0
Wednesday 23 Sep 2020 00:52

تاریخ ساز فیصلے کی نوید، گلگت بلتستان کو کیا ملنے جا رہا ہے؟

تاریخ ساز فیصلے کی نوید، گلگت بلتستان کو کیا ملنے جا رہا ہے؟
رپورٹ: ایل اے انجم

بہتر سال کے اعصاب شکن انتظار کے بعد بالآخر گلگت بلتستان کو آئینی شناخت ملنے کی نوید سنائی دے رہی ہے۔ اس سے پہلے بھی جی بی کا آئینی مسئلہ حل ہوتے ہوتے کئی بار دروازے سے واپس جا چکا ہے، تاہم اس بار یہ یقین دہانی ملک کے مقتدر حلقوں کی جانب سے دی گئی ہے اور اس حوالے سے قومی اتفاق رائے کیلئے خود آرمی چیف میدان میں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فیصلہ ہوچکا اور اٹل ہے۔ پاکستانی میڈیا میں پارلیمانی رہنمائوں اور آرمی چیف کی اہم ترین میٹنگ کی بات ہو رہی ہے، یہ دراصل گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کے حوالے سے ہی تھی اور آرمی چیف نے پارلیمانی رہنمائوں کو جی بی کی آئینی حیثیت کے بارے میں ملکی و بین الااقوامی صورتحال کے تناظر میں بریفنگ دی اور بتا دیا کہ جی بی کو عبوری آئینی صوبہ بنانا کیوں ضروری ہے۔ اہم ذرائع نے اسلام ٹائمز کو بتایا کہ 16 ستمبر کو جس دن وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈاپور نے جی بی سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے وفد سے خصوصی گفتگو کی تھی، اسی دن شام کو آرمی چیف اور پارلیمانی رہنمائوں کی میٹنگ تھی۔ اس میٹنگ میں پچاس سے زائد پارلیمانی نمائندے شریک تھے۔ اجلاس کا ون پوائنٹ ایجنڈا گلگت بلتستان تھا۔ بعد میں شیخ رشید کی جانب سے بھی تصدیق کی گئی کہ آرمی چیف کے ساتھ میٹنگ میں جی بی کو آئینی صوبہ بنانے پر غور کیا گیا۔

اب ایسا کیا ہوا کہ اچانک ہی گلگت بلتستان ملکی فیصلہ سازوں کے نزدیک اہم ترین ایشو بن گیا؟ ذرائع کے مطابق اس فیصلے کے دو محرکات ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ انڈیا میں انتہاء پسند مودی کی حکومت آنے کے بعد پورے خطے کا منظرنامہ تبدیل ہوچکا ہے اور پھر مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد حالات نے ایک نئی کروٹ لی ہے۔ مودی سرکار کا ایک ہی ایجنڈا پاکستان سے الجھنا ہے اور کسی بھی طریقے سے پاکستان کیخلاف محاذ کھول کر رکھنا ہے، چین کا معاملہ تو لداخ واقعہ کے بعد آیا، مودی کی نظر میں اصل ٹارگٹ پاکستان ہے، جس کا ادراک پاکستان کی حساس اور مقتدر قوتوں کو بخوبی ہے۔ ساتھ ہی بھارت کی جانب سے کئی بار گلگت بلتستان پر دعویٰ بھی کیا جاتا رہا ہے اور قبضہ کرنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی رہی ہیں۔ جی بی کو آئینی صوبہ بنا کر ایک طرح سے مودی سرکار کو سخت پیغام دینا بھی ہے۔ فیصلے کا دوسرا اور اہم ترین محرک سی پیک ہے۔ ذرائع کے مطابق چین کی جانب سے واضح کیا جا چکا ہے کہ سی پیک کو متنازعہ علاقے سے نہیں گزارا جا سکتا، اس کیلئے پاکستان کا آئینی حدود ہونا ضروری ہے۔ چین کے دبائو پر گلگت بلتستان کو فوری طور پر آئینی صوبہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئے سیٹ اپ میں گلگت بلتستان کو آخر ملے گا کیا؟ آئین میں چونکہ پاکستان کی جغرافیائی حدود کا تعین بھی ہوتا ہے، آئین کے آرٹیکل ون میں پاکستان کی جغرافیائی حدود کا تعین کیا گیا ہے، جس کے تحت ملک کے چار صوبے ہیں، اس حدود میں گلگت بلتستان کا نام شامل نہیں۔ اس آرٹیکل میں ترمیم کرکے صوبوں کی تعداد بڑھانا ہوگی اور اس میں گلگت بلتستان کا نام بھی شامل کرنا ہوگا۔ اسی طرح قومی اسمبلی کی نشستوں کے حوالے سے آئین کا آرٹیکل اکیاون ہے، جو قومی اسمبلی کی نشستوں اور صوبوں میں ان کی تقسیم کے حوالے سے ہے، آرٹیکل اکیاون کے تحت قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 342 مقرر کی گئی ہے۔ اگر جی بی کو قومی اسمبلی میں نمائندگی دی جاتی ہے تو اس آرٹیکل میں ترمیم کرکے نشستیں بڑھانا ہوں گی۔ آئین کا آرٹیکل 257 ریاست جموں و کشمیر کے حوالے سے ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں تو پاکستان اور مذکورہ ریاست کے درمیان تعلقات مذکورہ ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق متعین ہوں گے۔ اسی آرٹیکل میں ترمیم کرکے جی بی کو عبوری صوبہ بنانے کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے ساتھ منسلک رکھا جائے گا، جبکہ آرٹیکل 258 صوبوں سے باہر کے علاقہ جات کے نظم و نسق سے متعلق ہے۔ یعنی وہ علاقے جو پاکستان کا حصہ تو ہیں لیکن کسی صوبے کے ساتھ نہیں۔ گلگت بلتستان میں اسی آرٹیکل کے تحت گورننس آرڈر نافذ ہے۔

ذرائع کے مطابق گلگت بلتستان کو آئین پاکستان میں ترمیم کے بعد عبوری آئینی صوبہ بنایا جائے گا اور ساتھ مسئلہ کشمیر کے ساتھ منسلک بھی رہے گا۔ ایک اہم خبر یہ ہے کہ عبوری صوبے کی جغرافیائی حدود صرف گلگت بلتستان تک ہی محدود نہیں ہوگی بلکہ کئی اور بھی علاقے شامل ہوں گے۔ سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات میں قومی اسمبلی میں تین نشستوں کی تجویز دی گئی تھی، تاہم ابھی فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ جی بی کو کم از کم 5 نشستیں دی جائیں۔ ایک اور تجویز یہ بھی ہے کہ ڈسٹرکٹ لیول پر نشستیں دی جائیں، اس صورت میں جی بی کو دس نشستیں ملیں گی۔ سینیٹ میں 3 سیٹوں کا امکان ہے جو ڈویژن لیول پر تقسیم ہوگی۔ جی بی کونسل برقرار رہے گی بلکہ اس کے ممبران کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔ کونسل کو ختم کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے، تاہم حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ چیف کورٹ کو ہائیکورٹ کا درجہ دیا جائے گا، سپریم ایپلٹ کورٹ کو ختم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے، کیونکہ آئینی صوبہ بننے کے بعد مقامی سپریم کورٹ کی ضرورت نہیں رہے گی، نہ ہی آئین میں اس کی گنجائش ہوگی۔ قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کیلئے مولانا فضل الرحمن کے علاوہ دیگر تمام جماعتوں کی جانب سے مکمل حمایت کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 887856
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش