8
Wednesday 4 Mar 2020 19:27

امریکا طالبان معاہدہ اور افغانستان کا امن

امریکا طالبان معاہدہ اور افغانستان کا امن
تحریر: محمد سلمان مہدی

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 29 فروری 2020ء بروز جمعہ ایک فوٹو سیشن اجتماع ہوا۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے اس اجتماع کو بین الاقوامی سطح پر شہرت بھی دی۔ خبر یہ تھی کہ ملا عبدالغنی برادر اور زلمی خلیل زاد نے ایک تحریری اتفاق نامے پر دستخط کئے۔ عبدالغنی برادر افغان طالبان کے کمانڈر ہیں۔ زلمی خلیل زاد امریکی وزارت خارجہ (اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ) کی طرف سے نمائندہ خصوصی برائے مفاہمت افغانستان ہیں۔ اس اتفاق نامے کو امریکا و طالبان امن معاہدے کا نام دیا گیا۔ خلیل زاد افغان نژاد امریکی ہیں۔ فریقین نے جن نکات پر اتفاق کیا، ان میں اہم ترین یہ تھا کہ امریکا اور دیگر غیر ملکی افواج 14 ماہ میں افغانستان سے نکل جائیں گی، بشرطیکہ کہ طالبان اس ضمن میں سکیورٹی ضمانت دے اور یہ عہد کرے کہ وہ افغانستان کی قومی حکومت سے مذاکرات کرے گی۔ ساتھ ہی فریقین نے اتفاق کیا کہ طالبان ایک ہزار مغویوں کو رہا کرے گی، مگر یہ کہ بدلے میں افغان حکومت طالبان کے پانچ ہزار قیدی آزاد کرے۔

قیدیوں کے تبادلے کی شرط افغان طالبان نے بہت پہلے سے پیش کررکھی ہے، مگر افغان صدر اشرف غنی اس کو نہیں مان رہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ مذاکرات کو اس سے مشروط کرنے کو وہ قبول نہیں کرتے۔ خیر اس موقف کے ہوتے ہوئے بھی افغان طالبان اور امریکی حکومت نے اتفاق نامے پردستخط کئے اور ”معاہدہ دوحہ“ کی خبروں کی ابھی بازگشت تھمی بھی نہیں تھی کہ 2 مارچ بروز پیر افغانستان دھماکوں سے گونج اٹھا۔ پتہ چلا کہ وہی افغان طالبان کہ جن سے امریکی حکومت نے اعلانیہ ایگریمنٹ کیا تھا، اسی نے حملوں کی ذمے داری قبول کرلی۔ اس کے بعد 3 مارچ 2020ء بروز منگل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کی طالبان رہنما سے بہت اچھی ٹیلیفونک بات چیت ہوئی ہے۔ پھر آج 4 مارچ بروز بدھ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے خبر دی کہ طالبان کے حملوں میں کم از کم 20 افغان فوجی اور پولیس اہلکار مارے گئے۔ ان میں سے 10 فوجی اور 4 پولیس اہلکار ضلع قندوز ضلع امام صاحب تین سکیورٹی چیک پوسٹ حملوں میں مارے گئے۔

طالبان و امریکا اتفاق نامے سے پہلے بھی دونوں کے مابین روابط کی ایک طویل داستان ہے، جو ماضی میں متعدد مرتبہ تحریر کی جاچکی ہے۔ آج 2020ء میں افغانستان سے متعلق حقائق ماضی کی نسبت زیادہ آشکارا ہیں۔ امریکا سمیت غیر ملکی افواج امریکا میں نائن الیون 2001ء حملوں کے بعد افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کے وقت سے موجود ہیں۔ یعنی 18 سال سے بھی زیادہ عرصہ۔ امریکی و نیٹو یا ایساف فورسز کی افغانستان میں موجودگی دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے تھی یا کوئی اور ہدف تھا!؟ امریکی جنگ کا مقصد نائن الیون کے مجرموں کو سزا دینا تھا!؟ کیا یہ دونوں اہداف حاصل ہوگئے!؟ امریکا نے خالد شیخ محمد کو نائن الیون حملوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا ہے۔ یہ افغانی نہیں ہے۔ یہ آدمی 2003ء سے امریکا کی تحویل میں ہے اور آج تک اس پر باقاعدہ نائن الیون کا مقدمہ چلایا ہی نہیں گیا۔ بلکہ سال 2019ء ماہ اگست کے آخر میں ایک فوجی جج نے خالد شیخ محمد سمیت پانچ ملزمان کی سزائے موت کا مقدمہ چلانے کے لئے فوجی جیوری کے انتخاب کے لئے 11 جنوری 2021ء کی تاریخ مقرر کی ہے۔ یعنی تاحال نائن الیون حملوں میں مارے جانے والے 2976 انسانوں کے ورثاء انصاف کے منتظر ہیں۔ یہ امریکا کے عدالتی نظام کی کارکردگی ہے!!۔؟ یعنی جو حملہ آور ہیں، جو منصوبہ ساز ہیں، جو ماسٹر مائنڈ ہیں، وہ تو زندہ ہیں، مگر ہزاروں افغانی بے جرم و خطا، امریکی، نیٹو ایساف فوجیوں نے مار ڈالے۔

نائن الیون حملوں کو جواز بنا کر پورے افغانستان کو اجتماعی مجرم بنا کر سزا دے دی۔  قبضہ کرکے بیٹھ گئے۔ مگر خالد شیخ محمد کی قانونی حیثیت ملزم ہے اور تاحال وہ مجرم بھی نہیں!؟۔  امریکا نے جو جنگ مسلط کی، تب سے افغانستان کے امور میں سیاہ و سفید کے مالک امریکی حکام ہی رہے ہیں۔ اگر افغانستان میں آج بھی دہشت گردی ہے، ناامنی ہے تو بنیادی طور پر ذمے دار خود امریکا، نیٹو ایساف میں شامل حکومتیں ہی ہیں۔ اگر افغانستان میں جمہوریت مستحکم نہیں ہوسکی، تب بھی ذمے دار کون ہے!؟  حامد کرزئی یا اشرف غنی یا عبداللہ عبداللہ یا دوستم وغیرہ تو امریکی اتحاد کے رحم و کرم پر رہے ہیں۔ ناکامی کا سارا ملبہ ان پر ڈالنا خلاف عقل ہے، البتہ کسی نہ کسی حد تک وہ بھی ذمے دار ہیں۔ افغانستان کی تعمیر نو نہ ہونے کی ذمے داری بھی غیر ملکی قابضین پر ہی عائد ہوتی ہے۔

درحقیقت افغانستان کی موجودہ صورتحال امریکی سامراجی ایجنڈا کے عین مطابق ہے۔ یعنی مسلمان ملک افغانستان میں مقامی آبادی غیر محفوظ ہے، مگر غیر ملکی قابضین بے خوف ہوکر آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں۔ افغانستان کے صدر، چیف ایگزیکیٹیو،  وزراء، افواج اور پولیس کے خلاف دہشت گردانہ حملوں میں کبھی وقفہ نہیں آتا۔ مساجد، امام بارگاہ، مزارات، تعلیمی ادارے، شادی کی تقریبات، کہیں بھی دہشت گرد حملہ کر دیتے ہیں۔ یعنی افغانستان میں افغانی شہری غیر محفوظ ہیں، مگر غیر افغانی غیر مقامی امریکی و نیٹو ایساف کے اہلکار ان کی نسبت زیادہ محفوظ ہیں۔ یہ آج نائن الیون کے اٹھارہ سال اور چند ماہ بعد کا افغانستان ہے۔  سوویت کمیونسٹ یلغار کے بعد امریکی و نیٹو مغربی بلاک نے افغانستان جنگ لڑنے کے لئے جو پراکسی مسلح گروپ بنائے تھے، وہی اور انکی باقیات نت نئے ناموں سے افغان مسلمانوں پر فولاد کی طرح سخت نظر آتے ہیں۔ اغیار کے لئے وہ ریشم سے زیادہ نرم دکھائی دیتے رہے ہیں۔

بات کہیں سے کہیں نہ نکل جائے، پلٹتے ہیں امریکا طالبان اتفاق نامے یا معاہدہ دوحہ پر۔ اس پر دستخط کرنے والے ذلمی خلیل زاد خود کارپوریٹوکریسی مفادات کے نمائندے ہیں، انکی بیگم چیرل بینارڈ ہیں۔ یہ جوڑا نظریاتی لحاظ سے امریکا کے زایونسٹ اسرائیلی یا نیوکونز میں شمار ہوتا ہے۔ سرد جنگ کے دور کے متنازعہ امریکی یہودی فوجی اسٹراٹیجی کے امور کے ماہر البرٹ جیمز وولسٹیٹر نے زلمی خلیل زاد کو رینڈ کارپوریشن اور امریکی حکومتی حلقوں میں متعارف کروایا تھا۔ خلیل زاد اور انکی بیوی میں ایک قدر مشترک ان کی لبنان میں امریکن یونیورسٹی آف بیروت سے تعلیم بھی ہے۔ خلیل زاد  1985ء تا 1989ء امریکا کے محکمہ خارجہ میں، 1991ء تا 1992ء امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون میں، 1993ء تا 1999ء رینڈ کارپوریشن اور اسی دوران کیمبرج انرجی ریسرچ ایسوسی ایٹس کی طرف سے کنسلٹنٹ برائے یونوکال انرجی کمپنی رہے۔ انکا ذاتی کاروبار بھی ہے۔ زلمی خلیل زاد پراجیکٹ فار نیو امریکن سینچری پر دستخط کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ انتہاء پسند امریکی تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن سے خلیل زاد ماضی میں وابستہ رہے، جبکہ ان کی بیوی چیرل بینارڈ مسلمانوں میں اسرائیل اور امریکا کی مرضی کے نئے مسلمان گروہ اور نظریات کے پراجیکٹ پر رینڈ کارپوریشن کے لئے اپنے نظریات لکھتیں رہیں ہیں۔

اسی تسلسل میں اہم ترین نکتہ یہ بھی کہ خلیل زاد سال 2001ء میں افغان فاؤنڈیشن کے بورڈ رکن تھے اور تب انہیں امریکی قومی سلامتی کاؤنسل میں سینیئر ڈائریکٹر کے عہدے پر مقرر کیا گیا۔ وہاں جنوب مغربی ایشیاء، خلیج اور اسلامی دنیا سے متعلق امور ان کے زیر نظر تھے۔ بش جونیئر کے دور صدارت میں خلیل زاد افغانستان اور عراق دونوں ممالک میں امریکا کے سفیر رہ چکے ہیں۔ یعنی سال 2003ء تا 2005ء افغانستان میں امریکی سفیر۔ وہیں سے امریکا نے انکا تبادلہ کرکے عراق میں سفیر مقرر کر دیا۔ سال 2007ء تک عراق میں امریکی سفیر رہنے کے بعد اقوام متحدہ میں امریکا کی نمائندگی کی۔ باراک اوبامہ نے جب افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد میں کمی کا اعلان کیا تو زلمی خلیل زاد نے مخالفت کی۔ جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد میں اضافے و قیام میں توسیع کی بات کی تو زلمی خلیل زاد نے حمایت کی۔ فرانسیسی محقق تھیئری میسان نے اپنی تحقیقاتی کاوش نائن الیون دی بگ لائی میں لکھا کہ جب افغانستان میں طالبان حکومت کیا کرتے تھے، تب ان کی حمایت میں خلیل زاد کا مقالہ واشنگٹن پوسٹ میں شائع بھی ہوا۔

دوسری جانب طالبان کمانڈر ملا عبدالغنی برادر کو فروری 2010ء میں آئی ایس آئی اور سی آئی اے نے مشترکہ آپریشن میں گرفتار کر لیا تھا۔ البتہ مشہور صحافی و مصنف احمد رشید نے اس گرفتاری سے متعلق بہت اہم انکشاف اپنی تصنیف پاکستان اون دی برنک میں کیا ہے۔ ان کے مطابق اعلیٰ فوجی افسر نے بتایا کہ اس گرفتاری کا مقصد امریکیوں کو خوش کرنا ہرگز نہیں تھا، بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ ملا عبدالغنی برادر نے بالا ہی بالا خفیہ طور پر امریکی سی آئی اے سے پچاس لاکھ ڈالر رشوت وصول کی تھی۔ طالبان امریکا تعقات پر ماضی میں تفصیل سے لکھا جاچکا، اس لئے تکرار مناسب نہیں۔  قصہ مختصر یہ کہ پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستان کے سکیورٹی ادارے کو اعتماد میں لئے بغیر عبدالغنی برادر امریکی سی آئی اے سے پچاس لاکھ ڈالر لے چکے تھے۔  یعنی وہ امریکا کے پے رول پر ہی تھے اور فروری 2018ء میں انہیں امریکا کے کہنے پر ہی آزاد کیا گیا۔

یعنی دوحہ کے فوٹو سیشن میں ایک افغان نژاد امریکی زلمی خلیل زاد نے امریکا کی نمائندگی کی تو دوسری طرف سی آئی اے کے ساتھ معاملات طے کرکے زندگی گزارنے والے ملا برادر نے افغان طالبان کی نمائندگی کی۔ دونوں طرف امریکا ہی امریکا تھا۔ خلیل زاد کا تعارف اسی لئے کروایا ہے کہ اسکا زایونسٹ کنیکشن باآسانی سمجھا جاسکے۔ یہ زایونسٹ لابی اور کارپوریٹو کریسی کا مشترکہ کھیل ہے۔ سیاسی و نظریاتی لحاظ سے اسرائیل کی سکیورٹی کو لاحق خطرات دور کرنا ہیں، اقتصادی لحاظ سے قدرتی وسائل اور خاص طور پر انرجی ذخائر پر پر کنٹرول ہدف ہے۔  زلمی خلیل زاد اسی مشترکہ کھیل کھیلنے والوں کے لئے خدمات انجام دینے کی طویل تاریخ رکھتے ہیں اور افغانستان سمیت خطے کے کسی بھی مسلمان و عرب ملک کا امن اس کارپوریٹوکریسی و زایونسٹ اتحاد کو منظور نہیں۔ اس لئے ڈونلڈ ٹرمپ کی عبدالغنی برادر سے بہت اچھی ٹیلیفونک گفتگو کے بعد بھی افغانستان کے فوجی اور پولیس اہلکار مارے جا رہے ہیں۔ ٹرمپ کو یہ فوٹو سیشن معاہدہ اس لئے درکار تھا کہ صدارتی الیکشن مہم میں اسے استعمال کرکے بے وقوف امریکیوں کو مزید بے وقوف بناسکے۔
خبر کا کوڈ : 848412
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش