1
Sunday 25 Apr 2021 06:36

پولیس رشوت لینے میں مصروف، کیا کراچی میں طالبان آگئے ہیں؟

پولیس رشوت لینے میں مصروف، کیا کراچی میں طالبان آگئے ہیں؟
رپورٹ: ایم رضا

انیس اپریل کو سندھ کاونٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈی آئی جی عمر شاہد حامد، جو کہ ایک اعلیٰ پولیس افسر ہونے کے ساتھ ساتھ ناول نگار بھی ہیں، ایک پریس کانفرنس کرتے ہیں۔ تفصیلات بتاتے ہوئے عمر شاہد حامد نے بتایا کہ سی ٹی ڈی اور پاکستان رینجرز نے جامشورو، جو کہ کراچی سے زیادہ دور نہیں، مشترکہ کارروائی کرکے پانچ دہشت گردوں کو، جن میں دو خودکش بمبار بھی شامل تھے، کو گرفتار کر لیا ہے، دہشت گردوں کا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے ہے۔ دوران تفتیش گرفتار دہشت گردوں نے پاکستان میں ماضی میں ہونے والی دہشت گردی کے چھ واقعات کی ذمہ داری قبول کی اور بتایا کہ وہ مستقبل میں بلدیہ ٹاؤن میں واقع سعید آباد پولیس ٹریننگ پر حملہ کرنا چاہتے تھے اور ان کا ٹارگٹ اس ٹریننگ سینٹر میں زیر تربیت سینکڑوں پولیس اہلکار تھے۔

اسی دن ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر جو کہ ایک اعلیٰ پولیس افسر ہیں، ایک اعلامیہ جاری کرتے ہیں، جس کے مطابق ملیر پولیس نے تحریک طالبان پاکستان کا ایک کارندہ دھر لیا ہے۔ مختلف مقامات سے تحریک طالبان پاکستان کے کارندوں کی گرفتاری کے بعد کرائم رپورٹرز کو احساس ہونے لگا ہے کہ شاید ان کی بیٹ دوبارہ گرم ہونے والی ہے۔ کراچی میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب دہشت گردوں کی گرفتاریوں کا اعلان اتنی کثرت سے ہوتا تھا کہ نیوز رومز کے پاس ہر پریس کانفرنس کو کور کرنے کیلئے مطلوبہ کرائم رپورٹرز نہیں ہوتے تھے، اخباری نمائندوں نے دلچسپ خبروں کو یک کالمی خبروں تک محدود کر دیا تھا۔ ٹی وی کرائم رپورٹرز تواتر کے ساتھ ٹیکسٹ میسجز یا واٹس ایپ گروپس پر ٹکرز فائل کریں گے، لیکن وہ آپ کی اسکرین سے نیچے جاتے ہوئے غائب ہو جائیں گے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف نے شہر کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کیلئے رینجرز کو ذمہ داری سونپی۔ پولیس، حساس اداروں اور رینجرز نے اس پر کام شروع کر دیا۔ اس وقت مختلف علاقوں سے آنیوالے طالبان کے پاس (تخلیقی طور پر) دھڑے تھے، لہٰذا کراچی میں تحریک طالبان سوات، تحریک طالبان مہمند اور تحریک طالبان باجوڑ موجود تھے، ان کے افراد یا تو گرفتار ہوئے یا مارے گئے یا فرار ہوگئے۔ بالآخر آپریشن کے عروج کے بعد پریس کانفرنسوں کی تعداد کم ہوگئی۔ اگرچہ پیر کے روز یہ بات واضح ہوگئی کہ کراچی اور اس کے آس پاس دو مختلف گروہوں کی تشکیل نو ہوئی ہے۔ جامشورو کے چھاپے میں ٹی ٹی پی سوات اور ملیر میں ٹی ٹی پی باجوڑ کا کارکن پکڑا گیا۔ اگر کرائم رپورٹرز اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے ذرا کھوج لگائیں تو پتہ چلے گا کہ یہ عسکریت پسند واپس کیسے آئے تھے۔؟

کیماڑی کو نیا ضلع بنانے سے قبل ضلع غربی کالے دھن کیلئے زیادہ زرخیز تھا، کیونکہ یہ متعدد مقامات پر بلوچستان کے ساتھ لگتا ہے، یہاں 90 ایسے راستے ہیں، جن کے ذریعے اسمگل شدہ سامان شہر میں داخل ہوتا ہے، چاہے وہ منشیات، چھالیہ ہو یا پیٹرولیم۔ 2018ء میں ایس ایس پی ضلع غربی محمد رضوان احمد خان نے اسمگلنگ سے متعلق ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس کیلئے ایک رپورٹ تیار کی۔ اسمگلنگ کے اس پس منظر سے قطع نظر ڈی آئی جی عمر شاہد کا خیال ہے کہ ناصرف عسکریت پسند واپس آئے ہیں، بلکہ ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں نے اپنی دہشت گردی کی سرگرمیوں کو مالی اعانت فراہم کرنے کیلئے اسمگلنگ کے ذریعے بھی آمدن حاصل کی۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ پولیس کی ناقص کارکردگی شدت پسندوں کی واپسی کی وجہ بنی، کراچی کے ضلع غربی کو اب ایک مضبوط گڑھ سمجھا جا رہا ہے، کراچی آپریشن کے آغاز پر جس نے بھی ایس ایس پی ضلع غربی کا چارج سنبھالا اس نے عسکریت پسندوں کیلئے صفر برداشت کا مظاہرہ کیا، لیکن پچھلے ڈیڑھ سالوں میں معاملات بدل چکے ہیں۔ عمر شاہد اس علاقے سے اچھی طرح واقف ہیں، کیونکہ وہ خود ضلع غربی میں ایس ایس پی کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ میرا کہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ایس ایس پی ضلع غربی نے شدت پسندوں کو دوبارہ منظم ہونے کی اجازت دی بلکہ میں کہوں گا کہ اس وقت شدت پسندی اور شدت پسند کا مقابلہ کرنا ترجیح نہیں تھی۔

ضلع غربی کے ایک سابق ایس ایس پی نے بتایا کہ ایس ایس پی ویسٹ کے اعلیٰ عہدے کی یومیہ قیمت 50 لاکھ روپے ہے۔ میرے وقت میں اگر میں اسمگلروں، زمینوں پر قبضہ کرنے والوں اور واٹر آپریٹرز کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دیتا تو میرے پاس 50 لاکھ روپے کی پیشکش تھی۔ اگر وہ انہیں صرف رات میں سرگرمیوں کی اجازت دیدیتے تو 22 سے 30 لاکھ روپے تک کما سکتے تھے، تاہم انہوں نے کہا میں اس کے نتائج جانتا تھا۔ گرفتاریوں کے باوجود ڈی آئی جی عمر شاہد سمجھتے ہیں کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ٹی ٹی پی کی کراچی میں منظم موجودگی ہے، ایک وقت تھا جب کالعدم گروہ نے شہر کے بہت سارے علاقوں کیلئے ایک “امیر” کا نام دیا تھا لیکن فی الحال ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ البتہ ٹی ٹی پی دوبارہ آنے کی کوشش کر رہی ہے، میٹروول سائٹس میں ٹی ٹی ایس عناصر کے موجودگی کی اطلاعات مل چکی ہیں، اسی طرح تحریک طالبان محسود گروپ کے جنگجوؤں کی سلطان آباد اور کنواری کالونی میں موجودگی کی بھی اطلاعات ہیں۔

عمر شاہد حامد نے بتایا کہ گذشتہ سال 18 ستمبر کو دو مسلح افراد نے مہران ٹاؤن کے قریب ون فائیو مددگار پر تعینات ایک پولیس اہلکار کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا اور اس کے کافی شواہد ملے تھے کہ اس کی ذمہ دار ٹی ٹی پی ہے۔ حال ہی میں 15 مارچ کو اورنگی ٹاؤن نمبر 5 میں رینجرز کی گاڑی پر حملہ کیا گیا، جس میں ایک اہلکار شہید اور 14 افراد زخمی ہوئے، جن میں 4 رینجرز اہلکار بھی شامل تھے، دھماکے میں بارود سے بھری موٹر سائیکل استعمال کی گئی تھی۔ اس حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔ ڈی آئی جی عمر شاہد حامد کا کہنا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ یہ علاقہ ٹی ٹی پی سواتی گروپ کا مضبوط گڑھ ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ حملے کا طریقہ کار اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ علیحدگی پسندوں کا نہیں جہادی گروپوں کا کارنامہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 928917
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش