0
Saturday 26 Sep 2020 06:31

مذہبی شدت پسندی کا بھی کرونا آیا ہوا ہے کیا؟

مذہبی شدت پسندی کا بھی کرونا آیا ہوا ہے کیا؟
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

سات ماہ پہلے دنیا ایک مخصوص رفتار سے چل رہی تھی، انسانون نے ہر چیز کے ضابطے طے کر رکھے تھے اور کم و بیش ہر جگہ معاملات انہی کے تحت آگے بڑھ رہے تھے۔ قدرت کو رنگا رنگی پسند ہے اور وہ یکسوئی اور یک رنگی کو پسند نہیں کرتی، چائنہ میں ایک وائرس جنم لیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک سو سال بعد دنیا ایک بڑی وبا کی لپٹ میں آجاتی ہے۔ پہلے وبائیں جن علاقوں میں جنم لیتی تھیں، انہی میں دم توڑ جاتی تھیں مگر اب ایسا نہیں ہوا۔ وہ تیز رفتار ذرائع نقل و حمل جس کی ایجاد پر انسان کو فخر ہے کہ اب ہم نے فضاوں کو مسخر کر لیا ہے اور اب ہماری منزل اس سے بھی بلند ہے، وہی تیز رفتاری وبال جان بن گئی۔ اگر یہ تیز رفتاری نہ ہوتی یہ وائرس وھان میں دم توڑ جاتا۔ اس سے قبل کہ دنیا اس خطرے کی طرف متوجہ ہوتی،  دنیا بھر کے چین میں موجود شہریوں کی وجہ سے یہ وباء ملک ملک پہنچ گئی۔

انسانی دانش نے بے انتہا ترقی کی ہے اور اسی ترقی نے انسان کو مغرور کر دیا تھا، وہ خالق کی طاقت کو بھلا بیٹھا تھا۔ اپنی طاقت کا حساب کتاب تو بڑی عرق ریزی سے کر رہا تھا، مگر تخلیق کرنے والے کی قوت و اختیار کی طرف متوجہ نہ تھا اور بعض ایسی کسی بھی قوت کا انکار کر رہے تھے۔ ایسے میں انتہائی کمزور مخلوق کے ذریعے جو عام آنکھوں سے نظر بھی نہیں آتی، انسان کو بے بس کرکے رکھ دیا۔ حیرت انگیز طور پر دنیا اپنی تمام تر ترقی کے باوجود وہی طریقے اپنانے پر مجبور ہوگئی، جو سینکڑوں سالوں سے انسانی دانش نے ایجاد کیے ہیں کہ شہروں اور ملکوں میں لاک ڈاون کرکے آمد و رفت پر پابندی لگا دی جائے۔ یہ قدرت کا ایک پیغام ہے کہ میرے نیچرل ماحول میں حد سے زیادہ مداخلت کرو گے تو وباوں کے سامنے کے لیے تیار رہو اور دوسرا اپنی ترقی کے باوجود منکر خدا نہ بن جاو۔

دنیا بھر میں کرونا انفرادی اور اجتماعی طور پر خود احتسابی کا احساس لے کر آیا ہے۔ گھروں میں بند لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ جن چیزوں کو وہ سب کچھ سمجھتے تھے، آج وہ ان کے کسی کام کی نہیں ہیں۔ گاڑی ہے اسے استعمال نہیں کرسکتے، فارم ہاوسز ہیں ان میں جا نہیں سکتے، جہاز ہیں مگر اڑا نہیں سکتے اور مال و دولت ہے مگر اسے اپنی آسودگی کے لیے استعمال میں نہیں لا سکتے، بس بند پڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں ہر چیز کو ذرا مختلف انداز میں دیکھا جاتا ہے، اس لیے سب سے پہلے تو کرونا کو ہی سیریس نہیں لیا گیا بلکہ اس کا مذاق اڑا یا گیا اور جب کرونا نے تھوڑا اثر دکھایا تو کچھ لوگ خوف کھانے لگے۔

ہماری مذہبی قوتوں اور ان کی قیادت نے اس کرونا سے بجائے خود احتسابی کرکے کوئی اچھا سبق لینے کے فرقہ بندی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ انہوں نے دیکھا لوگ فارغ بیٹھے ہیں تو انہیں فرقہ فرقہ کھیلنے پر لگا کر اپنی دکانیں چمکاتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کے بقول مولوی فارغ بیٹھے تھے، ان کے پاس کوئی ایشو ہی نہیں تھا، جس کے ذریعے وہ اپنی دکانداری کی مارکیٹنگ کرسکیں۔ جیسے جیسے محرم قریب آرہا تھا، مذہبی اشرافیہ یہ دعائیں مانگ رہی تھی کہ یہ وباء زیادہ ہو اور محرم کے جلوس نہ نکل سکیں، مگر خدا صرف ان کا تھوڑی ہے؟ اس نے پاکستان پر خصوصی کرم کیا اور محرم سے پہلے کیسز کی تعداد دس ہزار سے بھی نیچے آگئی اور حکومت نے جلوسوں کی  اجازت دے دی۔ جب خدا نے پاکستانی عوام کے حق میں ان کی بد دعا نہ سنی اور اہل خیر کی دعا سے ملک میں کرونا کے کیسز انتہائی کم ہوگئے تو  بارگاہ خداوندی سے دھتکارے ان لوگوں نے نواسہ پیغمبرﷺ کے جلوسوں کو فرقہ واریت پیدا کرکے متاثر کرنے کی کوشش کی۔

آپ جب چاہیں جس کی شان میں جلوس نکالیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، آپ کی عقل و شعور سے عاری پالیسیوں نے قادیانیت کو پنجاب کے چند شہروں سے نکال کر پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ افریقہ میں جلد ہی وہ کسی ملک کے مالک بھی بن جائیں گے یا بنا دیئے جائیں گے۔ خیر دو چھوٹے چھوٹے انفرادی واقعات کو بنیاد بنا کر جس طرح پاکستان میں فرقہ واریت کو دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے، یوں لگتا ہے کہ کچھ لوگ خاص طور پر کسی بیرونی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ آصف علوی کی گستاخانہ تقریر اسلام آباد میں تھی اور اس کے خلاف جلوس کراچی کی سڑکوں پر تکفیریت کے بیانیے بن رہے تھے۔ یہ خلاف معمول ہے، عام طور پر جس شہر میں ایسے واقعات ہوتے ہیں، جیسے اٹک میں علم پاک جلانے کا واقعہ ہوا، مقامی سطح پر اشتعال پھیلا، شیعہ سنی عمائدین انتظامیہ کے ساتھ مل کر بیٹھے اور علم کو دوبارہ لگا کر مسئلہ حل کر لیا گیا۔

یہاں جس شہر میں واقعہ ہوا، وہاں چھوٹا موٹا روایتی احتجاج ہوا جو کہ بالکل درست ہوا، مگر اسے ایک مہم کی شکل دے کر کراچی کی سڑکوں پر تکفیری نعرے لگانا فقط جلتی پر تیل ڈالنے والی بات ہے۔ مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن نے انتہائی غلط کردار ادا کیا، ان دونوں کی زبانوں سے مفتی عبدالعزیز کی یزید نوازی کے خلاف تو ایک لفظ نہ نکلا اور نہ کراچی کے تیسرے اجتماع میں یزید زندہ باد کے نعروں  کے خلاف لب کشائی کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کا ایجنڈا صحابہ کا احترام نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو امام حسینؑ کو صحابی جان کر ہی ان کے خاندان کے قاتل کے حق میں نعرے بازی کرنے والوں کے خلاف ایک بیان دے دیتے،  مگر ایسا نہیں کیا گیا۔

مفتی تقی عثمانی کے پیغام اور اس کے بیانات سے واضح ہو رہا ہے کہ اس کا مقصد صحابہ کرام نہیں ہے، نعرہ یہی ہے کہ اس کا اصل ٹارگٹ محرم  و چہلم کے جلوس ہیں۔ مفتی صاحب شیعہ خود بہتر جانتے ہیں کہ ان کے ہاں جلوس واجب ہیں یا مستحب، آپ کو اس سے کیا غرض ہے؟ شیعہ جلوس نکالتے ہیں اور نکالتے رہیں گے، آپ نے ان جلوسوں کے راستوں میں مدارس بنا کر فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ اصل بات یہ ہونی چاہیئے کہ جلوس کے راستوں میں فرقہ پرستوں نے مدارس کیوں بنائے ہیں؟ نہ یہ مدارس ہوتے اور نہ ہی ان کی فرقہ پرستی ہوتی۔ پاکستان بھر میں جلوس مساجد و مدارس کے سامنے سے گزرتے ہیں اور پرامن انداز میں گزر جاتے ہیں، کوئی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ مساجد کے دروازے عزاداروں پر کھلے ہوتے ہیں، وہ وضو کرتے ہیں، وہ نماز ادا کرتے ہیں۔ جلوسوں میں بھی شیعہ سنی مل کر شریک ہوتے ہیں، یہ کسی فرقہ کے نہیں امام حسینؑ کے جلوس ہیں۔ ان میں لوگ مذہب و مسلک سے بالا تر ہو کر شریک ہوتے ہیں اور یہی ان کا حسن ہے۔

حضرت مفتی گلزار احمد نعیمی صاحب نے پرسوں سیمینار میں درست فرمایا کہ آپ طاقت کے زور پر اپنی بات منوانا چاہتے ہیں؟ یاد رکھیں طاقت کے زور پر بات تو خیر آپ کی کوئی نہیں مانے گا، آپ خود بے نقاب ہو جائیں گے۔ حکومتی عہدوں سے دہائیوں سے مستفید ہو رہے ہیں اور اب بھی سرکاری پروٹوکولز لیتے ہیں، اچھی بات ہے ضرور لیں مگر فرقہ واریت نہ پھیلائیں۔ جہاں تک اصل مسئلہ تھا شیعہ علماء نے آپ کی بات سنی اور اس پر مناسب ردعمل دیا، ان لوگوں سے اظہار لاتعلقی کیا۔ اب آپ بھی رک جائیں، ملک کو امن کی طرف لے جائیں، یہ آپ کی شرعی ذمہ داری ہے، اگر آپ کی بھڑکائی آگ میں ایک آدمی بھی جان سے جاتا ہے تو کل روز محشر آپ کو اس کا حساب دینا ہوگا اور وہاں فیصلہ کرنے والا وہ قادر مطلق ہے، وہ کسی کے دباو میں فیصلہ نہیں کرتا اور نہ ہی اسے فیصلہ کرنے کے لیے گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ وطن عزیز کو امن و سلامتی نصیب فرمائے۔
خبر کا کوڈ : 888457
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش