0
Friday 18 Sep 2020 15:30

فرقہ واریت اور سی پیک

فرقہ واریت اور سی پیک
تحریر: ثاقب اکبر

پاکستان میں بہت سے دانشور، علماء اور تجزیہ کار موجودہ فرقہ واریت کے مختلف اسباب پر اپنا نقطہ نظر بیان کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک رائے یہ ہے کہ فرقہ واریت کی موجودہ لہر کے پیچھے سی پیک کے مخالفین کا ہاتھ ہے۔ یہ بات اس لیے بھی اہم لگتی ہے کہ حال ہی میں بھارت کے ایک میجر کی جو وڈیو وائرل ہوئی ہے، اس میں وہ واضح طور پر پاکستان میں فرقہ واریت کو فروغ دینے کے لیے اپنا منصوبہ بیان کر رہے ہیں۔ بھارت پہلے دن ہی سے سی پیک کا مخالف چلا آرہا ہے اور امریکا بھی اس سلسلے میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ سی پیک جسے پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ کہا جاتا ہے، کی مخالفت میں بھارت اور امریکہ کا کردار کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

چنانچہ بی بی سی نے 13 ستمبر2019ء کو اپنی ایک رپورٹ میں لکھا: ’’انڈیا نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد ایک بار پھر پاکستان اور چین سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جاری چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) منصوبے پر کام روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ چین کے وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ پاکستان کے بعد انڈین میڈیا میں انڈین دفتر خارجہ کے ترجمان رویش کمار کا بیان سامنے آیا ہے، جس میں انھوں نے جموں و کشمیر کو انڈیا کا حصہ قرار دیتے ہوئے سی پیک منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انڈین ترجمان کے مطابق پاکستان نے ان علاقوں پر 1947ء سے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ انڈیا ماضی میں بھی متعدد بار دونوں ممالک کے درمیان 60 بلین ڈالر کے سی پیک منصوبے پر اعتراضات اٹھا چکا ہے اور اس نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے متنازعہ علاقوں میں یہ منصوبہ شروع نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘‘

پاکستان اور چین اس کا جواب دے چکے ہیں۔ انڈیا کو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں کون کون سے منصوبے شروع کر چکا ہے۔ اگر گلگت بلتستان، کشمیر ایشو کا حصہ ہے تو کیا مقبوضہ جموں و کشمیر عالمی تنازع کا حصہ نہیں ہے؟ امریکا بھی سرکاری سطح پر اس منصوبے کی مخالفت کر چکا ہے۔ چنانچہ امریکی نائب سیکرٹری جنوبی و وسطی ایشیا ایلس ویلز نے 21 نومبر2019ء کو واشنگٹن کے ولسن سنٹر میں اپنے ایک بیان میں اس منصوبے کی مخالفت کی۔ بعدازاں وہ 21 جنوری 2020ء کو پاکستان کے دورے پر آئیں تو ایک مرتبہ پھر پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے حوالے سے منفی ردعمل دیا۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ سی پیک منصوبوں میں شفافیت نہیں، پاکستان کا قرض چینی فنانسنگ کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ منصوبوں کے لیے چین سے فنانسنگ حاصل کرکے پاکستان مہنگے ترین قرضے حاصل کر رہا ہے اور خریدار ہونے کے ناتے اسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا کر رہا ہے کیونکہ اس سے اس کی پہلے سے کمزور معیشت پر بھاری بوجھ پڑے گا۔

ایلس ویلز کے اس بیان کو چین کے سفارت خانے نے منفی پراپیگنڈا قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ پاکستان میں چینی سفارت خانے کے ترجمان نے ایلس ویلز کے بیان پر ردعمل میں کہا : ’’21 جنوری کو دورہ پاکستان پر آنے والی امریکی نائب سیکریٹری برائے جنوبی و وسطی ایشیا ایلس ویلز نے ایک مرتبہ پھر پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے حوالے سے منفی ردعمل دیا، جو نئی بات نہیں ہے بلکہ نومبر 2019ء والی تقریر کی تکرار ہے جسے پاکستان اور چین دونوں مسترد کر چکے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ ہمیں پاک امریکا تعلقات پر خوشی ہے، تاہم پاک ۔ چین تعلقات اور سی پیک میں امریکی مداخلت کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں اور امریکا کے منفی پروپیگنڈے کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔‘‘ جب یہ بات واضح ہے کہ بھارت اور امریکا اقتصادی راہداری کے اس منصوبے کے مخالف ہیں اور یہ بھی کہ بھارت پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے فرقہ وارایت کا ہتھیار استعمال کر رہا ہے تو پھر موجودہ فرقہ واریت کے پیچھے سی پیک کے دشمنوں کا ہونا بعید از قیاس نہیں۔

چنانچہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بار بار یہ بات کہی ہے کہ دشمن طاقتیں اقتصادی راہداری منصوبے میں رکاوٹیں ڈالنے کیلئے فرقہ واریت اور لسانیت کے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اقتصادی راہداری کا منصوبہ جہاں جہاں سے گزرتا ہے، وہاں وہاں فرقہ وارانہ اور لسانی علاقائی تنازعات پیدا کرنے کی عالمی سازش ہو رہی ہے۔ حال ہی میں ممتاز شیعہ علماء نے بھی ڈاکٹر قبلہ ایاز کی رائے کی تائید کی ہے۔ کراچی میں علماء و ذاکرین امامیہ کنونشن کے اعلامیے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ امریکہ، اسرائیل، ہندوستان اور ان کے عرب و دیگر حواری پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں اور سی پیک جیسے ترقی کے منصوبوں کے دشمن ہیں، لہذا پاکستان میں فرقہ واریت کو پروان چڑھانے کی تمام سازشیں امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ہیں، ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں گے۔

بعض مبصرین کی رائے میں فرقہ واریت اور مذہبی شدت پسندی کا فروغ بالآخر پاکستان میں سیکولر طرز حکومت پر منتج ہوگا۔ چین کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو وہ بھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان مذہبی شدت پسندی کی زد میں اس طرح سے آجائے کہ اس کی انسویٹمنٹ اور راہداری کا منصوبہ خطرے سے دوچار ہو جائے۔ چین کو ترکی کی بظاہر مذہب کی حامی حکومت سے کوئی خطرہ نہیں، اس لیے کہ ترکی کی مساجد اور مذہبی مدارس حکومت کے کنٹرول میں ہیں، یہی حال ایران کا بھی ہے۔ ایران کی حکومت اگرچہ مذہبی ہے لیکن وہاں فرقہ وارانہ شدت پسندی ہرگز دکھائی نہیں دیتی۔ وہاں ائمہ جمعہ کا تعین حکومت کی طرف سے کیا جاتا ہے اور خطبات جمعہ کی آئوٹ لائن بھی حکومت کی طرف سے مہیا کی جاتی ہے۔

شاید چین یہ چاہے کہ پاکستان میں بھی مذہبی مراکز، مدارس اور مساجد ایک نظام کے تحت حکومت کے کنٹرول میں چلی جائیں۔ فرقہ وارانہ شدت پسندی آخرکار حکومت اور ریاستی اداروں کو ایسے فیصلے تک پہنچا سکتی ہے۔ چین کو مذہب سے کوئی سروکار نہیں بلکہ مسلمانوں کے صوبے سنکیانگ میں اس نے جس انداز سے اسلام پسندوں کے خلاف شدید کارروائی کی ہے، اس کے پیش نظر یہ سوچا جاسکتا ہے کہ وہ پاکستان میں بھی مذہبی شدت پسندی کو لگام دینے کے لیے حکومت اور ذمہ دار ریاستی اداروں پر زور دیں۔ سی پیک پاکستان اور چین دونوں کے لیے اہم ہے اور اس پر عملدرآمد اور حفاظت کے لیے امن و امان اور بھی زیادہ اہم ہے۔ اب یہ فیصلہ پاکستان کی مذہبی قیادت نے کرنا ہے کہ وہ موجودہ آزادی سے مثبت فائدہ اٹھاتے ہیں یا اسی طرح سے بے مہار رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں آخرکار پاکستان میں وہ نظام آجائے، جسے مذہبی لوگ سیکولر کہیں لیکن پھر ان کے ہاتھ میں کچھ بھی باقی نہ رہے۔
خبر کا کوڈ : 886985
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش