0
Friday 5 Feb 2021 09:10

یمن پر سعودی جارحیت کے حقائق(2)

یمن پر سعودی جارحیت کے حقائق(2)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے 26 مارچ 2015ء کے دن امریکی سبز جھنڈی پر یمن کے خلاف جارحیت کا آغاز کیا۔ سعودی عرب اس جنگ اور حملے کے ذریعے اپنی مرضی کے افراد کو یمن کے اقتدار پر مسلط کرنا چاہتا تھا، لیکن گذشتہ چھ سالوں میں آل سعود کو اس میں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان چند سالوں میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی وحشیانہ جارحیت کے نتیجے میں عرب دنیا کے غریب ترین ملک یمن میں انسانی المیہ رونما ہوچکا ہے سعودی عرب نے امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ کے تعاون و حمایت سے اس جارحیت کا آغاز کیا اور اس کے پیچھے سامراجی اہداف ایک ایک کرکے سامنے آچکے ہیں۔ سعودی عرب اور اسکے اتحادی یہ گمان کر رہے تھے کہ نہایت سرعت سے یمن پر اپنی مرضی کے حاکم مسلط کرکے اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، لیکن یمنی مجاہدین کی قربانی، ایثار، استقامت اور پامردی نے آل سعود اور اس کے اتحادیوں کے خواب کو چکنا چور کر دیا ہے اور اس وقت یمنی عوام کے مخالف یہ ممالک اپنی منزل سے کوسوں دور ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں، جو ان کی پریشانی، پشیمانی اور ندامت کا باعث بن رہا ہے۔

یمن کی رضاکار تنظیم انصاراللہ کے سربراہ عبدالمالک حوثی نے 25 مارچ 2019ء اس جارحیت کے چار سال مکمل ہونے کی مناسبت سے اپنی گفتگو میں کہا تھا کہ اس جنگ کا سناریو تیار کرنے میں سعودی عرب، امریکہ، برطانیہ اور غاصب اسرائیل شریک ہیں، البتہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اس جنگ میں امریکہ اور اسرائیل کے آلہ کار ہیں۔ انصار اللہ تحریک کے سربراہ نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ سعودی اتحاد کو عالمی حمایت حاصل ہے، لیکن یمن کے مجاہدین کی استقامت جارحین کی شکست کا باعث بنی ہے۔ یمن کی رضاکار تنظیم انصار اللہ نے جنگ بندی اور امن کے قیام کی تمام کوششوں کا ساتھ دیا اور سویڈن میں ہونے والے صلح معاہدے کو کامیاب بنانے کے لیے تمام کوششیں بروئے کار لائے۔ انصار اللہ نے امن و صلح کی خاطر باقاعدہ خطرات کو مول لیتے ہوئے الحدیدہ شہر کو مقامی فورسز کے حوالے کر دیا، تاکہ اقوام متحدہ کی سرپرستی میں امن کا عمل آگے بڑھے۔

انصار اللہ اور سعودی عرب کے وفود نے امن پراسس کے لیے 18 دسمبر 2018ء کے دن الحدیدہ شہر میں مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا، لیکن سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے صلح کی اس کوشش کو پروان نہ چڑھنے دیا اور جنگ بندی ک اعلان ہونے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہیں کیا۔ سعودی عرب اور اس کے حامیوں نے الحدیدہ میں جنگ بندی پر عمل درآمد نہ کرکے ثابت کر دیا کہ وہ جنگ کے خاتمے پر یقین نہیں رکھتے اور ان کے اہداف اس سے ہٹ کر ہیں۔ یمن کی اعلیٰ سیاسی کونسل کے سربراہ مہدی المشاط نے جارحیت کے چار سال مکمل ہونے پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر سعودی اتحاد نے امن و صلح کے تمام راستے بند کرے کا ارادہ کیا تو انہیں سخت ترین صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انھوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ یمن نے ابھی سعودی اتحاد کے خلاف خطرناک آپشن کا انتخاب نہیں کہا، تاکہ امن و صلح کے امکانات باقی رہیں۔

یمن کی اعلیٰ سیاسی کونسل کے سربراہ کا کہنا ہے کہ سویڈن امن معاہدہ سعودی عرب کی بہانہ بازی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے مختلف مسائل و مشکلات کا شکار ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور سعودی عرب یمن کی جغرافیائی تقسیم کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ یہ اتحاد جنگ بندی پر یقین نہیں رکھتا اور جنگ کو جاری رکھ کر مذموم مقاصد کے حصول کا خواہاں ہے۔ یمن میں جاری سعودی جارحیت پر عالمی برادری کی خاموشی ایک سانحہ سے کم نہیں اور اس کا یمنی عوام کو بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ اب جبکہ یہ جنگ ساتویں سال میں داخل ہونے والی ہے، اعداد و شمار کے پتہ چلتا ہے کہ یمن جیسے غریب ملک میں انسانی المیہ رونما ہو رہا ہے۔ یمن کے وزیر تعلیم کے مطابق سعودی اتحاد کے حملوں کے نتیجے میں گذشتہ چند سالوں میں تین ہزار 526 تعلیمی اداروں کو سخت نقصان پہنچا ہے جبکہ 660 تعلیمی ادارے تو مکمل طور پر بند ہوگئے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ یمن میں ہسپتالوں، ڈسپنسریوں اور صحت عامہ کے اداروں کو بھی سخت نقصان پہنچا ہے۔

یمن میں اقوا متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2019ء ابتدائی دو ماہ میں ایک لاکھ سے زائد افراد میں وبا اور متعدی امراض کی علامات مشاہدہ کی گئیں ہیں جبکہ اس سے پہلے سینکڑوں افراد مختلف وبائی امراض کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یمن میں گذشتہ برسوں میں دوبار شدید وبائیں پھیل چکی ہیں۔ جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد اس وبائی بیماری کا شکار ہوئے اور ہزاروں لقمہ اجل بن گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یمن کے عوام بیرونی جارحیت کی وجہ سے سخت مشکلات کا شکار ہیں، لیکن یمنی عوام کی استقامت نے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں اور کامیانی و کامرانی یمنی عوام کے ہمراہ ہے۔ یمن کے خلاف اس غیر مساوی جنگ میں ابھی تک انصاراللہ کامیاب و کامران ہے۔ یمنی عوام نے سیاسی، فوجی دونوں میدانوں میں یہ باور کرایا ہے کہ وہ جنگ پسند نہیں، وہ جنگ کے خاتمے پر یقین رکھتے ہیں، لیکن دشمن کی سازشوں کو بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

انصاراللہ نے بھی جنگ بندی کے لیے ہر طرح کی کوششوں کا ساتھ دیا ہے، لیکن میدان جنگ میں بھی ثابت کیا ہے کہ یمن کے بحران کا حل فوجی راستے سے ممکن نہیں۔ یمن پر مسلط اس جنگ میں سعودی اتحاد نے اس غریب و فقیر ملک کے انفراسٹرکچر کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ مختلف وبائیں اپنے عروج پر ہیں، بچوں، خواتین اور بوڑھوں کا قتل عام روزمرہ کی بات بن چکا ہے۔ علاج کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں یمنی موت کے گھاٹ میں جا رہے ہیں۔ یمن کی قومی سالویشن پارٹی کے ترجمان حنیف اللہ الشامی کا کہنا ہے کہ یمن میں بدامنی اور عدم استحکام پیدا کرنا دشمن کی بنیادی اسٹریجی ہے، لیکن یمن کے عوام، فوج، رضاکار تنظیمیں، سکیورٹی کے ادارے اور حکومت سے مربوط مختلف ادارے اس سازش کے مقابلے مین ڈٹے ہوئے ہیں اور دشمن کی شرمناک سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ حنیف اللہ شامی کا مزید کہنا تھا کہ یمن کا ہر شہری ایک مضبوط فوجی ہے اور ملک کے اندر ایسا ماحول تیار ہوگیا ہے کہ خائن اور غدار طاقتیں اور افراد تنہا ہو کر رہ گئے ہیں اور ان کو عوام میں کوئی مقبولیت اور حیثیت حاصل نہیں ہے۔

سعودی اور اس کے اتحادی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس جنگ کو طول دینا چاہتے ہیں۔ عالمی طاقتیں یمن کی جغرافیائی پوزیشن سے مسقبل میں فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔ یمن کی سمندری حدود تیل کی سپلائی کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں، یمن کا باب المندب نامی آبناء دنیا میں تیل کی سپلائی اور تجارتی سامان کی نقل و حمل میں کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ یمن کی اس اسٹریٹجک پوزیشن کی وجہ سے سامراجی طاقتوں اور یمن مخالف ممالک کی پوری کوشش ہے کہ یمن میں بدامنی کا دور دورہ رہے، تاکہ باب المندب اور یمن کی سمندی پوزیشن سے مطلوبہ مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 914422
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش