیر کی آزادی کیلئے پاکستانی حکومت کے کردار پر روشنی ڈالی۔

ریلیاں ہوں یا سیمینارز، جلسے ہوں یا احتجاجی مظاہرے، ہر جگہ کشمیر کی آزادی کیلئے مضبوط بنیادوں پر جدوجہد کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا، مگر افسوس کہ کشمیر کی آزادی کیلئے مشترکہ جدوجہد کا سبق دینے والے خود متحد نہیں ہوسکے۔ صرف ایک شہر لاہور کی مثال لے لیجئے کہ صرف مال روڈ پر 4 بڑے اجتماعات ہوئے، ایک پنجاب حکومت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف نے فیصل چوک میں کیا، نون لیگ نے الحمراء چوک میں جلسہ کیا، جماعت اسلامی نے مال روڈ پر ہی ریگل چوک میں سٹیج سجایا اور تحریک لبیک نے بھی مال روڈ پر ہی ریلی نکالی۔ اسی طرح شہر کے دیگر علاقوں میں نکلنے والی ریلیاں بھی اگر مال روڈ کا رخ کر لیتیں اور مال روڈ پر اہلیاں لاہور کی جانب سے ایک مشترک پروگرام کا انعقاد کر دیا جاتا تو اس کا ایک مثبت پیغام دنیا کو پہنچتا کہ کشمیر کی آزادی کیلئے پوری پاکستانی قوم متحد و متفق ہے، مگر افسوس کہ ہمیں کشمیر کاز سے زیادہ اپنے "بُت" زیادہ عزیز ہیں اور ہم اپنے اپنے "جماعتی بت" کندھوں پر اٹھائے گھوم رہے ہیں۔

تحریک انصاف سوچتی ہے کہ اگر ہم نے نون لیگ کیساتھ مل کر جلسہ کر لیا تو لوگ سمجھیں گے "این آر او" ہوگیا ہے۔ پی پی پی کہتی ہے کہ ہم نے حکومت یا نون لیگ کیساتھ مل کر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کر لیا تو ہماری حیثیت مشکوک سمجھ لی جائے گی۔ جماعت اسلامی کہتی ہے، ہم نے کسی اور جماعت کیساتھ مل کر کوئی پروگرام تشکیل دیدیا تو لوگ کہیں گے جماعت اسلامی کے پاس قیادت نہیں، جو یہ دوسروں کے سہارے لیتی پھر رہی ہے۔ تحریک لبیک سمجھتی ہے کہ ہم نے اگر کسی اور پروگرام میں شرکت کی تو ہماری شناخت متاثر ہوگی۔ بس یہاں اگر کسی کو فکر ہے تو اپنے "جماعتی بُت" کی فکر ہے، اپنی پارٹی کی ساکھ کی فکر ہے، اگر فکر نہیں تو مظلوم کشمیریوں کی فکر نہیں۔

یہ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ہم کشمیری قائدین کو تو کہتے ہیں کہ جدوجہد آزادی میں وحدت کا مظاہرہ کریں اور مل جل کر جدوجہد کریں، مگر ہم خود یہاں متحد نہیں ہوسکتے۔ ہماری اپنی یہ حالت ہے کہ ہم اپنے اپنے جماعتی حصار سے ہی باہر نہیں نکل سکتے۔ جب ہماری اپنی حالت یہ ہے تو ہم کشمیر کو کیسے آزاد کروا سکتے ہیں۔ ہمیں کشمیر کی آزادی کیلئے متحد ہونا ہوگا۔ ہندو کو اس کی ذہنیت کے مطابق جواب دینا ہوگا۔ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں گے تو مقصد حاصل ہوگا، بصورت دیگر صرف ریلیاں نکال کر نعرے لگانے سے کشمیر آزاد نہیں ہوسکتا، یہ پریکٹس ہم گذشتہ 70 سال سے کر رہے ہیں۔ حکومت کو کشمیر کے حوالے سے عالمی برادری کی غلط فہمیاں بھی دور کرنا ہوں گی، اس حوالے سے سفارتخانوں کو نئے اہداف دینے ہوں گے اور عالمی برادری کو بتانا ہوگا کہ کشمیر میں انسان بستے ہیں، جن کے کچھ حقوق بھی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 842963
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش