1
0
Monday 13 Apr 2020 17:33

قرآن اور امام مہدی علیہ السلام

قرآن اور امام مہدی علیہ السلام
تحریر: سیدہ زینب اقرار

خدائے بزرگ و برتر نے یہ کائنات خلق کی تو وجہ تخلیق کائنات بھی خلق کیے اور وہ ہستیاں ایسی ہیں، جن کے بغیر دنیا کا نظام نہیں چل سکتا۔ خدا کی محبت کے بغیر کبھی بھی کائنات خالی نہیں رہی، ہر دور میں خدا کی حجت دنیا میں موجود رہی اور ابھی بھی خدا کی آخری حجت باقی ہے۔ جس کے انتظار میں قیامت رُکی ہوئی ہے۔ خدا نے اپنی حجت کا ذکر قرآن مجید میں مختلف مقامات میں مختلف انداز میں کیا ہے۔ یوں تو واضح انداز میں خدا نے بااسم ذکر نہیں کیا، مگر جب ان آیات کی تفاسیر پڑھی جاتی ہیں تو حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ ان میں سے کچھ آیات اور تفاسیر آپ کے لیے پیش خدمت ہیں: سورہ بقرہ کی آیت ۲۴۸ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ قَالَ لَہُمۡ نَبِیُّہُمۡ اِنَّ اٰیَۃَ مُلۡکِہٖۤ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمُ التَّابُوۡتُ فِیۡہِ سَکِیۡنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ بَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوۡسٰی وَ اٰلُ ہٰرُوۡنَ تَحۡمِلُہُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ "اور ان سے ان کے پیغمبر نے کہا: اس کی بادشاہی کی علامت یہ ہے کہ وہ صندوق تمہارے پاس آئے گا، جس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے سکون و اطمینان کا سامان ہے اور جس میں آل موسیٰ و ہارون کی چھوڑی ہوئی چیزیں ہیں، جسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے، اگر تم ایمان والے ہو تو یقیناً اس میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے۔"

امام عصر و زمان علیہ السلام انبیاء و اوصیاء کے وارث ہیں۔ آپؑ کے پاس بہت سے انبیاء کی میراث ہے، جیسا کہ آیہ کریمہ میں ذکر ہے کہ اس صندوق میں بہت سے تبرکات جو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد نے یادگار چھوڑ ہیں، جس صندوق میں کہا جاتا ہے کہ بہت سے انبیاء کی تصاویر، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصاء، اس کے علاوہ توریت کی تختیاں بھی موجود ہیں تو اب یہ صندوق کہاں ہے۔؟ اس کا وارث کون ہے؟ جیسا کہ قرآن کی اس آیہ مجیدہ میں رب العزت فرما رہا ہے کہ صندوق کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے اور یہ ان (حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ) کے وارث کے پاس ہوگا اور ایمان رکھنے والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔ تو وارث تو حجت خدا کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتا۔ پروردگار کے حکم سے امام مہدی علیہ السلام اس صندوق کو یہودیوں کو دکھائیں۔ جب یہودی اس گمشدہ صندوق کو دیکھیں گے تو تعجب کریں گے اور ایک کثیر تعداد امامؑ پر ایمان لے آئے گی، کیونکہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ جس کے پاس یہ صندوق ہو، اس کے سامنے سر تسلیم خم کر لو۔

عن الامام الصادق (علیہ السلام): "السلاح فینا بمنزلۃ التابوت فی بنی إسرائیل، یدور الملک حیث دارالسلاح، کما کان یدور حیث دار التابوت" امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے: "سلاح (ہتھیار) ہمارے درمیان بنی اسرائیل کے صندوق کی طرح ہے، یہ سلاح جس طرف کا چکر لگاتا ہے، وہاں ہماری حکومت قائم ہوتی ہے، جیسے کہ صندوق جہاں جاتا تھا، وہاں حکومت قائم ہو جاتی تھی۔" (بصائر الدرجات ص 197، الخصال ص117۔ رواہ الصدوق فی الخصال: 1/ 116 ح 98 عن أبیہ وعنہ فی البحار: 25/137 ح 7 وعن لکافی: 1/ 284 ح 1 بسند آخر (مثلہ). وأوردہ فی مختصر البصائر: ص 8) سلاح اور صندوق الٰہی حکومت کے قیام کا مظہر ہیں، دونوں میں سے ایک بھی جہاں ہو، وہاں پر الٰہی حکومت کا قیام لازم ہے اور اگر دونوں نشانیاں ایک ہی ہستی کو مل جائیں تو انسان کے لیے مشکل ہی ہے، وہ اس الٰہی حکومت کی خوبیوں کو سمجھ سکے۔ اس حکومت کے فضائل خود نبی پاک ﷺ یا ان کے حقیقی جانشین ہی اس کی اوصاف کا ذکر کرسکتے ہیں: حضرت رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: "میری نسل سے مہدیؑ ہوگا۔ اس کی حکومت میں اُمت کو ایسی نعمتیں ملیں گی، جو پوری انسانی تاریخ میں کبھی کسی کو نہیں ملی ہوں گی۔ ہر چیز دستیاب ہوگی اور آزادانہ تقسیم ہوگی۔ اس وقت مال کا انبار ہوگا۔" (السنن (ابن ماجہ): باب ۳۴(باب خروج المہدی)، ح ۴۰۸۳، مستدرک الصحیحین: ۴/۵۵۸)

سورہ فتح آیت ۲۸ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا۔ "وہ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ وہ اسے ہر دین پر غالب کر دے اور گواہی دینے کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔" تفسیر قمی میں ہے کہ اس سے مراد امام مہدی علیہ السلام ہیں، جنہیں پروردگار تمام ادیان پر غالب قرار دے گا۔ پس آپؑ تمام زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور اس کو اس طرح پُر کریں گے جیسے وہ ظلم و جور سے پُر ہوچکی ہوگی۔ (تفسیر قمی، ص۳۱۷، ج۲، طبع نجف الاشرف) حذیفہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اکرم ﷺ نے حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: "مقام ابراہیم علیہ السلام اور حجر اسود کے درمیان لوگ حضرت مہدی علیہ السلام کی بیعت کریں گے۔ خدا ان علیہ السلام کے ذریعہ دین کو زندہ کرے گا اور اسلام کو بہت سی فتوحات عطا کرے گا۔ زمین پر کوئی باقی نہ ہوگا، مگر وہ شخص جس کی زبان پر لاالہ الا اللہ ہوگا۔"(فرائد فوائد الفکر فی المہدی المنتظر (مرعی بن یوسف حنبلی): باب ۴ / ۹۔ ینابیع المودۃ: باب ۷۱ / ۴۲۳)

سورہ یوسف کی آیت نمبر ۴ میں ارشاد ربانی ہے: اِذۡ قَالَ یُوۡسُفُ لِاَبِیۡہِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیۡ رَاَیۡتُ اَحَدَعَشَرَ کَوۡکَبًا وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ رَاَیۡتُہُمۡ لِیۡ سٰجِدِیۡنَ۔ "جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا : اے بابا! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں کو دیکھا ہے اور سورج اور چاند کو میں نے دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔" جیسا کہ حضرت یوسف نے مصر کی سرزمین پر حکومت کی اور ایک عالی شان سلطنت اور بہترین عدل پر مبنی نظام حکومت تشکیل دیا، اسی طرح دیکھا جائے تو تمام آئمہ طاہرین علیہم السلام میں سے کسی نے بھی حکومت نہیں کی، لیکن وعدہ خداوندی ہے کہ حضرت امام مہدی ؑ کی حکومت پوری دنیا پر ہوگی اور وہ حضرت یوسفؑ کی مانند اپنی حکومت کی بنیاد رکھیں گے۔ ظلم و ستم کو ختم کر دیں گے اور یہ آیہ مبارکہ بھی ایک حکومت مہدیؑ کی وجہ سے بھی امام مہدیؑ سے مربوط ہے۔ مہدی علیہ السلام کی پوری دنیا پر حکومت کو نبی پاک ﷺ نے یوں بیان فرمایا ہے: "مکمل زمین کے بادشاہ چار ہی گزرے ہیں، جنہوں نے اسے فتح کیا۔ ان میں سے دو مومن اور دو کافر ہیں۔ مومن بادشاہ ذُوالقرنینؑ اور جناب سلیمانؑ ہیں اور کافر بادشاہ نمرود اور بخت نصر اور پانچواں فاتح میری نسل میں سے ہوگا۔" (عقد الدرر: باب ۱ / ۱۹۔۲۰، البرھان فی علامات مہدی آخر الزمان: باب ۱، ح ۴۶ / ۸۸)

حضرت مہدی ؑ کی حکومت مشرق و مغرب میں ہوگی اور حدیث قُدسی میں ہے کہ زمین کے ہر حصہ پر ہوگی۔ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ: "ان (مہدیؑ) کی سلطنت مشرق و مغرب تک پھیل جائے گی، جس کا کوئی مقابلہ نہ ہوگا۔" (فرائد السمطین ، ۲ / ۳۱۲، ح ۵۶۲) انسان اللہ کی عجیب ناشکری مخلوق ہے، جو اس جیسے مہربان اور نہایت رحم کرنے والے رب کو یاد نہیں رکھتی، چہ جائیکہ اس کے محبوب اور ان اولیاء اللہ جن کا ذکر اس کے محبوب نے کیا ہے، انھیں یاد کرے۔ ہاں جب یہ انسان کسی مشکل یا تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو اس وقت اپنے رب کریم کو پکارنے لگتا ہے، جس کا ذکر پروردگار قرآن میں یوں کرتا ہے: وَ اِذَا مَسَّ الۡاِنۡسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنۡۢبِہٖۤ اَوۡ قَاعِدًا اَوۡ قَآئِمًا ۚ فَلَمَّا کَشَفۡنَا عَنۡہُ ضُرَّہٗ مَرَّ کَاَنۡ لَّمۡ یَدۡعُنَاۤ اِلٰی ضُرٍّ مَّسَّہٗ ؕ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلۡمُسۡرِفِیۡنَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ۔ "اور انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لیٹے، بیٹھے اور کھڑے ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اس سے تکلیف دور کر دیتے ہیں تو ایسا چل دیتا ہے گویا اس نے کسی تکلیف پر جو اسے پہنچی، ہمیں پکارا ہی نہیں، حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے ان کے اعمال اسی طرح خوشنما بنا دیئے گئے ہیں۔" (سورہ یونس: ۱۲)

اس آیت مبارکہ میں ہم دُکھ و درد میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اور اپنی تکلیف کی دُوری کے بعد پھر اسے فراموش کر دیتے ہیں۔ اسی طرح ہم جب مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو العجل یا امام ؑکہتے ہیں۔ ہم نے صرف حاجات اور اپنی دعاؤں کی حد تک امام علیہ السلام کو یاد کرتے ہیں، اگر ہماری پکار سچی ہو تو اس کے لیے ہمیں چاہیئے کہ ہمارا کردار بھی اسی حد تک پختہ ہو، جیسا وہ چاہتے ہیں، پھر قائم، قیام کریں گے۔ جس کے نتیجہ میں ایسی حکومت قائم ہوگی، جیسی کہ رب کریم چاہتا ہے اور پھر انسان ایسی حکومت میں زندگی گزارنے کی خواہش کریں گے۔ ایک روایت میں یوں بیان ہوا ہے: "خداوند عالم نے اہل زمین کے ساتھ نیکی کا جو برتاؤ کیا ہوگا، اس کی بناء پر مُردے زندگی کی تمنا کریں گے۔" (الصواعق المحرقہ (شہاب الدین احمد بن حجر ھیثمی):۹۷)

قرآن کریم میں امام مہدیؑ کے اوصاف اور ان حکومت کے بارے میں مزید کچھ آیات مندرجہ ذیل ہیں: سورہ مرسلات کی آیت نمبر ۱۲ میں خداوند ارشاد فرماتا ہے: لِاَیِّ یَوۡمٍ اُجِّلَتۡ۔ "(پھر) بھلا ان (باتوں) میں کس دن کے لیے تاخیر کی گئی؟" اس سے مراد امامؑ کی غیبت طولانی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کہہ رہا ہے ان کو غیبت طولانی میں رکھا گیا ہے تو اس کے پیچھے بہت سے راز پوشیدہ ہیں۔ سورہ نازعات، آیت نمبر۱۲ میں ارشاد ربانی ہے: قَالُوۡا تِلۡکَ اِذًا کَرَّۃٌ خَاسِرَۃٌ "کہتے ہیں: پھر تو یہ واپسی گھاٹے کی ہوگی۔" اس کا یہ مطلب ہوا کہ رجعت و حیات امام علیہ السلام کے ظہور میں پوشیدہ ہے۔ سورہ فجر، آیت نمبر۱۲ میں خداوند فرماتا ہے: فَاَکۡثَرُوۡا فِیۡہَا الۡفَسَادَ "اور ان میں بہت سے فساد پھیلا رہے ہوں گے۔" اس سے مراد یہ ہے کہ امامؑ کی غیبت اور ظہور کے نزدیک دنیا فسادات سے بھری ہوئی ہوگی نیز لوگ فسادات پھیلا رہے ہوں گے۔ سورہ علق کی آیت نمبر ۱۲ میں رب کریم نے ارشاد فرمایا: اَوۡ اَمَرَ بِالتَّقۡوٰی "پرہیز گاری کا حکم کرتے تو (روکنا کیسا)" (جیسا کہ آئمہ معصومین علیہم السلام متقی ہیں اور جو حکم بھی جاری ہوگا، یقیناً حجت خدا (علیہ السلام) کی مرضی سے ہوگا) آئمہ طاہرینؑ ہی خدا کے پرہیزگار ترین ہستیاں ہیں اور زمین پر جو حکم جاری ہوگا، وہ حجت خدا (علیہ السلام) کی رضا سے ہوگا۔

سورہ ھود ، آیت نمبر ۸۶ میں ارشاد فرماتا ہے: بَقِیَّتُ اللّٰہِ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ۬ۚ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیۡکُمۡ بِحَفِیۡظٍ "اللہ کی طرف سے باقی ماندہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم مومن ہو اور میں تم پر نگہبان تو نہیں ہوں۔" صباغی نے جو اہل سنت کے ایک زبردست عالم ہیں۔ "فصول مہمہ" میں ایک طولانی روایت میں امام مہدیؑ کے ظہور کی علامات میں امام صادقؑ سے روایت کی ہے۔ اس کے آخر میں لکھتے ہیں کہ اس وقت ہمارا قائم ظہور کرے گا اور خانہ کعبہ کی دیوار پر سہارا لے کر کھڑا ہوگا اور خالص مومنین سے 313 آدمی ان کے پاس جمع ہوں گے۔ تو سب سے پہلے وہ اس آیت "بَقِیَّتُ اللّٰہِ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ۬ۚ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیۡکُمۡ بِحَفِیۡظٍ"کی تلاوت کریں گے اور کہیں گے میں بَقِیَّتُ اللّٰہِ اور اس کا خلیفہ اور تم پر اس کی حجت ہوں، اس وقت سے تمام لوگ "بَقِیَّتُ اللّٰہِ" کہہ کر ان کی طرف خطاب کریں گے۔ جتنی بھی آیات و تفاسیر اور روایات بیان کی گئی ہیں، ان کو آپس میں جوڑا جائے تو ہمیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ ہم انہی حالات سے گزر رہے ہیں، جو خدا بزرگ نے اپنی کتاب مُبین میں بیان کیے ہیں۔ یعنی وعدہ خداوند پورا ہونے کے نزدیک ہے۔ یوسف زہراء (علیہ السلام) کا خواب شرمندہ تعبیر کے قریب ہے۔ تو ہم کیوں نہ امام ؑکے سچے سپاہی بننے کے تیار ہوں اور پروردگار سے دُعا کریں کہ ہم سب کو آپ ؑ کے حامی و مددگاروں میں شامل فرمائے۔آمین
خبر کا کوڈ : 856441
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

امتیاز علی
Pakistan
Slam
Imam mehdi a. S k aane ki waja bta de..... Aap ne jo likha hua ha.... Ye logically accep_table ni ha... Aur Quraan ki translation aur ha ap jb details discuss krti he tb meaning kich aur nikal aata ha.... Aap ne neutral ho k ni justify kia.... Thanks 😊
ہماری پیشکش