0
Monday 17 Aug 2020 20:15

کورونا مخالف جنگ، طبی عملے کا تحفظ یقینی بنایا جائے

کورونا مخالف جنگ، طبی عملے کا تحفظ یقینی بنایا جائے
رپورٹ: جے اے رضوی

گزشتہ کچھ عرصہ سے مسلسل ایسی خبریں موصول ہورہی ہیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے ایسے ہسپتالوں، جہاں فی الوقت کووڈ۔19 مریضوں کا علاج چل رہا ہے، میں طبی اور نیم طبی عملہ سے وابستہ افراد خود کورونا وائرس کے شکار ہورہے ہیں۔ گزشتہ کچھ دنوں میں نہ صرف سرینگر کے صدر ہسپتال میں مختلف شعبوں کے ڈاکٹروں کو کورونا وائرس میں مبتلا پایا گیا بلکہ بڑی تعداد میں نیم طبی عملہ کو بھی قرنطین کر دینا پڑا۔ صورتحال کی سنگینی کا یہ عالم تھا کہ صدر ہسپتال سے منسلک سُپر سپیشلٹی ہسپتال کے چار اہم شعبوں کو ہی بند کر دینا پڑا تھا اور ان میں سرطان کے مریضوں کے لئے کیموتھرپی کا اہم شعبہ بھی شامل تھا۔ اسی طرح کووڈ۔19 مریضوں کے لئے مخصوص کئے گئے سکمز میڈیکل کالج ہسپتال بمنہ میں بھی کئی ڈاکٹر کورونا وائرس سے متاثر ہوئے اور اس وقت بھی اس ہسپتال میں طبی و نیم طبی کی ایک اچھی خاصی تعداد قرنطین میں ہے۔ شیر کشمیر انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز صورہ سرینگر سے بھی ایسی اطلاعات موصول ہوئیں کہ وہاں بھی طبی و نیم طبی عملہ کو کورونا وائرس کا انفیکشن لاحق ہوا ہے۔ اس کے علاوہ سی ڈی ہسپتال میں بھی ایسے چند معاملات سامنے آئے ہیں جبکہ تاحال دو ڈاکٹر کورونا مخالف جنگ کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

جموں صوبہ کا جہاں تک تعلق ہے تو اُس صوبہ میں مریضوں کی شروعات ہی ڈاکٹروں سے ہوئی اور نہ صرف پہلے راجوری کا ایک ڈاکٹر کورونا سے متاثر ہوا تھا بلکہ بعد میں جموں میڈیکل کالج کی پتھالوجی لیبارٹری میں کورونا ٹیسٹ کرنے سے منسلک ایک ڈاکٹر بھی پازیٹیو ہوا تھا اور اس کے بعد کئی سارے ڈاکٹر اور نیم طبی عملہ کے لوگ بھی متاثر ہوئے، نتیجتاً بڑی تعداد میں طبی و نیم طبی عملہ کو قرنطین کرنا پڑا۔ غرض جس طرح کے معاملات سامنے آئے ہیں، اُس سے طبی اداروں میں بدانتظامی اور لا پرواہیوں کے علاوہ سہولیات کے فقدان کی پول کھل چکی ہے۔ کہنے کو تو تمام ہسپتالوں کے منتظمین کہتے ہیں کہ فول پروف تیاریاں کی جاچکی ہیں لیکن درون خانہ وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ سب کاغذی گھوڑے ہیں اور زمینی سطح پر اُس معیار کا بندوبست نہیں ہے جو کورونا وائرس تقاضا کرتا ہے۔ چونکہ گزشتہ دنوں ایک ڈاکٹر کو شکایت کرنے پر چلتا کیا گیا اور حکومت نے باضابطہ طور پر ہسپتالی عملہ کو متنبہ کیا ہے کہ وہ سہولیات پر سوال اٹھانے سے گریز کریں کیونکہ اس کو سروس رولز کی خلاف ورزی سے تعبیر کرکے ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاسکتی ہے تو اس کے بعد ملازمین خاموش ہوگئے ہیں، ورنہ کہنے کو تو ان کے پاس بھی بہت کچھ ہے اور سچ تو یہ ہے کہ وہ ان کمیوں کا رونا بھی رو رہے ہیں لیکن نام ظاہر کرنے سے ڈرتے ہیں۔

طبی و نیم طبی عملہ کورونا کے خلاف جنگ میں ہمارے صف اول کے سپاہی ہیں اور ہمارے پاس دنیا کے مکمل اعداد و شمار ہیں کہ کس طرح یہ لڑائی لڑنے کے دوران بڑی تعداد میں ہمارے ڈاکٹر اور نیم طبی عملہ کے لوگ کورونا کا شکار ہوکر یہ جنگ ہار بیٹھے۔ جموں و کشمیر میں بھی فی الوقت یہ جنگ ان لوگوں کے سہارے ہی لڑی جارہی ہے اور اگر خدا نخواستہ صف اول کے ان سپاہیوں کی ہی زندگیاں خطرے میں پڑجائیں تو دیگر افراد کی کیا بات کی جائے۔ چونکہ یہ لوگ براہ راست ایسے مریضوں کے تعلق میں ہیں تو ان کی حفاظت یقینی بنانے کے لئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی جانی چاہیئے۔ انہیں مکمل حفاظتی کٹس فراہم کرنے کے علاوہ ان کی ذہنی و جسمانی حالت صحیح رکھنے کا بھی انتظام کیا جانا چاہیئے۔ اس کے علاوہ ہسپتال کی صفائی ستھرائی کا نظام بھی درست کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہسپتال یہ کورونا کے ہاٹ سپاٹ نہ بن جائیں۔

ڈاکٹروں اور نیم طبی عملہ کو سلام کرکے ان کی خدمات کا اعتراف کرنا کافی نہیں ہے۔ جنگ بہت طویل ہے اور ہمیں اس طویل جنگ کی منصوبہ بندی بھی اسی حساب سے کرنی ہے۔ اولین فرصت میں اس جنگ کے لئے ہمارا دفاع مضبوط ہونا چاہیئے اور یہ دفاع جبھی مضبوط ہوگا جب ہمارے صف اول کے سپاہیوں کا دفاع مضبوط بنایا جائے۔ ڈاکٹروں اور نیم طبی عملہ پر مشتمل ہمارے صف اول کے سپاہی سلامت رہیں تو وہ ہمارے لئے لڑتے رہیں گے لیکن خدا نخواستہ اگر ہماری غلط منصوبہ بندی اور لا پرواہی کی وجہ سے ان کی جانیں خطرے میں پڑگئیں تو ہمیں علاج کرنے والا کوئی نہیں ہوگا اور اُس صورت میں پھر یہ کورونا وائرس خونی بن کر پورے معاشرے کو ہی نگل لے گا۔ اس لئے وقت کی پکار ہے کہ صف اول کے ان سپاہیوں کی جان بچانے کے لئے تمام ضروری اقدامات کرنے کے علاوہ ان کی ذہنی اور جسمانی صحت سالم رکھنے کے بھی انتظامات کئے جائیں تاکہ یہ دوسرے لوگوں کی جان بچانے کے عمل میں بے فکر رہیں اور بنا کسی خطرہ کے اپنا مسیحائی فریضہ انجام دے سکیں۔
خبر کا کوڈ : 880743
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش