0
Monday 26 Oct 2020 21:36

نو ربیع الاول عصر مہدوی کا آغاز

نو ربیع الاول عصر مہدوی کا آغاز
تحریر: سیدہ ایمن نقوی

ربیع الاول کا مہینہ اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے اور اس مہینے کی اہمیت روز روشن کی طرح واضح ہے، جہاں اس مہینے کی سترہ تاریخ کو اللّه تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے رحمت للعالمین حضرت محمّد صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کو اس دنیا میں بھیج ہم پر اپنی نعمتوں کی بارش کر دی، وہاں 9 ربیع الاول کی تاریخ حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کی امامت کے آغاز کا دن ہے، حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالٰی کی امامت کا آغاز دنیا کے مظلوموں کی امید ہے، وہ آئیں گے اور دنیا کو انصاف سے پُر کردیں گے جو ظلم و جور سے پر ہو چکی ہے۔ ربیع الاول کی نویں تاریخ نہ صرف امام عصر (ع) کی امامت کا پہلا دن ہے بلکہ شیعہ تاریخ کے ایک اہم دور کے آغاز کا دن بھی ہے۔ شیعہ اس دن کو عید کے طور پر مناتے ہیں اور عبادت کرنے کیساتھ ساتھ خوشی مناتے ہیں۔ یہ خدا کا وعدہ ہے کہ وہ اپنی زمین کو کسی بھی دور زمانہ میں حجت سے خالی نہیں رکھے گا۔ فقہی اور روایی منابع میں موجود دستاویزات سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ امام حسن عسکری کی شہادت کے بعد لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آخری خلیفہ کے لئے جب کافی پریشان تھے تو امام مہدی عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف نے لوگوں کے سامنے ظاہر ہو کر اپنے چچا کو ہٹا کر اپنے والد گرامی کی نمازہ جنازہ پڑھائی۔

بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) حضرت مہدی عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کی امامت کے آغاز کے بارے میں فرماتے ہیں کہ "ربیع الاول کی نویں تاریخ حضرت مہدی عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کی امامت کے آغاز کا دن ہے، حضرت مہدی علیہ السلام کی امامت کا آغاز دنیا کے مظلوموں کی امید ہے، وہ آئیں گے۔ رہبر کبیر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر مسلمان کا ایک اہم فریضہ یہ ہے کہ حضرت مہدی (ع) کے ظہور کے منتظر رہیں۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس توقع کا صلہ کیا ہے اور انتظار کرنے والوں کے لئے ثمرات کیا ہیں؟ امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا انتظار کرنے والوں کے لیے یہی کافی ہے کہ ان کا نام امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے صحابیوں میں لکھا جائے گا"۔ امام زمانہ زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سرچشمئہ ولایت کا وہ گوہر نایاب ہیں کہ جنکے وجود کا عقیدہ، ایمان کی تکمیل کا سبب بنتا ہے۔ آج ہر ایک چاہنے والے کی زبان پر انکا کا ذکر جاری و ساری ہے، ہماری دعاؤں میں انکا کا تذکرہ ہے، مناجات میں امام کی یاد ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ  ہمارے لئے انکی معرفت و شناخت اور خصوصیات سے باخبر ہونا بھی ضروری ہے۔

ابو سعید خدری کی رسول گرامی اسلام سے روایت ہے کہ آپ امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کے بارے میں فرماتے ہیں، "عن ابی سعید الخدری قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ ابشرکم بالمھدی یبعث فی امتی علی اختلاف من الناس و زلزال فیملا الارض قسطا و عدلا کما ملئت ظلما و جورا یرضی عنہ ساکن السماء و ساکن الارض یقسم المال صحاحا فقال لہ رجل وما صحاحا قال السویة بین الناس"۔ ابو سعید خدری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا، میں تمہیں مہدی کی بشارت دیتا ہوں کہ وہ اس وقت میری امت میں آئیں گے جب امت کے افراد آپس میں اختلاف کر رہے ہوں گے اور لڑکھڑا رہے ہوں گے تو آپ (عج) زمین کو اسی طرح انصاف و عدالت سے پر کریں گے جیسے کہ وہ ظلم و ستم سے پر ہو چکی ہوگی، ان سے آسمان و زمین والے راضی ہوں گے وہ مال کو صحیح تقسیم کریں گے۔ ایک اور جگہ پیغمبر (ص) نے فرمایا کہ "میرے فرزند امام مہدی (عج) میرے ہم نام ہیں اور آپ کی کنیت بھی میری کنیت ہے اور صورت و سیرت میں دوسروں سے بہت زیادہ مجھ سے مشابہت رکھتے ہیں۔ آپ (ع) کے لیے لمبی غیبت (غیبت کبری) ہے، جس میں بہت سے لوگ گمراہ ہو جائیں گے اور تھوڑے سے لوگ باقی رہیں گے اور اس کے بعد میرے یہ فرزند چمکتے ستارے کی مانند طلوع کریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کر دیں گے جس طرح کہ یہ ظلم و ستم سے بھر چکی ہو گی"۔

9 ربیع الاول کا مقدس اور مبارک دن حضرت ولی اللہ الاعظم، امام مبین، بقیۃ اللہ فی الارضین، موعود الانبیاء و المرسلین کی ولایت و امامت کے آغاز کا دن ہونے کیساتھ  ظلم و استکبار اور استضعاف سے رہائی اور نجات و کا دن بھی ہے۔ منتظرین پر لازم ہے کہ اس روز کو عقیدت و احترام کے ساتھ منائیں اور اس کی تعظیم کو اپنے لیے فخر و اعزاز سمجھیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اس روز سے ہجری تاریخ کے اندر عصر مہدوی کا آغاز ہوتا ہے۔ گویا نو ربیع الاول کو عید منانے کا حقیقی فلسفہ آغاز ولایت امام زمانہ (ع) ہے، اسی روز سے مولائے عصر والزمان (عج) کی ولایت و امامت کا آغاز ہوا ہے، اسی لئے نو ربیع الاول یوم اللہ ہے۔ ربیع الاول رسول اللہ (ص) اور امام صادق علیہ السلام کی ولادت کا مہینہ ہے۔ بعض روایات کے مطابق رسول اللہ (ص) کی ہجرت مدینہ کا مہینہ بھی یہی ہے، اسی مہینے رسول اللہ (ص) کی ولادت ہوئی، گویا دین خاتم کا آغاز بھی اسی مہینے سے ہوا اور یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کی 8 تاریخ کو امام حسن عسکری علیہ السلام  عباسی خلیفہ کے ہاتھوں شہید ہوئے، تو 9 ربیع الاول کی رات امام زمانہ کی امامت و ولایت کا آغاز ہوا۔

امام زمان (عج) کے دور ولایت و امامت کے آغاز کی کیفیت کچھ اسطرح سے ہے کہ عباسی سلاطین نے امام صادق سے امام عسکری علیہما السلام تک (چھ اماموں) کو شہید کر دیا تھا۔ معتصم عباسی نے امام عسکری علیہ السلام کو شہید کرنے کے بعد امام عصر (عج) کا تعاقب بھی شروع کیا۔ کئی لوگ امام (ع) کے گھر میں تعینات کئے اور انہیں ہدایت کی کہ فرزند عسکری (ع) کو ڈھونڈ لائیں۔ بے رحم دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے سلسلہ امامت کی آخری کڑی کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن قدرت نے انہیں محفوظ کر لیا۔ آج کے دن اہلِ بیت رسول (ص) نے سانحہ کربلا کے بعد اپنا سوگ ختم کیا تھا۔ اسے عیدِ زہراء سلام اللہ علیہا بھی کہتے ہیں اور عیدِ شجاع بھی۔ مؤرخین کا اتفاق ہے کہ اس دن جناب مختار نے حضرت حنفیہ کی خدمت میں قاتلان امام علیہ السلام کے سر بھیجے اور انکے ساتھ ایک خط بھی اس مضمون کے ساتھ لکھ کر بھیجا تھا کہ "میں نے آپ کے مددگاروں اور ماننے والوں کی ایک فوج آپ کے دشمنوں کو قتل کرنے کے لِیے موصل بھیجی تھی، اس فوج نے بڑی جوانمردی اور بہادری کے ساتھ آپ کے دشمنوں کا مقابلہ کیا اور بے شمار دشمنوں کو قتل کیا جس سے مؤمنین کے دلوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی اور آپ کے ماننے والے نہایت خوش اور مسرور ہوئے، اس سلسلے میں سب سے بڑا کردار ابراہیم ابن مالک اشتر نے ادا کیا، جو سب سے زیادہ تحسین و آفرین کے مستحق ہیں"۔

جناب محمد حنفیہ کے سامنے جب وہ تمام سر پیش کئے گئے تو دیکھتے ہی سجدہ شکر میں جھک گئے اور جناب مختار کے حق میں دعا کی کہ "خداوند مختار کو جزائے خیر دے، جس نے ہماری طرف سے واقعہ کربلا کا بدلہ قاتلان حسین علیہ السلام سے لیا ہے، پھر اس کے بعد آپ نے سجدہ شکر سے سر اٹھا کر عرض کیا، یا اللہ تو ابراہیم ابن مالک اشتر کی ہر حال میں حفاظت فرما اور دشمنوں کے مقابلے میں ہمیشہ اسکی مدد کر اور انہیں ایسے امور کی توفیق عطا فرما جو تیری مرضی کے مطابق ہوں اور جن سے تو راضی ہو اور ان کو دنیا و آخرت میں بخش دے"۔ جناب حنفیہ نے ابن زیاد، عمر سعد، حسین بن نمیر اور شمر ذی الجوشن وغیرہ کے سروں کو امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں ارسال فرمایا جو اُن دنوں حضرت مکہ مکرمہ میں ہی مقیم تھے۔ حضرت کی خدمت میں جب اُن ملعونوں کے سر پہنچے اور آپ کی نگاہ اُن سروں پر پڑی، آپ علیہ السلام نے فوراً سجدہ شکر میں اپنا سر رکھ دیا اور بارگاہ احدیت میں عرض کی، "پروردگار میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تونے ہمارے دشمنوں سے انتقام لیا ہے، پھر سجدے سے سر اٹھا کر آپ علیہ السلام نے فرمایا، خدایا مختار کو جزائے خیر دے کہ اُس نے ہمارے دشمنوں کو قتل کیا ہے"۔

جس وقت ابن زیاد کا سر آپ علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا آپ ناشتہ تناول فرما رہے تھے۔ اُن سروں کو دیکھ کر آپ نے سجدہ شکر ادا کیا، پھر سر اٹھا کر فرمایا کہ "خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس نے میری وہ دعا قبول کر لی جو میں نے دربار کوفہ میں کی تھی۔ جب میرے پدر بزگوار کا سر طشت میں رکھا ہوا تھا اور اُس وقت ابن زیاد ملعون ناشتہ کر رہا تھا، تو میں نھے دعا کی تھی کہ خداوندا مجھے اُس وقت تک موت نہ دینا جب تک مجھے ابن زیاد ملعون کا کٹا ہوا سر نہ دکھا دے"۔ اس کے بعد حضرت زین العابدین علیہ السلام گھر میں داخل ہوئے اور مخدرات عصمت و طہارت سے فرمایا کہ اب لباس ماتم تبدیل کرو، آنکھوں میں سرمہ لگاؤ، سروں می تیل ڈالو اور بالوں میں کنگھی کرو۔ چنانچہ آپ کے ارشاد کے مطابق اہل حرم نے عمل کیا۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد سے آج تک اہلبیت رسول صلی اللہُ علیہ و آلہ وسلم میں سے نہ کسی نے سرمہ لگایا تھا اور نہ ہی بالوں میں تیل ڈالا تھا۔
خبر کا کوڈ : 894176
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش