2
Wednesday 27 May 2020 00:41

جنوبی لبنان سے اسرائیل کی پسپائی اور خطے پر اسکے گہرے اثرات

جنوبی لبنان سے اسرائیل کی پسپائی اور خطے پر اسکے گہرے اثرات
تحریر: عبدالباری عطوان
(چیف ایڈیٹر اخبار رای الیوم)


ہم جنوبی لبنان سے اسرائیل کی ذلت آمیز شکست اور پسپائی کی صورت میں اسلامی مزاحمت کی عظیم فتح کو فراموش نہیں کرسکتے۔ یہ واقعہ 25 مئی 2000ء میں پیش آیا، جب اسرائیلی فوجیوں نے حزب اللہ لبنان کے تابڑ توڑ حملوں کے بعد مزید جانی نقصان سے بچنے کیلئے جنوبی لبنان سے پسپائی اختیار کرکے مقبوضہ فلسطین کی حدود میں جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ خاص بات یہ ہے کہ بنجمن نیتن یاہو کے موجودہ وزیر خارجہ گیبی اشکنازی لبنان کی سرزمین سے پسپائی اختیار کرنے والے آخری اسرائیلی افسر تھے۔ ہم اس واقعے کی بیسویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ عرب سرزمینوں کو غاصب اسرائیلی رژیم کے قبضے سے آزاد کروانے میں یہ پہلی فتح تھی، جو عوامی جدوجہد کے ذریعے لبنان کی اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ کو نصیب ہوئی۔ غاصب صہیونی رژیم اس جدوجہد کے نتیجے میں فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوگئی جبکہ کسی امن معاہدے کی ضرورت بھی پیش نہ آئی۔ اس کے بعد ایسی ہی فتح مقبوضہ فلسطین کے جنوب میں واقع غزہ کی پٹی میں 2005ء کے موسم گرما میں حاصل ہوئی۔

2000ء کا سال اسلامی مزاحمت پر مبنی ثقافت کی تاریخ میں ایک انتہائی اہم موڑ تھا۔ اس کے بعد اسلامی مزاحمت روایتی عرب افواج کا متبادل یا تکمیل کنندہ کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ اسلامی مزاحمت نے انتہائی کارآمد اور موثر حکمت عملی اختیار کی، جس کا پہلا نتیجہ غاصب صہیونی فورسز کے جانی و مالی نقصان میں اضافہ تھا۔ یہ مالی اور جانی نقصان اس قدر شدید تھا کہ غاصب صہیونی رژیم کے سیاسی و فوجی رہنماء اسے برداشت نہ کرسکے اور اپنی عوام کی جانب سے شدید دباو کے باعث اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں اپنی شکست تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے۔ جنرل گیبی اشکنازی جو اس وقت صہیونی رژیم کی وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالے ہوا ہے اور ایسا اتفاق صرف قابض نسل پرست رژیم میں ہی رونما ہوسکتا ہے، نے اتوار 24 مئی کے دن میڈیا پر بات کرتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ شمالی محاذ پر جنگ ابھی اختتام پذیر نہیں ہوئی ہے اور انہوں نے لبنان کی سرزمین پر اپنے بہترین ساتھی اور کمانڈرز ہاتھ سے گنوائے ہیں۔ جنوبی لبنان پر اسرائیلی قبضے کے وقت جو 18 سال کی مدت تک جاری رہا، اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان کی گوریلا کارروائیوں میں اسرائیل کے 1200 فوجی ہلاک جبکہ 10 ہزار سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

جنوبی لبنان پر قبضے کے دوران تقریباً ہر چار دن میں ایک اسرائیلی فوجی مارا جاتا تھا۔ ہم یہاں اینتھون لحد اور سعد حداد کی سربراہی میں ان ہزاروں غداروں کی ہلاکت کو ملحوظ خاطر نہیں رکھ رہے، جنہوں نے اپنے ملک و قوم سے غداری کرتے ہوئے غاصب صہیونی رژیم کے قبضے کا زمینہ فراہم کیا تھا۔ آخر میں یہ غدار اور ان کا فوجی لیڈر جنرل لحد مقبوضہ فلسطین میں بھیک مانگتے دکھائی دیئے۔ یہ عبرت کا مقام ہے اور اگر فلسطین اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز نے بھی اسرائیل کا ساتھ دیا تو ان کا بھی یہی انجام ہوگا۔ آج کی اسلامی مزاحمت بیس سال پہلے کی مزاحمت سے بہت مختلف ہے۔ جنوبی لبنان سے اسرائیل کی ذلت آمیز پسپائی کے 6 سال بعد اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرت نے فوجی جارحیت کے ذریعے جنوبی لبنان پر دوبارہ قبضے کی کوشش کی، لیکن اسے ایک اور ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایہود اولمرت اس جارحیت کے ذریعے اپنی مسلح افواج کے ماتھے پر لگے کلنک کی ٹیکے کو پاک کرنا چاہتا تھا، لیکن اسے تاریخ کی زیادہ بڑی شکست سے روبرو ہونا پڑا۔

آج کی اسلامی مزاحمت چاہے وہ لبنان میں ہو یا غزہ کی پٹی میں ہو، زیادہ فوجی مہارت، جدید میزائلوں، ڈرون طیاروں، بہادر مجاہدوں اور شجاع قائدین کی بدولت کئی گنا زیادہ طاقتور ہوچکی ہے اور اسرائیل اس کیلئے وزن کا قائل ہے۔ اسرائیلی فوج جدید ترین اسلحہ سے لیس ہونے کے باوجود جنوبی لبنان یا غزہ کی پٹی میں حتی ایک میٹر پیشقدمی نہ کرسکی۔ اس کی بنیادی وجہ اسلامی مزاحمت کی جانب سے شدید میزائل حملوں اور ان کے نتیجے میں لاکھوں یہودی آبادکاروں کی زندگی متاثر ہونے کا خطرہ تھا۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے جب غاصب صہیونی فوجیوں نے اسلامک جہاد کے اعلیٰ سطحی کمانڈر ایہاب ابوالعطا کو شہید کیا تو اسلامی مزاحمت نے سینکڑوں میزائلوں اور مارٹر گولوں سے اس کا دندان شکن جواب دیا۔ ان حملوں کے باعث اسرائیل کی نصف یہودی بستیوں میں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔ ان حملوں کا ایک اثر بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے عسقلان میں اپنی الیکشن مہم سے خرگوش کی طرح فرار اختیار کرنا تھا۔ آج حزب اللہ لبنان کے پاس ٹھیک نشانے پر مار کرنے والے جدید ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ انہی میزائلوں کا بڑا حصہ شدید محاصرے کے باوجود غزہ کی پٹی میں سرگرم مجاہد تنظیموں کو بھی پہنچایا جا چکا ہے۔ ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب ہماری آنکھیں مسجد اقصیٰ اور مقبوضہ فلسطین کی آزادی سے منور ہوں گی۔
خبر کا کوڈ : 864932
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش