0
Sunday 2 Jan 2022 13:09

پاکستان یا ناصبستان؟؟

پاکستان یا ناصبستان؟؟
تحریر: ابو فجر لاہوری

پاکستان میں ایک منظم سازش کے تحت این جی اوز اور ایک شدت پسند کالعدم مذہبی جماعت کی باہمی ہم آہنگی کے ذریعے حالات کو انتہائی کشیدگی کی جانب لے جایا جا رہا ہے۔ ملک کے اداروں اور حکومتی حلقوں میں جہاں پہلے ہی وہابیت کا غلبہ ہے، وہیں اب اس غلبے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اور ارکان پارلیمنٹ کو مس گائیڈ کرکے ملک میں ناصبیت کو نافذ کرنے کا منصوبہ شروع کیا گیا ہے، جس پر تیزی کیساتھ عمل درآمد جاری ہے۔ نئے عربی ٹیچرز اور قرآن ٹیوٹرز کی بھرتی سے لے کر یکساں قومی نصاب کے نام پر یلغار جاری ہے، جبکہ ملک میں ایک کالعدم جماعت اپنے نظریات مسلط کرنے میں مصروف ہے اور اس جماعت کو ملک کے اندر اسٹیبلشمنٹ اور ملک سے باہر استعماری قوتوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔

ملک میں اہل تشیع اور اہلسنت کیخلاف ایک محاذ کھولا جا رہا ہے۔ اس سازش کے تحت اہل تشیع کو دہشتگرد اور ایران کے ایجنٹ جبکہ اہل سنت کو شدت پسند ظاہر کرنے کا منصوبہ جاری ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کو ان کیمرہ بریفنگ میں بتایا جاتا ہے کہ ایران پاکستان میں پراکسی کھیل رہا ہے اور اس مقصد کیلئے شیعہ شدت پسندوں کو استعمال کر رہا ہے، جس کیلئے شیعوں کیخلاف کارروائیاں دفاع وطن ہیں، جبکہ ان کارروائیوں میں بے گناہ افراد کو بلا جواز دھر لیا جاتا ہے، مقدمات بنائے جاتے ہیں اور ہراساں کیا جاتا ہے، جبکہ اہلسنت بریلویوں کو درود کی بجائے بارود والے بنانے کیلئے ایک جماعت کو منظم انداز میں آگے لایا جا رہا ہے، اسی جماعت نے کچھ عرصہ قبل مارچ کیا، جس میں املاک کو نقصان پہنچایا گیا، پولیس اہلکاروں کی شہادتیں ہوئی، توڑ پھوڑ اور جلاو گھیراو کے بعد مذکورہ جماعت کے نوزائیدہ قائد کو جیل سے رہا کر دیا گیا اور اب وہ فعال انداز میں سرگرم ہے۔

وہ بریلوی جو صوفیاء کی فکر کے امین ہیں، انہیں بھی سپاہ صحابہ جیسی جماعت کی ڈگر پر چلا کر شدت پسند ثابت کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ لگ ایسے رہا ہے کہ جیسے ریاست کا بیانیہ ہی "وہابی ازم" ہوچکا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور ریاستی ادارے پالیسی بناتے ہیں۔ بند کمروں میں شیعہ مخالف بریفنگ دے کر کٹھ پتلی اور بدعنوان سیاستدانوں کو مطمئن کر دیا جاتا ہے۔ اب ریاست کا غیر اعلانیہ مذہب وہابیت ہوچکا ہے۔ ریاست مدینہ کی آڑ میں پاکستان کو ریاستِ ناصبیستان بنایا جا رہا ہے۔ گذشتہ روز سیالکوٹ میں ایک شیعہ نوجوان کیخلاف سی ٹی ڈی میں مقدمہ درج کیا گیا۔ سیالکوٹ کے شہری سید فاخر حسین سے تین کتابیں ’’چودہ ستارے‘‘ ’’ایک سو پچاس جعلی اصحاب‘‘ اور ’’تحقیق قضیہ فدک‘‘ برآمد ہوئیں۔ ساتھ ہی سٹیکر برآمد ہوئے، جس پر تحریک جعفریہ پاکستان لکھا تھا۔ اس شیعہ شہری کیخلاف مقدمہ سی ٹی ڈی کے اہلکار اعظم محمود کی مدعیت میں درج کر لیا گیا۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق نوجوان سے دس سٹیکر برآمد ہوئے، ملزم کے حوالے سے ایف آئی آر میں مدعی اہلکار نے موقف اختیار کیا کہ ’’چونکہ ملزم کا تعلق خطرناک کالعدم تحریک جعفریہ پاکستان سے ہے‘‘، حیرت اس بات پر ہے، کہ سپریم کورٹ میں ریاست نے تسلیم کیا تھا کہ تحریک جعفریہ شدت پسند ہے نہ انتہاء پسند، بلکہ اسے بیلنس پالیسی کے تحت کالعدم قرار دیا گیا ہے، سپریم کورٹ تحریک جعفریہ سے پابندی ختم کرنے کا حکم دے چکی ہے، مگر حکومت نوٹیفکیشن جاری کرنے میں مسلسل لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔ یہ تحریک جعفریہ کی قیادت کی شرافت ہے یا سرد مہری کہ وہ عدالتی حکم کے باوجود تاحال پابندی ہٹوانے کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کروا سکی۔ تحریک جعفریہ کے دامن پر قتل و غارت، بم دھماکوں اور خودکش حملوں کا کوئی داغ نہیں، اس کے باوجود سی ٹی ڈی کا یہ اہلکار تحریک جعفریہ کو ’’خطرناک‘‘ قرار دے رہا ہے۔ مذکورہ نوجوان سے جو کتابیں برآمد ہوئی ہیں، وہ مسلمہ عقائد کی کتابیں ہیں، جن میں شیعہ سنی دونوں راویوں کی روایات شامل ہیں اور سارا مواد تاریخی حقائق پر مبنی ہے۔

اس کے باوجود نوجوان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ شیعہ ہے، جبکہ اس کے برعکس ناصبی تنظیم کے اہلکار ریاست کی ناک کے بالکل نیچے اسلام آباد میں فلک شگاف کافر کافر کے نعرے لگا کر توہین مذہب کے مرتکب ہو رہے ہیں، مگر انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہوئی، ان کیخلاف جرم سرزد ہونے کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لیا گیا، جبکہ سیالکوٹ کے شیعہ جوان کیخلاف بغیر کسی شکایت کے کارروائی عمل میں لائی گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ دوہرا معیار نہیں؟؟ ریاست کا ایک مسلک کیساتھ امتیازی سلوک نہیں؟ افسوسناک امر یہ ہے کہ شیعہ قوم کیساتھ یہ سلوک اس کے اپنے اختلافات کے باعث ہے، یہاں ہر بندہ ’’قائد ملت‘‘ ہے، ہر جماعت خود کو تشیع کی نمائندہ جماعت کہلاتی ہے، لیکن جب بات تشیع کی آتی ہے تو کوئی آگے نہیں بڑھتا، کہ یہ معاملہ تو دوسرے گروپ کا ہے، وہی دیکھیں، یوں دو جماعتوں کے دو ملاوں میں قومی مسائل کی مرغی حرام ہو جاتی ہے۔

ملت کے کئی نوجوان اسی وجہ سے عتاب کا شکار ہیں۔ جھنگ کا ایک چھوٹا سا ٹاون ہے، گڑھ مہاراجہ، اس کی آبادی چند ہزار ہے۔ جس سے فریقین کے 35 افراد کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالے گئے ہیں۔ کیا یہ مزدور، محنت کش، دکاندار اور کسان دہشتگرد ہیں؟؟ اسی طرح پورے پنجاب میں اگر جائزہ لیا جائے تو ایسے افراد جو قومیات میں فعال ہیں، مجلس کے بانی یا جلوس کے لائسندار ہیں، ان کے پاوں میں فورتھ شیڈول کی بیڑی ڈال دی گئی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ قائدین ملت جعفریہ بھی خاموش ہیں۔ گڑھ مہاراجہ کے معاملے پر شیعہ علماء کونسل کے مرکزی نائب صدر علامہ سبطین سبزواری نے آواز اٹھائی تھی، مگر بے سود رہی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گڑھ مہاراجہ ہو یا پنجاب کا کوئی اور شہر، جہاں بھی بے گناہ افراد کے نام فورتھ شیڈول میں ہیں، وہاں علماء و قائدین کا وفد بنا کر ڈی پی اوز سے ملاقاتیں کی جائیں اور ان محنت کشوں اور مزدوروں کے نام فورتھ شیڈول سے نکلوائے جائیں۔

دوسری جانب ریاست نے اگر کامیابی کی جانب سفر کرنا ہے، تو ناصبیت کی بجائے پاکستانیت کو فروغ دے۔ سب مکاتب فکر اور مذہب کے ماننے والے مل کر وطن کیلئے جدوجہد کریں، مگر لگتا ہے کہ ملک کی مقتدر قوتیں خود نہیں چاہتیں کہ پاکستان آگے بڑھے، ملک پھلے پھولے، ہر روز ایک نئی مصیبت منہ کھولے سامنے کھڑی ہوتی ہے۔ ایک نیا بحران سر اُٹھائے ملکی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہوتا ہے۔ پاکستان کو پاکستان رہنے دیں گے، تو یہ ملک ترقی بھی کرے گا اور عوام بھی خوشحال ہوں گے، اگر اسے ناصبستان بنا دیا گیا تو حکومت یاد رکھے کہ ناصبی تو چند گنے چنے ہیں، پاکستان میں اکثریت اہلسنت اور اہل تشیع کی ہے۔ جنہیں بائی پاس کرکے ملک میں کوئی بھی نیا عقیدہ مسلط کرنے کی کوشش امن کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ اس لئے ملک کے مقتدر حلقوں کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے شیعہ سنی علماء کو بھی بیدار مغری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی۔ ایسا نہ ہو کہ انتہاء پسندی کی چڑیاں کھیت چُگ جائیں اور آپ کے ہاتھ میں سوائے پچھتاوے کے کچھ نہ بچے۔
خبر کا کوڈ : 971606
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش