0
Thursday 2 Apr 2020 00:36

کرونا وائرس۔۔۔۔ ابھی بھی دیر نہیں ہوئی

کرونا وائرس۔۔۔۔ ابھی بھی دیر نہیں ہوئی
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

مذہبی طبقات کا کوئی ایک مسئلہ نہیں، یہ ہمیشہ خود ہی بے دین لوگوں کو دین کی مخالفت کا موقع دیتے ہیں۔ کیا الیکٹرانک میڈیا اور کیا پرنٹ میڈیا، ایک تو مذہب دشمن عناصر بہت مکار ہیں اور دوسرے دیندار لوگ بہت شریف واقع ہوئے ہیں، سونے پر سہاگہ یہ کہ دین کے لبادے میں بعض مکار لوگ بھی چھپے ہوئے ہیں، جو کمالِ مہارت کے ساتھ ہر اہم مسئلے کو اس طرح اٹھاتے ہیں کہ جیسے دنیا میں ہر مسئلہ شیعہ و وہابی مسئلہ ہی ہے اور دنیا کا ہر تنازعہ سعودی عرب اور ایران کا ہی ایجاد کردہ ہے۔ اس سے بھی زیادہ سادگی یہ ہے کہ چند شرپسند لوگوں کی من گھڑت پوسٹوں کو  اچھے خاصے دیندار، مہذب اور پڑھے لکھے لوگ بھی بغیر کسی تحقیق کے سوشل میڈیا پر وائرل کرتے رہتے ہیں، اس کے بعد وہی مسئلہ بگڑ کر انہی دیندار طبقات کے خلاف ہی ہتھیار بن جاتا ہے۔ دینی جماعتوں اور تنظیموں کو اس سلسلے میں سمجھداری سے کام لینا چاہیئے۔

اس وقت ہر طرف لبرل اور سوشلسٹ و سیکولر حضرات دینی طبقوں کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کئے ہوئے ہیں، علمائے کرام کی ایسی تقاریر، پیغامات اور بیانات کو بار بار وائرل کیا جا رہا ہے، جن میں کرونا کے بارے میں خلاف حکمت کچھ کہا گیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ خود دینی طبقات کی طرف سے ہی ایسے خطبات و بیانات کی فوراً تردید آجانی چاہیئے اور دوسری بات یہ ہے کہ ہر دینی تنظیم، جماعت اور سربراہ کی اوّلین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارم اور منبر و محراب سے اٹھنے والی ہر غلط بات کا فوراً نوٹس لے۔ ابھی زائرین تفتان میں ہی تھے کہ کرونا وائرس اور اہل تشیع کو لازم و ملزوم بنا دیا گیا۔ آگے چل کر تبلیغی جماعت کے افراد میں کرونا کے مریضوں کا انکشاف ہوا تو یہ وائرس تبلیغی بھی ہوگیا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان ایک مہذب زندگی گزارنے پر راضی ہی نہیں ہیں۔ دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق اگر ہم واقعی مسلمان ہوتے تو تفتان میں جب زائرین مشکل میں تھے تو دیگر ہماری ذمہ داری بنتی تھی کہ ہم آگے بڑھ کر انہیں مسافر اور بے وطن انسان ہی سمجھ کر ان کی مدد کرتے اور حکومت کو مجبور کرتے کہ حکومت ان مسافروں کو  قرنطینہ کے طبی معیارات کے مطابق اپنی تحویل میں لے۔

دوسری طرف اگر تبلیغی جماعت کے افراد میں کرونا پایا گیا ہے تو یہ خدانخواستہ خوشی یا اچھالنے کی بات نہیں، اہلِ تشیع سمیت تمام مسالک کو بھی چاہیئے کہ وہ آگے بڑھ کر اس مشکل وقت میں تبلیغی جماعت کی ہر ممکنہ مدد کریں۔ جہاں تک ہمارے ہاں کے سوشلسٹس، لبرلز اور سیکولر حضرات کی بات ہے تو وہ کسی طور بھی دینی طبقات کے ہمدرد نہیں ہیں۔ یہ غیر دیندار لوگ ہمیشہ سے پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں اور مذہبی طبقات ان کی چالوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اب اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ نے یہ بیان دیا ہے کہ تبلیغی جماعت لاوارث نہیں، اس کے خلاف ظلم و زیادتی برداشت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ جماعت پرامن ضرور ہے لیکن لاواث نہیں ہے، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ تبلیغی جماعت لاوارث ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔

 قارئین محترم! اس میں خوش ہونے کی بات نہیں، ہمیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ یہ سیاسی لوگ دینی طبقوں کو ذلیل کروانے کے بعد اس طرح کے بیانات دے کر اپنا حقیقی چہرہ چھپا لیتے ہیں۔ یہ لوگ نہ سلفی و اہلحدیث ہیں، نہ شیعہ ہیں اور نہ ہی  بریلوی بلکہ انہیں یہ فن آتا ہے کہ کس وقت کس طرح کی بات کرکے کس کو خوش کرنا ہے۔ عقلمند افراد کیلئے حقیقت کو جاننے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اس نکتے کو سمجھیں کہ ایک طرف تو اسپیکر پنجاب اسمبلی نے یہ بیان دیا ہے اور دوسری طرف جیو نیوز کے پروگرام "آج شاہ زیب خانزادہ کیساتھ" میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ میں سب سے زیادہ کیسز ان لوگوں کے ہیں، جو تبلیغی اجتماع سے واپس سندھ میں آئے۔ اب قارئین کو معلوم ہونا چاہیئے کہ حقیقت حال یہ ہے کہ 11 مارچ کو ایک اندازے کے مطابق تقریباً اڑھائی لاکھ افراد اس تبلیغی اجتماع میں جمع ہوئے تھے۔ یہ پانچ روزہ اجتماع تھا، جسے بارش کے باعث دوسرے دن ہی ختم کر دیا گیا تھا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے تو ایسے بیان دیا ہے جیسے یہ اڑھائی لاکھ لوگ صرف سندھ سے ہی آئے تھے، البتہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اس اجتماع میں آنے والے لوگوں کی اکثریت صرف دیندار ہی نہیں ہوتی بلکہ تبلیغ کے سلسلے میں بہت زیادہ فعال ہوتی ہے، بعض امام جماعت ہوتے ہیں، بعض قاری قرآن اور حفاظ ہوتے ہیں، جو مختلف شہروں اور دیہاتوں میں چھوٹے بڑے مدارس سے لے کر چھوٹے چھوٹے دیہی تبلیغی مراکز میں بھی کوچے و گلی کی سطح پر تبلیغی خدمات انجام دیتے ہیں۔ معاشرے میں ان کی ایک عزت اور آبرو ہے، حکومتی مسئولین کو لوگوں کو بیوقوف بنانے کیلئے جوشیلے بیانات دینے کے بجائے تبلیغی جماعت کے اکابرین سے بات کرنی چاہیئے۔ انہیں اعتماد میں لے کر جگہ جگہ تمام طبی سہولیات اور شرائط کے ساتھ قرنطینہ مراکز قائم کرنے چاہیئے، تاکہ یہ معزز و محترم لوگ خوف و ہراس کے بجائے خوشی سے آئیں اور اپنا علاج کروائیں۔

اگر صورتحال اسی طرح بگڑتی گئی، جیسا کہ تبلیغی جماعت کے کچھ غیر ملکی باشندوں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے اور اسی طرح بارہ کہو اسلام آباد اور دیگر کچھ مقامات کے بارے میں بھی اس طرح کی اطلاعات موجود ہیں۔ اس وقت اگر اس مسئلے کا فوری حل نہیں نکالا گیا تو کوئی بڑا انسانی المیہ پیش آسکتا ہے۔ بالآخر وائرس آخر وائرس ہے، اگر یہ وائرس یونہی پھیلتا گیا تو یہی جوشیلے بیان دینے والے سیاستدان پھر کہیں گے کہ یہ سب تبلیغی جماعت والوں نے پھیلایا ہے، ویسے بھی دیندار لوگوں کے بارے میں ان کے نظریات کو جو ابھی تک نہ جانتا ہو، وہ اس سلسلے میں فواد چودھری کے بیانات پر ہی غور و فکر کرلے۔ آخر میں راقم الحروف کی ملک کے سیاستدانوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ ابھی بھی دیر نہیں ہوئی، خدا را گرم اور جوشیلے بیانات دے کر لاشوں پر سیاست نہ چمکائیں، آپ کو مذہبی طبقات کو استعمال کرنے کے اور بہت سارے مواقع ملیں گے، یہ قیمتی انسانی جانوں کا مسئلہ ہے، اسے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق حل ہونے دیں، اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔
خبر کا کوڈ : 854118
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش