1
Saturday 18 Apr 2020 09:17

عراق و بلتستان کا تقابلی جائزہ

عراق و بلتستان کا تقابلی جائزہ
تحریر: محمد بشیر دولتی

جیسا کہ عنوان سے واضح ہے کہ تحریر کا موضوع عراق و بلتستان کے حالات کا تقابلی جاٸزہ ہے. جب بھی ہم دو چیزوں میں مقایسہ کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ پہلے وجہ شبہ کو بیان کیا جائے۔ لہذا ان دو منطقوں میں کٸی چیزیں مشترک ہیں۔ 1۔ دونوں خطہ کی زیادہ تر آبادی شیعہ مسلک پر مشتمل ہیں۔ 2۔ عراق گذشتہ سولہ سالوں سے امریکہ کے زیر تسلط ہے تو بلتستان میں بھی امریکہ گذشتہ بیس سالوں سے یو ایس ایڈ سمیت دیگر مغربی این جی اوز کی شکل میں مصروف عمل ہے۔ 3۔ دونوں خطوں میں استعمار ایک ہی طریقہ سے مصروف عمل ہے۔ اب ہم آپ کو بتاٸیں گے کہ امریکہ نے عراق میں کیا کیا اور بلتستان میں کیا کرنا چاہتا ہے۔ استعمار جہاں بھی جاتا ہے، تعمیر و آزادی کے پرفریب نعروں کے ذریعے وہاں اپنے پنجے گھاڑ لیتا ہے۔ جو کچھ وہ جنگ اور طاقت سے نہیں لے سکتا، اسے پھر پرفریب نعروں اور مکارانہ چالبازوں سے ہتھیانے کی سعی کرتا ہے۔ صدام کو مسلط کرنے کے بعد بھی اس کے ذریعے جو نہیں لے سکا، اسے لینے کے لیے اپنی تمام تر قوت کے ساتھ قابض ہوا۔ پھر جو قوت و طاقت و جبر سے نہ لے سکا، اسے داعش کے ذریعے لینے کی بھرپور کوشش کی۔ جو داعش کے ذریعے سے بھی نہ لے سکا، اسے یو یس ایڈ کے پرفریب و دلنشین نعروں سے لینے کی سرتوڑ کوشش کی۔

جس کے لیے نٸے آلہ کار اور جوانوں کا خوب استعمال کیا گیا۔ داعش کے ذریعے نہ فقط مقدس مقامات کو مٹانا چاہ رہا تھا بلکہ ملت تشیع کے عقاٸد کو بھی مسخ کرنا چاہ رہا تھا۔ اس میں ناکامی پر تشیع اور ایران کے خلاف عراق میں خود شیعوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور ایک دوسرے کے مقابلے میں لاکر کھڑا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس کی بہترین مثال آلہ کار محمود الحسن الصرخی ہے۔ اب پہلے میں آپ کو یہ بتاونگا کہ یہ الصرخی کون تھا، کیسے یہ منظر عام پہ آیا اور ایک خاص ٹولہ میں معروف ہوا اور اس نے استعمار کی کیا خدمت کی۔ "فارس نیوز" کی رپورٹ کے مطابق یہ ایک خود ساختہ مجتہد ہے۔ خود کو شہید باقرالصدر اور سید محمد صادق صدر کے شاگرد کے طور پہ متعارف کرایا، مگر آیت اللہ کاظم حاٸری سمیت کسی نے بھی اس کے مجتہد ہونے کی تصدیق نہیں کی۔ نوّے کے عشرے میں گھر پر ڈش لگانے کے معمولی جرم میں جیل چلا گیا۔ جہاں بعثیوں نے جیل ہی میں ان پر خوب کام کیا۔ ان کے لیے مذہبی کورسز کا بھی اہتمام کیا۔ یہاں تک کہ جادو ٹونے کی تعلیم کے لیے پاکستان بھی بھیجا۔ پاکستان سے واپسی پر شیخ محمود التمیمی کے نام سے سفید عمامہ کے ساتھ منظر عام پہ آگیا۔

کچھ عرصہ بعد سیاہ عمامہ کے ساتھ سید محمود الصرخی کے نام سے سرگرم ہوگیا۔ پھر خراسانی کے نام سے امام زمانہ (ع) سے ملاقات کا دعویٰ کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق محمود صرخی سعودی انٹیلی جینس کے تعاون سے تشیع اور مرجعیت کی شبیہ بگاڑنے کے لیے مصروف عمل ہوگیا۔ صدام کی پھانسی سے قبل یہ بندہ مخفی رہا۔ 2003ء میں صدام حکومت کی سرنگونی سے پہلے اچانک نمودار ہوگیا۔ پھر داعش کی سرگرمیوں کے وقت کربلا وغیرہ میں ظاہر ہوا۔ تب تک یہ امریکہ و عالم استعمار کے ہر ممکن تعاون کے لیے کمربستہ ایک قوم پرست بن چکا تھا۔ اس کا اندازہ آپ اس بات پہ لگا سکتے ہیں کہ اس نے داعش کے خلاف آیت اللہ سیستانی جیسی بزرگ شخصیت کے فتوے کو مسترد کر دیا۔ نہ فقط یہ بلکہ اس بندے نے 2013ء میں دعویٰ کیا کہ امام زمانہ (ع) نے ان کو حکم دیا ہے کہ سابق وزیراعظم نوری المالکی اور صدر گروپ کے رہنماء سید مقتدایٰ صدر کے سروں کو قلم کر دیں۔ چونکہ یہ دونوں شخصیات شیعیان عراق کی قوت و پہچان بن گٸی تھیں۔ پھر اس بندے نے مارچ 2015ء میں سعودی اتحاد کی جانب سے یمن پر جارحیت کی کھل کر مکمل حمایت کی۔ پھر اسے ایک قوم پرست رہنماء کے طور پر متعارف کروایا گیا۔

دوسری طرف امریکہ نے یو ایس ایڈ سمیت مختلف این جی اوز کے ذریعے عراقی جوانوں پہ کام کرنا شروع کر دیا، جس میں انہیں تشیع کے عقاٸد اور مذہبی شخصیات کے خلاف آمادہ کیا گیا اور ان کے اندر مذہبی عقاٸد و کردار کی جگہ قوم پرستی کے عنصر کو پروان چڑھایا گیا۔ چھوٹے چھوٹے گروہوں کی شکل میں امریکہ کے پرتعیش دورے کرائے گٸے اور خوب پیسہ خرچ کیا۔ پھر ان افراد کو محمود الصرخی کے گرد جمع کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نوجوانوں کا یہ ٹولہ سوشل میڈیا پر دینی عقائد اور مذہبی شخصیات کی مسلسل توہین اور مذاق اڑانے کے ساتھ قوم پرست ہونے کا دعویٰ کرنے لگے۔ یوں انہی کے ذریعے 2006ء میں بصرہ میں ایرانی قونصلیٹ پر حملہ کروایا۔ "الخلیج الیوم" کی رپورٹ کے مطابق ایرانی قونصلیٹ پہ حملہ کرنے والوں کی تعداد تین سو کے قریب تھی۔ انہیں پھر کربلا کے نواح میں واقع طویریج سے کربلا منتقل کیا گیا۔ انہی شرپسندوں اور تربیت یافتہ لوگوں کے ذریعے رہبر معظم، ایران، حشد الشعبی، حزب اللہ، آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی سمیت دیگر مراجعین عراق اور حوزہ کے خلاف سوشل میڈیا پہ طوفان بدتمیزی، گالم گلوچ کے علاوہ ان سے احتجاجات و مظاہرے توڑ پھوڑ کرائی گٸی۔

یہاں تک کہ کربلاء معلّٰیٰ میں نواسہ رسول امام حسین (ع) کے زاٸرین کی خدمت کے لیے نصب مختلف انجمنوں کے موکب، حشد الشعبی کی املاک اور سرکاری املاک وغیرہ نذر آتش کروائیں بلکہ امام زمانہ کے ناٸب کے مزار سمیت دیگر کٸی مقدس مقامات پہ پتھراٶ اور جلاو گھیراٶ کرایا گیا، جبکہ ان میں کوٸی داعشی نہ تھا، یہ سب شیعہ تھے، جنہیں امریکہ، سعودیہ اور ان کی این جی اوز نے تربیت اور فنڈنگ کے بعد اہداف دے کر اپنی نگرانی و سرپرستی میں چھوڑ دیا تھا۔ ایران میں بھی اسی طرح کے حالات پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی، جلاٶ گھیراو کرایا۔ یہ لوگ اپنے جلاو گھیراو کی خود وڈیو بنا کر پھیلاتے تھے۔ ان کی گرفتاریوں کے بعد پتہ چلا کہ ان ویڈیوز کو بیرون ملک عیاشیوں اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے لیے ثبوت کے طور پہ جمع کرنا تھا۔ لیکن الحمد للہ عوام کی بیداری، دینی اقدار کی معرفت، مذہبی شخصیات سے لگاٶ اور شھداء کے مقدس خون کے صدقے میں استعمار اور انکے آلہ کار عراق و ایران میں نہ فقط ناکام ہوگٸے بلکہ ذلیل و رسوا بھی ہوگٸے۔

اب ہم آتے ہیں ارض بلتستان کی طرف، جہاں گذشتہ بیس سالوں سے یو ایس ایڈ کی سرپرستی میں پینتیس کے قریب اور مجموعی طور پہ تین سو کے قریب این جی اوز کام کر رہی ہیں۔ یہ این جی اوز کن نعروں کے ساتھ کس طرح سے کیا مثبت و منفی کام کر رہی ہیں، یہ ایک الگ اور طولانی بحث ہے۔ البتہ حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پہ جو چیزیں کھل کر سامنے آٸی ہیں، ان میں چند چیزیں قابل غور ہیں۔
1۔ زاٸرین کے خلاف شیعہ ہونے کے باوجود بعض برادران کی طرف سے شعوری یا غیر شعوری طور پہ توہین آمیز پوسٹیں۔
2۔ لاہور میں ایک دینی درسگاہ کے خلاف دو نٸے طالب علموں کے بھاگنے کے واقعہ کی وڈیو پر بلتستان کے چند لوگوں کی طرف سے دینی مرکز اور اس کے بانی عظیم دینی شخصیت کے خلاف حیرت انگیز و ناقابل یقین توہین آمیز جذبات کا اظہار۔
3۔ چند لوگوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر ببانک دھل دینی عقاٸد و احکامات کے خلاف توہین آمیز پوسٹیں اور کمنٹس۔
4۔ علاقاٸی تمدن و ثقافت کے خلاف مختلف پوسٹوں کا تسلسل۔
5۔ ایران و امریکہ حالیہ تنازعات و کرونا واٸرس سے متعلق مسلسل واٸس آف امریکہ، بی بی سی اور سی این این کے موقف کی حمایت اور اصل حقاٸق سے چشم پوشی۔
6۔ کلی طور پہ مذہب اور مذہبی شخصیات کے خلاف سوشل میڈیا مہم میں تیزی۔۔۔

یہ سب ہمیں بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کر رہا ہے۔ خدانخواستہ کہیں عراق سازی کی کوشش تو نہیں ہو رہی ہے۔؟ کہیں اس دین دار خطہ میں دین دار طبقہ کے مقابل ایک طبقہ کو پروان تو نہیں چڑھایا جا رہا؟ تاکہ دینی اقدار کے ساتھ ساتھ یہاں کے امن و سکون کو بھی برباد کردیا جائے۔؟ میں کسی بھی طبقہ پر کوٸی الزام نہیں لگا رہا، مگر حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ حالیہ الیکشن سے پہلے امن و آشتی، پیار و محبت اور دین و شریعت کے پاسدار اس منطقہ کو کہیں برباد کرنے کا کوٸی منصوبہ تو نہیں۔؟ اگر ایسا ہے تو صرف قوم پرستی یا لبرل ازم کے نام پر ہی نہیں بلکہ مذہب یا قوم پرستی کسی بھی نام پر کسی بھی "الصرخی" کو سوشل میڈیا کے ذریعے میدان میں اتارا جاسکتا ہے۔ یا ممکن ہے کہ مذہب کے نام پہ مذہبی لوگوں میں اختلاف پیدا کریں۔ مذہبی شخصیات کو ہی ایک دوسرے کے خلاف لاکر کھڑا کریں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ قوم پرستی کے نام پہ قوم کی مسلسل توہین کا سلسلہ جاری رہے، دینی عقاٸد و مسلمات دین کے خلاف اپنے ہی ہم مسلک لوگوں کو مذہبی شخصیات اور دینی مراکز کے خلاف لاکر کھڑا کر دیں۔

قوم پرستی اگر اخلاص، اخلاق و دینی اصولوں کے مطابق ہو تو قابل ستاٸش ہے۔ دنیا میں ایسے قوم پرست رہنماٶں اور افراد کی کوٸی کمی نہیں۔ البتہ قوم پرست رہنماء بننا اتنا آسان نہیں۔ پہلے قومی حقوق کے لیے جہد مسلسل کے ذریعے عوامی پذیراٸی ملتی ہے، پھر قید و بند کی صعوبتوں، مدلل اور مہذب گفتگو سے شخصیت نکھرتی اور قد کاٹھ بناتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں الٹا نظام چل رہا ہے۔ چند اخباری بیان اور سوشل میڈیا پر پاک فوج اور ملک پاکستان کے خلاف بات کرکے جیل جاتے ہیں اور باہر آتے ہیں تو وکٹری کا نشان بنا کر عظیم رہنماء بن چکے ہوتے ہیں یا سوشل میڈیا پر انتہاٸی نامناسب و غیر منطقی لب و لہجہ سے بھرپور روش اختیار کرکے اپنی ہی قوم کی توہین کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے شہید حیدر شاہ کے بعد یہی صورت حال چل رہی ہے، جس پہ ہم افسوس ہی کرسکتے ہیں۔

خدا میری اس سرزمین کو اس دو دھاری تلوار سے بچاٸے رکھے۔ شعوری یا بے شعوری میں، خود نماٸی یا ذاتی فواٸد، شہرت یا دولت کے لیے اپنے ضمیر، عقاٸد اور علاقاٸی تمدن و اقدار کا سودا کرنے والوں سے خدا اس قوم کو ہمیشہ محفوظ رکھے۔ چاہے وہ الیکشن کے دوران نمودار ہونے والے مذہبی ٹھیکدار ہوں یا دیگر سیاست دان یا سوشل میڈیا پہ ابھرتے ڈوبتے قوم پرست ہوں۔ خدا ہمارے جوانوں کو شعور و بیداری، صبر و تحمل، فراخ دلی اور فہم و فراست کے ساتھ بغیر کسی افراط و تفریط کے اپنی دینی، اخلاقی اور قومی ذمہ داریوں کو احسن و خوبی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس خطہ کو ہمیشہ امن و شرافت و دیانت داری، شاٸستگی، اخوت و بھاٸی چارے اور اخلاقیات کا نمونہ بنائے رکھے۔۔۔ آمین ثم آمین
خبر کا کوڈ : 857415
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش