0
Monday 15 Mar 2021 09:57

پاک ایران کوششیں اور افغانستان کا مستقبل

پاک ایران کوششیں اور افغانستان کا مستقبل
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

افغان امور میں پاکستانی وزیراعظم کے خصوصی نمائندے محمد صادق ایران کے دورے پر ہیں۔ تہران میں پاکستانی سفارت خانے نے بتایا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے افغان امور میں خصوصی نمائندے محمد صادق تہران پہنچے ہیں۔ جہاں وہ افغانستان کے موضوع پر ایران کے اعلیٰ حکام سے تبادلہ خیال کریں گے۔ ایران اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کی دو حوالوں سے خصوصی اہمیت ہے۔ ایران، پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہت سے مشترکات ہیں، تینوں ہمسایہ مسلمان ممالک ہیں اور خطے میں جیو پولیٹکل اہمیت کے حامل ہیں۔ لہذا ان تینوں ممالک کے درمیان علاقائی اور عالمی مسائل میں تبادلہ خیال بہت ضروری ہے۔ تینوں ممالک باہمی گفت و شنید سے بہت سے مسائل حل کرسکتے ہیں۔

دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے افغانستان میں القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروہ موجود ہیں، جو ان تینوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بالواسطہ یا بلاواسطہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ پاکستان، افغانستان اور ایران کے درمیان مذاکرات کی نوعیت ایسے عالم میں اور زیادہ اہمیت اختیار کر جاتی ہے، جب طالبان اور امریکہ نیز طالبان اور افغان حکومت کے درمیان دوحہ اور کابل میں مذاکرات ناکامی سے دوچار ہوچکے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکہ نے افغانستان کے لیے نیا منصوبہ تیار کیا ہے، جس کے تحت وہ افغان حکومت پر قومی اتحاد کی حکومت تشکیل دینے پر تاکید کر رہا ہے، جبکہ دوسری طرف روس بھی افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس ماہ کے آخر میں ایک کانفرنس کا انعقاد کر رہا ہے۔ ترکی کے وزیر خارجہ نے بھی مذاکرات کے دوسرے دور کے لیے ترکی کی میزبانی کی پیشکش کی ہے۔

افغانستان کے مستقبل سے متعلق مختلف اجلاسوں اور نشستوں کی خبروں سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ افغانستان کا مسئلہ حساس مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ اس صورتحال میں جہاں افغانستان میں مختلف گروہوں کے درمیان بین الافغان مذاکرات کی اشد ضرورت ہے، وہیں ہمسایہ ممالک کو بھی اس سلسلے میں تبادلہ خیال کرنا چاہیئے، تاکہ افغان امن پراسس کو تیزی سے اگے بڑھایا جا سکے۔ افغانستان میں ایران کے سابق سفیر ابوالفضل طہرہ ونار کا کہنا ہے کہ بون کانفرنس کے ذیل میں قبرس گروپ ممالک کے اجلاس میں اس بات کو واضح طور پر بیان کر دیا گیا تھا کہ تمام امور افغانیوں کی سربراہی میں انجام پانے چاہیئں اور دیگر ممالک صرف سہولت کاری کا کردار ادا کریں۔ افغانستان کی پارلیمنٹ کے رکن سید جمال مکوری بہشتی بھی قومی اجماع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس پراسس میں ایران کا کردار اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ایران نے ماضی میں بھی افغان عوام اور حکومت کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔

ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے افغانستان کی قومی مصالحت کونسل کے سرابراہ عبداللہ عبداللہ سے ملاقات میں اس بات پر تاکید کی ہے کہ ایران افغانیوں کی قیادت اور انتظام و انصرام میں امن پراسس کی مکمل حمایت کرتا ہے اور اس میں بین الافغان مذاکرات کو خوش آئند قرار دیتا ہے۔ ایران کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ علاقے کے مسائل خطے سے باہر کے ممالک کی مداخلت کے بغیر خطے کے ممالک کو باہمی گفت و شنید سے حل کرنے چاہیئں۔ پاکستان کے وزیراعظم کے خصوصی نمائندے کا حالیہ دورہ تہران اور ان کی ایرنا کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں بھی اسی تناظر میں انجام پا رہی ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ اس دورہ اور دیگر سفارتی کوششوں سے افغانستان میں امن پراسس کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔

امریکہ اپنے وسیع تر سامراجی اہداف کے حصول کے لیے علاقے میں ایک نیا کھیل کھیلنا چاہتا ہے، چند دن پہلے امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان کے درمیان جنوبی ایشیاء اور اس کے اردگرد علاقوں میں چین اور روس کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے جو اجلاس منعقد ہوا ہے، اس میں افغانستان کو بھی زیربحث لایا گیا  ہے۔ ہندوستان افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ چاہتا ہے اور اس نے گذشتہ دو عشروں میں افغانستان میں موثر سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ دوسری طرف پاکستان اس بات پر آڑا ہوا ہے کہ امریکہ ہندوستان کو افغانستان میں مضبوط نہ کرے۔ امریکہ کی طرف سے یہ پیشکش بھی آئی ہے کہ اگر پاکستان ہندوستان کو افغانستان میں اپنا کردار ادا کرنے دے تو امریکہ پاک ہند کشیدگی کو کم کرنے میں کردار ادا کرسکتا ہے۔ پاکستانی حکام اس پر کتنے راضی ہے اور کیا اس مسئلے پر پاکستان کے سیاسی و فوجی دھڑے ایک صفحے پر ہیں یا نہیں اس کو واضح ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔

البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ خطے میں امریکہ کی آئندہ پالیسیاں چین اور ایران کو سامنے رکھ کر تشکیل پا رہی ہیں۔ ہندوستان، جاپان اور آسٹریلیا نیز افغانستان کے اندر بھی امریکہ نواز دھڑے اس بات میں کوشاں ہیں کہ چین کی آئندہ کی اقتصادی ترقی کے راستے میں روڑے اٹکائے جائیں اور ساتھ ساتھ ایران کے لیے خطے میں ایسی مشکلات ایجاد کریں، جس سے ایران ہمسایہ ممالک کے ساتھ کشیدگی میں الجھا رہے۔ بعض انتہاء پسند گروہوں کو ایران پاکستان سرحدوں پر منظم کرکے اس سازش کو عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف افغانستان کے اندر داعش کو مضبوط کرنے کے پیچھے بھی یہی سازش کار فرما ہے۔ بہرحال افغان امور میں پاکستانی وزیراعظم کے خصوصی نمائندے کے دورہ ایران کو دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں کے تناظر میں کسی حد تک سمجھا جا سکتا ہے۔ افغانستان کے لئے پاکستان کے خصوصی نمائندے اور نائب ایرانی وزیر خارجہ نے افغانستان میں داعش کی موجودگی اور خطے میں امن و سلامتی کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

افغانستان کے لئے پاکستان کے خصوصی نمائندے صادق خان نے جو ایک وفد کے ہمراہ تہران کے دورے پر ہیں، نائب ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی کے ساتھ  ملاقات کے دوران افغانستان کی تازہ ترین صورتحال اور خاص طور پر اس ملک میں امن عمل کے بارے میں تبادلہ کیا۔ اس موقع پر صادق خان نے افغانستان میں دیرپا امن کے حصول میں دونوں ممالک کے موثر کردار کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ باہمی تعاون پر زور دیا۔ سید عباس عراقچی نے قیام امن کے مواقع سے فائدہ اٹھائے جانے کی بابت امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا افغانستان کے عوام کے بنیادی حقوق کے احترام اور گذشتہ دو عشروں کے حاصلہ نتایج کو محفوظ رکھے جانے کی اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے حمایت کی جاتی رہے گی۔ سید عباس عراقچی نے افغانستان کے تعلق سے قریبی تعاون کے حوالے پاکستان کے خصوصی نمائندے صادق خان کے موقف کا خیرمقدم کیا اور اس حوالے سے انہيں اسلامی جمہوریہ ایران کی مکمل آمادگی اور تعاون کا یقین دلایا۔ فریقین نے افغانستان میں داعش جیسے سفاک دہشت گرد گروہ کی موجودگی اور علاقے کی سلامتی و استحکام کے لئے اس کے خطرات پر اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے افغانستان میں قیام امن کے بارے میں باہمی صلاح و مشورہ جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
خبر کا کوڈ : 921583
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش