0
Wednesday 4 Nov 2020 20:26

کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی صورتحال عالمی سطح پر بدترین قرار

کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی صورتحال عالمی سطح پر بدترین قرار
رپورٹ: ایم رضا

عالمی مالیاتی تحقیقی اور ابلاغی ادارے بلومبرگ نے کراچی میں تباہ حال سڑکوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی بدترین صورتحال کی بناء پر کراچی کو سیاسی یتیم قرار دے دیا۔ بلومبرگ نے اپنی سٹی لیب رپورٹ میں کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ کی زبوں حالی اور سڑکوں کی صورتحال سمیت نامکمل منصوبوں کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا تیسرا بڑا شہر اس وقت سیاسی طور پر یتیم ہو جانے والے ایسے شہر کی تصویر پیش کر رہا ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں۔ رپورٹ کے مطابق بندرگاہ کو شہر کے وسط سے ملانے والا ایم اے جناح روڈ جو ہمیشہ ٹریفک کی روانی میں اہم کردار ادا کرتا رہا، اب مستقل بدترین ٹریفک جام کا شکار رہتا ہے۔ کراچی میں پبلک بسوں پر مشتمل ایکسپریس لین کا منصوبہ جو شہر کے بڑے حصے سے ہوکر گزرتا ہے، تین سال کی تاخیر کے باوجود ادھورا پڑا ہے، اس منصوبہ کے لئے مختص ایک بالائی گزرگاہ شہر کی اہم سڑکوں کی تین میں سے دو ٹریفک لینز بھی نگل چکا ہے۔ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو جدید بنانے کا یہ منصوبہ تین سال قبل مکمل ہونا تھا، تاہم تاحال یہ ٹریک خالی پڑا ہے۔

بلومبرگ نے 2019ء میں کاروں کے پرزہ جات بنانیوالی عالمی کمپنی Mister Auto کی دنیا کے 100 شہروں کے ٹرانسپورٹ نظام کا جائزہ پر مبنی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس رپورٹ میں بھی کراچی کو دنیا میں پبلک ٹرانسپورٹ کے بدترین نظام کا حامل شہر قرار دیا گیا۔ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ کراچی کی 42 فیصد آبادی دہائیوں پرانی کھچا کھچ بھری ہوئی بوسیدہ حال بسوں کے اندر اور چھتوں پر چڑھ کر سفر کرنے پر مجبور ہیں، کراچی کے شہری بس کی چھتوں کو ترقی یافتہ ملکوں میں چلنے والی دو منزلہ بسوں کی طرح استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کراچی کی سڑکیں گڑھوں سے بھری ہوئی ہیں، ٹریفک سنگنلز کا پورا نظام بھی تاحال خودکار نہیں بنایا جاسکا اور سرخ اشارے کی خلاف ورزی معمول ہے۔

ملک کا سابق دارالخلافہ اور بندرگاہوں کا حامل شہر کراچی متعدد بین الاقوامی کاروباری اداروں کے علاقائی صدر دفاتر کا بھی مرکز ہے، جو ملکی خزانے کے نصف سے زائد ٹیکس بھی کراچی سے ہی ادا کئے جاتے ہیں۔ کراچی میں انتظامی بدحالی مون سون سیزن کی حالیہ ریکارڈ بارشوں میں کھل کر عیاں ہوگئی، جب بارشوں کے باعث 64 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 10 ہزار افراد کو ریسکیو کیا گیا، اس دوران شہر کا بڑا حصہ کئی دنوں تک بجلی سے محروم رہا اور شہریوں کو موبائل فون سروس اور اے ٹی ایمز کی بندش کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس صورتحال کے بعد وزیراعظم پاکستان نے کراچی کا دورہ کیا اور کراچی کی بحالی کے لئے 1199 ارب روپے (6.8 ارب ڈالر) کے پیکج کا اعلان کیا، جو پاکستان کو دیوالیہ سے بچانے کے لئے آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدے کے تحت 6 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج سے بھی زائد ہے۔

وفاقی حکومت نے کراچی کے میگا پراجیکٹس کے لئے گذشتہ سال بھی 162 ارب روپے کے فنڈز کا اعلان کیا تھا، تاہم آفیشل رپورٹس کے مطابق گذشتہ سال یہ فنڈ جاری نہیں کئے گئے۔ البتہ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ جون 2020ء تک کراچی پر وفاق نے 24.65 ارب روپے خرچ کئے جبکہ رواں مالی سال 17.9 ارب روپے کراچی کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ عالمی ادارے نے بین الاقوامی ماہرین کی رائے کی بنیاد پر کراچی کے ٹرانسپورٹ سسٹم کی تباہی کو کرپشن اور بدانتظامی کا نتیجہ قرار دیا، جس کے سبب کراچی کے بڑے حصے کو آپس میں جوڑنے والا سرکلر ریلوے سسٹم بھی غیر فعال ہوگیا۔ سرکلر ریلوے ٹریک کے بڑے حصے پر غیر قانونی کچی آبادیاں قائم ہوچکی ہیں۔ ماہرین کے مطابق کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لئے تجاوزات کا انسانی بنیادوں پر حل نکالنا ضروری ہے، جس کے تحت بے دخل ہونے والی آبادی سیاسی فائدے نقصان کو پس پشت رکھتے ہوئے متبادل رہائش کی سہولت دستیاب کرنا ہوگی۔

کراچی کے بیشتر اہم منصوبے تاخیر کا شکار ہیں، گرین لائن بس سروس چھ سال قبل شروع کیا گیا، جو تاحال مکمل نہ ہوسکا، اسی طرح کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا منصوبہ بھی 15 سال سے زیر غور ہے، ادھر پانی کی سپلائی کا بڑا منصوبہ بھی 18 سال کی تاخیر کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں کراچی کی سب سے پوش آبادی کا انحصار ٹینکروں سے سپلائی ہونے والے پانی پر ہے، جسے عوامی زبان میں ٹینکر مافیا بھی کہا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں بنیادی سہولتیں اور انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے سے اس شہر کی پیداواری صلاحیت میں مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے، جس سے پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔
خبر کا کوڈ : 895921
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش