1
Sunday 26 Dec 2021 21:30

پوپ فرانسس کا اعتراف

پوپ فرانسس کا اعتراف
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

دنیا کے کیتھولک رہنماء پوپ فرانسس نے ہفتے کے روز کرسمس کے پیغام میں دنیا بھر میں انسانی تباہی کے پیش نظر بین الاقوامی سفارتکاری پر تاکید کرتے ہوئے  عالمی بے حسی اور خاموشی سے گریز کرنے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ پوپ نے یمن، مقبوضہ فلسطین، افغانستان، شام، یوکرین، سوڈان اور دنیا کے دیگر حصوں میں جاری تنازعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’ہم اسوقت اتنے تنازعات، بحرانوں اور مسائل کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ ان تنازعات کا کوئی خاتمہ نہیں ہے۔ ہمیں خطرہ ہے کہ ہم اپنے بہت سے بھائیوں اور بہنوں کے دکھ کی فریاد نہیں سن سکیں گے۔"

دنیا کے مختلف حصوں بالخصوص یمن اور فلسطین میں انسانی تباہی کے پیش نظر بے حسی اور خاموشی کے بارے میں پوپ کا انتباہ درحقیقت مغرب بالخصوص امریکہ کی طرف اشارہ ہے، جو اس کے وقوع پذیر ہونے اور اس کے تسلسل کا ذمہ دار ہے۔ ان بحرانوں میں سے ایک یمن ہے۔ یہ غریب عرب ملک اب بہت بری حالت میں ہے۔ مارچ 2015ء میں سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر اور اوباما انتظامیہ کی مدد اور ایما سے یمن کے مظلوم عوام کے خلاف ایک ننگی جارحیت کا آغاز کیا۔ اس کارروائی کی بنیادی وجہ یمن پر سعودیوں اور اماراتی اثر و رسوخ اور تسلط کو بڑھانا تھا۔ اقوام متحدہ کے اداروں نے بارہا خبردار کیا ہے کہ یمن کے عوام کو قحط اور ایک بے مثال انسانی تباہی کا سامنا ہے، کیونکہ سعودی اتحاد یمن پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن کسی کی کوئی شنوآئی نہیں۔
 
سنگین انسانی صورتحال اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ امریکی ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی نے ٹویٹ کیا ہے کہ "یمن کی جنگ دنیا کی بدترین انسانی تباہی ہے۔" سعودی اتحاد کے حملوں کی وجہ سے یمن کو زمینی، فضائی اور سمندری طور پر انسانی تباہی کا سامنا ہے۔ اس تباہی کے نتیجے میں مختلف متعدی امراض کا پھیلنا، غذائی قلت اور خوراک کی شدید قلت کے باعث بڑی تعداد میں یمنیوں کا ہلاک ہونا ایک زندہ حقیقت ہے۔ یمنی عوام پر سعودی اتحاد کے غیر انسانی دباؤ کی ایک خاص بات اس ملک کی بحری ناکہ بندی ہے، جو کئی سالوں سے جاری ہے۔ عالمی بینک نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں خبردار کیا تھا کہ یمن کے 30 ملین افراد میں سے تقریباً 70 فیصد کو غذائی تحفظ کے حوالے سے غذائی قلت کا خطرہ ہے۔

سعودی عرب 26 مارچ 2015ء سے یمن پر حملے کر رہا ہے۔ بھاری انسانی جانی نقصان کے علاوہ، ان حملوں نے مغربی ایشیاء کے غریب ترین عرب ملک یمن کا 85 فیصد انفراسٹرکچر تباہ کر دیا ہے۔ اس جرم کا دائرہ وسیع ہے اور یمن کے غریب عوام کے ذاتی سرمائے سے لے کر اس ملک کے سرکاری اور نجی مقامات تک سعودی جنگجوؤں کے حملوں سے تباہ ہوچکے ہیں۔ صنعا میں عین الانسانیہ لاء اینڈ ڈیولپمنٹ سینٹر کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ جون تک 15 ہوائی اڈوں، 16 بندرگاہوں، 308 پاور پلانٹس، 553 ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورکس، 2397 گوداموں اور پانی کے نیٹ ورکس، 1983 سرکاری مراکز اور 5224 نجی تجارتی عمارتوں پر حملے ہوئے۔ سعودی اتحاد نے محتلف پل یا تو مکمل طور پر تباہ کر دیئے ہیں یا انہیں نقصان پہنچایا۔ ان حملوں میں 23,665 اقتصادی تنصیبات اور 396 فیکٹریاں، 352 ٹینکر، 11,479 تجارتی مراکز اور 423 پولٹری فارم تباہ ہوئے۔

اعداد و شمار کے مطابق اتحادی افواج کے حملوں میں 7,945 گاڑیاں، 472 کشتیاں، 931 فوڈ ڈپو، 397 گیس اسٹیشن، 685 مارکیٹیں اور 858 فوڈ ٹرک تباہ ہوئے۔ اس کے علاوہ ان حملوں کے نتیجے میں 575,353 مکانات، 179 یونیورسٹی مراکز، 1466 مساجد، 369 سیاحتی مراکز اور 391 اسپتال اور صحت کے مراکز، 1110 اسکول اور تربیتی مراکز، 135 کھیلوں کے میدان، 248 تاریخی مراکز اور 49 میڈیا اداروں کو نقصان پہنچا ہے۔ اس تباہ کن صورتحال کے باوجود امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ جو شروع سے ہی انسانی حقوق کے دعوے کرتی رہی، لیکن یمن کا محاصرہ ختم کرانے کے لیے سعودیوں اور اماراتی حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا بلکہ ان دونوں ممالک کو ہتھیاروں کی فروخت دوبارہ شروع کر دی ہے۔

مقبوضہ فلسطین کے حوالے سے صیہونی حکومت نے فلسطینیوں پر جبر اور قتل عام جاری رکھنے، مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں ان کی زمینوں پر قبضے، فلسطینیوں کی بے دخلی، ان کے قائدین کے قتل کو ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے اور ان مظلوم لوگوں کا قاتل امریکہ کا اتحادی ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کے اسٹریٹجک اتحادی کی حیثیت سے ہمیشہ فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم اور غیر قانونی اقدامات کی حمایت کی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سمیت عالمی برادری میں اس کے خلاف قراردادوں کے اجراء کو روکنے کے لیے اپنے ویٹو پاور کا استعمال کیا ہے۔

اب دنیا کے عیسائی کیتھولک رہنماء نے ایک بار پھر دنیا کی توجہ ان افسوس ناک حقائق کی طرف مبذول کرائی ہے اور دنیا کی انسانی تباہی بالخصوص یمن اور مقبوضہ فلسطین میں ہونے والی تباہی کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم یہ غیر انسانی صورت حال اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک امریکہ مغربی ایشیاء میں اپنے علاقائی اتحادیوں کی حمایت جاری رکھے گا۔ پاپ فرانسس کی تشویش اور افسوس اپنی جگہ پر قابل تحسین ہے، لیکن یہ بات پیش نظر رہے کہ ان تمام بحرانوں کا خالق امریکہ ہے اور امریکہ میں اکثریت عیسائیوں کی ہے۔ پاپ کو اپنی عیسائی برادری پر دباؤ ڈالنا چاہیئے اور اپنی مذہبی حیثیت کو بروئے کار لانا چاہیئے، تاکہ عیسائی عوام ایسے سیاسی رہنماؤں اور حکومتی عہدیداروں کا محاسبہ کریں، جو حضرت عیسی (ع) کی تعلیمات کو سبوتاژ کرتے ہوئے عیسائیت کو بدنام کر رہے ہیں۔ اسلامو فوبیا کے نام پر اسلام کو بدنام کیا جا رہا ہے، لیکن دنیا بھر میں تمام بحرانوں کا باعث مسلمان نہیں بلکہ کوئی اور ہیں۔
خبر کا کوڈ : 970432
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش