1
Saturday 19 Sep 2020 22:20

عرب اسرائیل معاہدہ، فلسطین کی پیٹھ میں ایک اور خنجر

عرب اسرائیل معاہدہ، فلسطین کی پیٹھ میں ایک اور خنجر
تحریر: شہباز رشید کشمیری

پوری دنیا کو معلوم ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے، جو اپنا وجود فلسطینیوں کے مسلسل خون چوسنے کے سبب قائم کئے ہوئے ہے۔ اسرائیل کے لئے ہر دن فلسطینیوں کے خون کی ہولی کا تہوار ہوتا ہے۔ اسرائیل کی تاریخ ظلم و بربریت سے عبارت ہے۔ چند مثالوں سے اس کو بآسانی واضح کیا جا سکتا ہے: کنگ ڈیوڈ قتل عام جس میں 92 لوگ قتل کئے گئے، ڈیرہ یاسین قتلِ عام، جس میں 254 مفلس دیہاتیوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا، قبیا قتل عام، جس میں 96 لوگ قتل کر دیئے گئے، کفر قاسم قتل عام، خان یونس قتل عام، مسجد ابراہیم قتل عام، سابرہ و شاتیلا قتل عام، جس میں 3000 فلسطینیوں کو لبنان کے رفیوجی کیمپ میں قتل کیا گیا اور تا ہنوز فلسطین میں ایک بہیمانہ نسل کشی جاری ہے۔ اس پورے تناظر میں عرب ممالک کا اسرائیل کے ساتھ کسی بھی سطح پر کسی بھی نوع کی بات چیت کرنا انہیں انصاف کی عدالت میں ایک مجرم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے۔

اسرائیل سے بات چیت کرنا اسرائیل کو ایک ریاست ماننے کا جواز فراہم کرتا ہے۔ عرب ممالک کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا کے کسی بھی ملک کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی یشرفت فی نفسہ ایک جرم ہے کیونکہ اسرائیل اپنے مکر و فریب اور مغرب کی منافقت سے امت مسلمہ کی سینے میں بصورت خنجر گھونپ دیا گیا ہے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ 1948ء کے بعد کئی مسلم ممالک نے اسرائیل کے ساتھ معاملات گرچہ مسئلہ فلسطین کے حوالے ہی سے پُرامن طریقے کے تحت حل کئے جانے پر بات چیت کی، لیکن کس قانون کے تحت، کس دستور کے تحت یا کن اخلاقی اقدار کے تحت یہ سرگرمیاں انجام دی گئیں یا دی جا رہی ہیں۔ اسرائیل کو امت مسلمہ خصوصاً عرب ممالک نے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرنا تھا بلکہ اس خنجر کو طاقت کے ذریعے نکال باہر کرکے رکھنا تھا۔

بدقسمتی یہ ہے کہ دور جدید کی امت مسلمہ میں میر جعفر اور ابن علقمی جیسے غداروں اور ابو عبداللہ جیسے نااہل حکمرانوں نے غیرت کا سودا جان بچی والے داموں کے عوض کیا ہے۔ تاریخ کے اوراق پر آج بھی سقوط بغداد کی داستان رقم ہے۔ جب بغداد کے چہار اطراف ہلاکو کا لشکر بھوکے بھیڑیوں کی طرح مسلمانوں کو نوچنے کے لئے تیار تھا تو وقت کا خلیفہ مستعصم باللہ اپنی خوبصورت کنیزوں کے ہجوم میں موسیقی سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ ایسا ہی حال آج بیشتر حکمرانوں کا ہے۔ وہ اپنی سلامتی کے لئے نہ کہ امت کی عظمت کی بحالی کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ وہ خود کو دشمن کی جھولی میں بھی دے سکتے ہیں۔ وہ بخت خان جیسے بہادروں کی ایک بھی بات سننے کے لئے تیار نہیں۔ وہ طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم کا کردار ادا کرنے کے اہل قطعاََ نہیں ہیں۔

آج بعینہ عرب حکمرانوں کی صورتحال مذکورہ افراد کی طرح ہے۔ محمد بن سلمان آئے دن جیرڈ کشنر کے ساتھ مسلسل ملاقاتوں کی وجہ سے قربت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ قصر سفید کے مشیر نے یکم ستمبر کو محمد بن سلمان سے ملاقات کے دوران اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر کافی زور دیا۔ الجزیرہ کے مطابق ’’اگر سعودی حکومت کے بیانات سچ ہر مبنی ہیں تو کشنر کے لئے سعودی عرب کی منظوری حاصل کرنا بہت مشکل ہے، لیکن کشنر بن سلمان کے ساتھ اپنی دوستی اور مسلسل ملاقاتوں کے ذریعے کچھ مفید تر معاملہ طے کرسکتا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ بن سلمان کو اپنے والد شاہ سلمان کے اسرائیلی موقف سے سخت اختلاف ہے۔ 1979ء میں مصر کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے قائم کیا گیا، جس کے بعد اردن نے ایسا ہی معاہدہ 1994ء میں کیا۔

حال ہی میں اب متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ معاہدہ طے کرکے اس ناجائز ریاست کے وجود کو تسلیم کیا ہے۔ اس معاہدے کو فلسطینیوں نے کمر میں خنجر گھونپ دینے کے مترادف قرار دیا ہے۔ یہ واضح رہے عرب حکمرانوں کو بھی اسرائیل سے کوئی انس نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کی نیت رکھتے ہوں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ ان کی نااہلی، آپسی چپقلش، بے غیرتی اور عیش کوشی کا نتیجہ ہے کہ وہ سفارتی اور ڈیپلومیٹک سطح پر اسرائیل کے روبرو ہو رہے ہیں۔ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں ایک سرطان کی طرح پھیل رہا ہے۔ اسرائیل نے عربوں کی آپسی نااتفاقی کو جس طرح سے اپنے وجود کو مستحکم کرنے کے لئے استعمال کیا ہے، تاریخ ایسی کوئی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ عربی ممالک صرف ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں ہیں، نہ کہ اسرائیل کا گھیراو کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔

میرے ایک دوست نے جو مشرق وسطیٰ میں کافی دیر تک رہے ہیں، مجھے یہ بات کہہ کر چونکا دیا کہ عربوں کی جدید فطرت میں صرف نام و نمود کی تمنا ہے، وہ کچھ ایسے کام کرنا چاہتے ہیں کہ وہ دنیا کی نظروں میں رہیں۔ عرب امارات کے دبئی شہر کو دیکھیں، وہ نمائش کا ایک بہت بڑا شہر ہے، دوحہ کو دیکھ لیں، مسقط کو دیکھ لیں اور اب سعودی عرب کے نیوم شہر کے مستقبل پروٹو ٹائپ کو دیکھ لیں، یہ سب مراکز نمائش کی دنیا میں ایک نام رکھتے ہیں۔ عرب یورپ کے ساتھ مادی لحاظ سے سبقت لینے کی دوڑ میں غیرت و حمیت کا لباس اتار چکے ہیں۔ خلافت عثمانیہ کے سقوط کے پیچھے عربوں کی جو کارستانی ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اسرائیل کا خنجر ان کے سینے میں ان کی اپنی خامیوں اور کمزوریوں کے باعث گھونپا گیا۔ عرب اسرائیل جنگ تو چڑیا چگ گئی دانا اب پچھتانے سے کیا’’ کے مصداق صرف ایک سوئے ہوئے کسان کا جاگنے کے بعد احتجاج کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس کے بعد عربوں کی گہری نیند اور جاگنے کے ساتھ آپسی سر پھٹول نے انہیں اسرائیل کے قوی ہونے کا ذریعہ بنایا ہے۔

اسرائیل پہلے فلسطینیوں کے قبرستان پر زندہ رہنے کا دعویدار تھا اور اب پوری عرب قوم کی میتوں کی قبروں ہر اپنا وجود پھیلانا چاہتا ہے۔ متحدہ عرب امارات مصر اور اردن کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ تازہ معاہدہ کرکے تیسرا عرب ملک بن گیا ہے، جس نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات باضابطہ طور پر قائم کر لئے ہیں اور یہ خلیج کی چھ عرب ریاستوں میں پہلا ملک ہے، جس نے ایسا کیا ہے۔ ابھی تک امارات کی حماقت پر ہی تجزیہ نگاروں کا قلم افسوس کی سطریں لکھ رہا تھا کہ بحرین نے بھی اسرائیل کی طاقت کو تسلیم کیا۔ 11 ستمبر کو بحرین نے یہودی ریاست اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانے کا اعلان کیا۔ بی بی سی کے مطابق امارات اور بحرین نے باضابطہ طور پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے معاہدے پر امریکہ کی نگرانی میں 15 ستمبر کو دستخط کر لئے، امارات سے سمجھوتے کو امن معاہدہ اور بحرین سے تعلقات کو امن کا اعلامیہ قرار دیا گیا۔

واضح رہے کہ بحرین امارات کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے والا چوتھا عرب ملک بن گیا ہے۔ دوسری جانب ترکی اور ایران نے بحرین اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کو شرمناک قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔ دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ اسرائیل سے شرمناک ڈیل کے ذریعے بحرین نے فلسطین کاز کو قربان کر دیا۔ فلسطین اتھارٹی نے کہا ہے کہ بحرین اور اسرائیل کا سمجھوتہ "ایک اور دغابازی" ہے۔ فلسطین اتھارٹی کے وزیر برائے سماجی امور احمد مجدلانی نے کہا ہے کہ فلسطینی عوام کی جدوجہد کے پیٹھ میں ایک اور چھرا گھونپا گیا ہے۔ ٹھیک ویسے جیسے پچھلے مہینے متحدہ عرب امارات نے کیا تھا۔ ادھر غزہ پٹی پر کنٹرول رکھنے والی حماس حکومت نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ ایک اشتعال ہے، جس کی وجہ سے خطے میں کئی مسائل پیدا ہوں گے۔ بیشتر عرب ممالک نے بحرین کے اس فیصلے پر حسب سابق خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ان کی یہ خاموشی ان کے اندر مستقبل میں اٹھائے جانے والے اقدامات کی عکاس ہے۔ اردن اور مصر نے بحرین کے اس فیصلے کو مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام پیدا کرنے کے لئے انتہائی اہم قدم قرار دیا ہے۔

متحدہ عرب امارات کی سرکاری ایمریٹس نیوز ایجنسی کے مطابق اس کا مقصد اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سفارتی تعلقات مضبوط کرنا ہے۔ سرکاری حکم نامے کے تحت اماراتی باشندے اور کمپنیاں اسرائیلی باشندوں اور کمپنیوں کے ساتھ مالی لین دین، روابط اور معاہدے قائم کرسکیں گی۔ بی بی سی اردو کے مطابق ’’آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بحال کرنے کی کوششوں میں تیزی آئے گی اور اس سلسلہ میں سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست پروازوں، سکیورٹی، مواصلات، ٹیکنالوجی، توانائی، نظامِ صحت، ثقافت اور ماحولیات جیسے امور پر باہمی معاہدے ہونے کی امید ہے۔ اس کے ساتھ ہی دونوں ممالک ایک دوسرے کی سرزمین پر سفارت خانے بھی کھولیں گے۔ عرب ممالک کا اسرائیل کے اتنا قریب جانا پورے عالم اسلام کے لئے خطرناک علامت ہے۔ جس کے بھیانک قسم کے نتائج برآمد ہونے کا خدشہ ہے۔ اس معاہدہ کے تحت ایک مضحکہ خیز شرط کا امارات نے اسرائیل کو پابند کرنے کی کوشش کی ہے، وہ یہ کہ اسرائیل فوراً فلسطینی زمینوں کو غصب کرنا بند کر دے۔ جس کو اسرائیل نے مکارانہ طور پر قبول تو کرلیا ہے، لیکن بباطن عزائم گریٹر اسرائیل بنانے کے ہیں۔ اسرائیل اتنی تگ و دو گریٹر اسرائیل بنانے کے لئے ہی تو کر ریا ہے، لیکن عرب ممالک اسرائیل کی اس مکاری کو سمجھنے سے بالکل بیگانہ ہیں۔

بحرین کی اس حماقت کے فوراً بعد صدر ٹرمپ نے پچھلے دنوں اسرائیل بحرین معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بہت جلد دوسرے عرب ممالک بھی اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے والے ہیں۔ بحرین کی اس حماقت کا اومان نے زبردست استقبال کرتے ہوئے کہا کہ اس سے خطے میں امن پیدا ہونے کا امکان ہے۔ اومان کے اس استقبالیہ اعلان سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید اومان بھی امارات اور بحرین کی صف میں کھڑا ہونے کا متمنی ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر حامد دباشی لکھتے ہیں کہ عرب امارات پہلا عرب ملک نہیں ہے، جس نے مسئلہ فلسطین کو اپنی دغابازی کا نشانہ بنایا ہے۔ امارات، مصر اور جورڈن کی طرح تیسرا ملک ہے، جس نے اپنی عوام کی خواہشات کے خلاف جاکر اسرائیل سے تعلقات استوار کئے ہیں۔ صہیونی اب تل ابیب اور واشنگٹن میں بیٹھ کر باقی عرب ممالک کو بھی امارات کے نقش قدم پر چلانے کے لئے سازشیں رچا رہے ہیں۔ عرب ممالک کے یہ سارے اقدامات خطے میں اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے عمل کو فروغ دے رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کو سلامتی اور سائبر سپر پاور کے میدان میں اسرائیل کی مدد ملے گی اور امریکی صدر تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں امریکی ووٹروں کے سامنے خود کو مشرق وسطیٰ میں بطور امن مندوب پیش کریں گے۔ اس امن معاہدہ کے پیچھے ٹرمپ ایک خاص کردار ہونے کے ناطے نوبل پیس انعام کے لئے بھی نامزد کیا گیا ہے۔

میرا یقین ہے کہ جس طرح سابق امریکی صدر بارک اوبامہ کو مسلمانوں کے قتلِ عام پر نوبل انعام سے نوازا گیا تھا، بعینہ ٹرمپ کو بھی اس انعام سے سرفراز کیا جائے گا۔ یہ سارا کھیل گریٹر اسرائیل کے قیام کی تیاری کے لئے کھیلا جا رہا ہے۔ عرب دنیا امریکہ اور اسرائیل کے مکر کا دن بدن شکار ہوتی جا رہی ہے، جس کے نتیجے میں اسرائیل کا خنجر فلسطینیوں کی پیٹھ میں مزیدا گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ یہ امن معاہدہ عرب اور اسرائیل کو نزدیک کرنے کے مقصد سے طے کیا گیا ہے، تاکہ اسرائیلی دجال بڑی تیزی کے ساتھ پورے خطے میں پھیلے۔ اس معاہدے سے فلسطینیوں کی زندگیاں مزید اجیرن بنیں گی، کیونکہ اسرائیل کے فتور میں عرب ایک تو ان کے فطری غلام ہیں، دوسرا انہیں فلسطین میں رہنے کا قطعاً کوئی حق نہیں ہے۔ اس کے لئے یہودی پروٹوکولز کی شہادتیں بہت کافی ہیں۔ اس کے باوجود بھی اگر عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرتے جائیں گے تو گویا وہ اپنے گھروں میں اژدھا کو پُرامن مسکن دینے کے لئے تیار ہیں۔
خبر کا کوڈ : 886783
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش