0
Friday 25 Sep 2020 22:22

عمران خان کی ٹی وی چینلز کے ڈائریکٹر نیوز سے ملاقات کا احوال

عمران خان کی ٹی وی چینلز کے ڈائریکٹر نیوز سے ملاقات کا احوال
ترتیب و تنظیم: ٹی ایچ بلوچ

پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد پاکستان میں احتساب کے نام پر تبدیلی کا نعرہ لگایا گیا، اسی طرح نوکریوں اور گھر دینے کے وعدے کیے گئے، لیکن حالات میں خرابی بڑھتی گئی، لوگ بے روزگار ہوئے، بے چینی میں اضافہ ہوتا گیا۔ اپوزیشن ابتدا سے ہی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی، مولانا فضل الرحمان نے موقف اختیار کیا کہ ناجائز حکومت کو شروع سے ہی ختم ہونا چاہیئے، لیکن مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اس کی تائید نہ کرتے ہوئے پالیسی کی وضاحت کی کہ یہ حکومت اپنی ناکامیوں کے سبب اپنے بوجھ سے گرے گی، پی ٹی آئی بطور سیاسی قوت ختم ہونے کی حد تک کمزور ہو جائیگی اور عمران خان کو اقتدار میں لانے والوں کو بھی احساس ہوگا کہ انہوں نااہل آدمی کی پشت پناہی کی۔

اسی طرح مین اسٹریم میڈیا نے 2014ء کے دھرنوں سے لیکر 2018ء کے الیکشن تک کرپشن کا اتنا شور مچایا کہ رائے عامہ بظاہر عمران خان کے حق میں نظر آنے لگی۔ عمران خان نے حکومت میں آنے کے بعد ایک عرصہ تک جو وعدے کیے، ان پر میڈیا سے بات نہیں کی بلکہ سارا ملبہ گذشتہ حکومتوں پر ڈالتے رہے۔ لیکن اس سال کے آغاز میں انہوں نے اپنی پرانی روش ترک کرکے میڈیا پرسنز کیساتھ کھل کر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے اسلام آباد میں مختلف ٹی وی چینلز کے ڈائریکٹر نیوز سے ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے درج ذیل ایشوز پر گفتگو کی ہے۔

1۔ حکومت اور فوج کے درمیان اس تاریخی ہم آہنگی:
ٹی وی چینلز کے ڈائریکٹر نیوز سے ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف مایوس ہوچکے ہیں، نواز شریف کی پالیسی ہے نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے، نواز شریف کی فوج کے خلاف تقریر کی خوشیاں بھارت میں منائی گئیں۔ مولانا فضل الرحمان کو اس لیے ساتھ رکھتے ہیں کیونکہ ان کے پاس لانے کے لیے لوگ نہیں، اپوزیشن کو تکلیف ہے کہ فوج صرف ان کی پالیسی پر چلتی ہے، جب بھی مسئلہ آتا ہے، فوج حکومت کے پیچھے کھڑی ہوتی ہے، نواز شریف حکومت اور فوج کے درمیان اس تاریخی ہم آہنگی کو توڑنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ معاملہ چاہے افغانستان سے متعلق ہو یا بھارت سے متعلق، چاہے پائلٹ کا معاملہ ہو، چاہے کرتار پور ہو، فوج میری پالیسی پر عمل کرتی ہے، جب بھی مسئلہ آتا ہے، فوج حکومت کے پیچھے کھڑی ہوتی ہے۔

2۔ عسکری قیادت سے اپوزیشن رہنماوں کی ملاقاتیں:
عمران خان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی تقریر اخلاقی اعتبار سے نہیں دکھانی چاہیئے تھی، اگر تقریر روکتے تو آزادی اظہار کا مسئلہ بن جاتا، کسی بھی معاملے پر سمجھوتہ کرسکتے ہیں لیکن این آر او نہیں دیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ گلگت بلتستان والا اجلاس سکیورٹی سے متعلق تھا، بھارت گلگت بلتستان میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے، فوجی قیادت کی ملاقاتوں کا مجھے پتہ ہوتا ہے، جو فوجی قیادت سے چھپ کر ملتے ہیں، ان کے بارے میں کیا کہوں، میں نواز شریف اور آصف زرداری کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں دیکھتا، "ن" ہو یا "ش" ہو، دونوں جماعتیں نہیں چل سکتیں، اسی لیے جی ایچ کیو بھاگ کر جاتے ہیں۔

3۔ اپوزیشن اسمبلیوں سے استعفے کی دھمکی کا جواب:
وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن اسمبلیوں سے استعفے دے گی تو ضمنی انتخابات کرا دیں گے، اپوزیشن ضمنی انتخابات میں ایک سیٹ بھی نہیں لے سکے گی۔ چاہے افغانستان سے متعلق ہو یا بھارت سے متعلق، میری پالیسی چلتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف نے این آر او دینے کی غلطی کی تھی، میں نے پرویز مشرف کو این آر او دینے پر ہی چھوڑا تھا، یوٹرن ہمیشہ ایک مقصد کے لیے ہوتا ہے، میں مانتا ہوں کہ میری حکومت میں میڈیا سے رابطوں کا فقدان ہے، میں نے پاکستان میں سب سے زیادہ اسٹریٹ پاور استعمال کی ہے، مجھے سب سے زیادہ اسٹریٹ پاور استعمال کرنے کا پتہ ہے۔

4۔ شوگر مافیا کیخلاف ایکشن لینے کا اعادہ:
وزیراعظم عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شوگر مافیا سے نمٹ رہے ہیں، جس طرح چینی کی قیمتیں بڑھی ہیں، ہم ایکشن لے رہے ہیں، ہم آئندہ اس طرح مافیا کو چینی کی قیمیں نہیں بڑھانے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 15 سال سے زندگی بچانے والی ادویات کی قیمتیں نہیں بڑھیں، جس کی وجہ سے زندگی بچانے والی ادویات مارکیٹ سے غائب ہوگئی تھیں، اب قیمتیں بڑھائی ہیں، تاکہ مارکیٹ میں سپلائی بہتر ہو۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سال گندم کی پیداوار کم ہوئی، جس کا ہمیں بتایا بھی نہیں گیا، 18ویں ترمیم میں زرعی شعبہ صوبوں کو دے دیا گیا، جو نہیں دینا چاہیئے تھا، پاکستان کا مستقبل روشن ہے، 2، 3 سال میں پاکستان تمام مشکلات سے باہر آجائے گا، پاکستان خوش قسمت ہے کہ چین ہمارا دوست ہے، اچھی بات یہ ہے کہ چین کو پاکستان کی اتنی ضرورت ہے، جتنی پاکستان کو چین کی۔

5۔ فحاشی و عریانی کے خاتمے کیلئے اقدامات کا ذکر:
وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت ابھی بھی نئی ہے، جمہوری جماعتوں کے اندر اختلاف رائے ہوتا ہے، ہماری کابینہ میں ایسے بھی وزراء ہیں، جو اپنی طرف گول کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں مغربی فلموں کی وجہ سے فحاشی بڑھ رہی ہے، پاکستان میں جنسی جرائم بڑھ رہے ہیں، ہمیں اپنی فلموں کے ذریعے فحاشی کے خلاف کلچر کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ 

واضح رہے کہ عمران خان متعدد بار نظام تعلیم اور پولیس میں اصلاحات اور کڑے احتساب کی بات کرچکے ہیں لیکن اس حوالے سے کسی قسم کی پیشرفت سامنے نہیں آئی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت بھی سابقہ حکمرانوں کی راہ و روش اختیار کرچکی ہے، نہ اصلاحات ہوئی ہیں اور نہ ہی کرپشن کا خاتمہ ہوسکا، اسی لیے تحریک انصاف کی حکومت بلدیاتی انتخابات سے کنارہ کشی اختیار کر رہی ہے، تاکہ انہیں ناکامی اور شکست کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ دوسری طرف آئے روز میڈیا پرسنز کیساتھ ملاقاتوں سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ حکمران طبقہ نان ایشوز کو نمایاں کرکے اپنی ناکامیوں پر ہردہ ڈالنا چاہتا ہے۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں ایک مرتبہ پھر بے یقنی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے عوام سخت پریشانی میں مبتلا ہیں۔
خبر کا کوڈ : 888414
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش