0
Tuesday 11 Oct 2011 10:01

امریکی سفیر کی بلوچستان یاترا کے بعد قتل و غارت کیوں شروع ہوئی؟

امریکی سفیر کی بلوچستان یاترا کے بعد قتل و غارت کیوں شروع ہوئی؟
تحریر:تصور حسین شہزاد 
پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون منٹر کی سفارتی آداب اور قوانین کے منافی بلوچستان یاترا اور سیاست دانوں، بلوچ قوم پرست رہنماوں اور بعض قبائلی رہنماوں سے ملاقاتیں ثابت کرتی ہیں کہ وہ پاکستان میں ’’خصوصی مشن‘‘ پر ہیں،کیونکہ ان کے دورہ بلوچستان کے کچھ ہی عرصہ بعد بلوچستان میں قتل وغارت کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ایک خاص مکتب فکر کے افراد کو نشانہ بنا کر بلوچستان سمیت ملک بھر میں حالات خراب کرنے کی سازش کی گئی۔ پاکستان میں مخصوص فرقہ کو نشانہ بنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ملک میں خانہ جنگی کا سلسلہ شروع کروایا جائے۔ امریکا ایک عرصے سے بلوچستان میں قونصل خانہ قائم کرنے کا خواہش مند ہے۔ امریکا نے اس قونصل خانے کے لیے عملے اور دیگر انسٹالیشن کے لیے جو اعداد و شمار حکومت پاکستان کو پیش کیے تھے ان کو مدنظر رکھا جائے تو یہ قونصل خانہ شاید اسلام آباد میں قائم امریکی سفارتخانے سے بھی بڑا ہو گا۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ بلوچستان میں اتنے بڑے قونصل خانے کی کیا ضرورت ہے۔؟ تاہم پاکستان نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکا کو کوئٹہ میں قونصل خانہ کھولنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے خدشہ ظاہر کر دیا تھا کہ کوئٹہ میں امریکی سفارتخانے کے قیام سے جہاں پاک ایران تعلقات خراب ہوں گے وہاں گوادر پورٹ پر بھی دہشتگردی کی وارداتیں بڑھ جائیں گی اور پاکستان کی معیشت براہ راست متاثر ہو گی۔ قونصل خانے کے قیام کے لئے اگرچہ گزشتہ برس امریکا کو اجازت دے دی گئی تھی، تاہم تبدیل ہوتے ہوئے حالات میں محسوس کیا گیا ہے کہ اس سے پاکستان اور امریکا دونوں کے لیے کئی مسائل پیدا ہوں گے۔ امریکا کا ایک ہدف تو ایران دوست قوتوں کو کمزور کرنا اور دوسرا ہدف ان قوتوں کو اپنے لیے کار آمد بنانا بھی ہو سکتا ہے۔ اگر بلوچستان کو سامنے رکھیں تو ایسا ہی لگتا ہے، ایک طرف تو امریکا اپنی آلہ کار تنظیموں کے ذریعے اس طبقے کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا کر خوفزدہ کریگا تو دوسری طرف ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال بھی کر سکتا ہے۔
امریکا کا چوتھا بڑا ہدف کوئٹہ شوریٰ کے خلاف کارروائی کا ڈرامہ ہے، امریکا نے کچھ عرصہ قبل بھی پاکستانی حکومت سے کوئٹہ اور بلوچستان افغانستان کی سرحدی پٹی میں طالبان کے خفیہ ٹھکانوں پر ڈورن حملوں کی اجازت کا مطالبہ کیا تھا، جسے پاکستان نے رد کر دیا تھا۔ امریکا کے بقول وہ بلوچستان میں وزیرستان طرز کا انٹیلی جنس نظام قائم کرنا چاہتا ہے، جس سے استفادہ کرتے ہوئے وہ مستقبل میں طالبان کے خلاف کوئی بڑا آپریشن لانچ کر سکتا ہے۔ اگر امریکا ایک بار اپنا جاسوسی سسٹم قائم کر لیتا ہے تو یہ ضروری نہیں اس سے صرف طالبان کیخلاف کام لے، ممکن ہے اس منصوبے کے مقاصد طویل المیعاد ہوں، جس سے خود پاکستان کے علاقے میں مفادات کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ دوسرا کسی ملک میں علی الاعلان اپنا جاسوسی نیٹ ورک قائم کرنا جہاں سفارتی آداب کے خلاف ہے، وہاں اس ملک کی خودمختاری و سلامتی کے بھی انتہائی منافی ہے۔ کوئی بھی آزاد و خودمختار قیادت و قوم کسی ملک کو اپنی دھرتی پر اس قسم کی منفی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دے سکتی۔
گزشتہ دس برسوں کے دوران مقتدر قوتوں نے صرف امریکی مفادات کی خاطر قوم کو ناکردہ جرم کی سزا دی۔ فاٹا اور وزیرستان سے لوگوں کو بلوچستان میں منتقل کر کے انہیں تربیت دی جا رہی ہے تاکہ بلوچستان کا بھی حشر فاٹا اور وزیرستان جیسا کیا جائے۔ یونس موریطانی کی گرفتاری بھی چھ ماہ قبل کی گئی تھی بعد میں اسے یہاں پر لایا گیا، تاکہ بلوچستان میں آپریشن کی راہ ہموار کی جا سکے۔ امریکی قونصل جنرل بھی مختلف اوقات میں کوئٹہ میں آ کر تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں سے قونصل خانے کے قیام کے حوالے سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ 
گیارہ سال قبل بلوچستان میں طالبان کا نام نہیں تھا، بعد میں القاعدہ کے رہنماؤں کی کوئٹہ سمیت بلوچستان میں موجودگی کا شوشہ چھوڑا گیا۔ جو حالات اور واقعات چل رہے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان میں بہت خون خرابہ ہو گا جس میں دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی کے نام پر پبلک مقامات، مساجد، عیدگاہوں، سرکاری عمارتوں اور سکولوں کو بھی نہیں چھوڑا جائیگا۔ امریکا کی بڑھتی ہوئی مداخلت بلوچستان کی بساط پر مستقبل قریب میں کھیلی جانے والی گریٹ گیم کا حصہ ہے، کیونکہ گوادر کی بندرگاہ ایک تجارتی و معاشی اثاثے اور اہمیت کی حامل بھی ہے۔ گوادر کی تعمیر و ترقی اور انتظامات میں چین کی شمولیت نے امریکہ کا چین چھین لیا ہے۔ اگر پاکستانی حکومت گوادر کو چینی انتظام میں دے دیتی ہے تو معاشی فوائد کے حصول کے علاوہ علاقے میں چین کی اسٹرٹیجک بالادستی ایک لازمی امر ہے۔ 
چین، ایران، روس، پاکستان اور سنٹرل ایشیا کے بعض ممالک پر مشتمل بلاک ایک مضبوط تجارتی روابط کے علاوہ ایک دفاعی بلاک کی تشکیل میں تبدیل ہونے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر ایسا ممکن ہو جائے تو امریکا کا اس خطے میں بالادستی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا جبکہ معاشی فوائد سے ہاتھ دھونے سے اس کی روز بروز گرتی ہوئی معیشت کو بھی ایک مزید دھچکا لگ سکتا ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر امریکا گوادر پر چین کے اثر و رسوخ میں کمی اور اپنی استعداد میں اضافہ چاہتا ہے، تاکہ جہاں وہ اپنی دم توڑتی معیشت کیلئے زیادہ استفادہ کرے، وہاں دفاعی و اسٹریٹجک بالادستی کی مہار بھی اپنے ہاتھ سے نہ جانے دے۔
 اس کے علاوہ آئندہ کی جو صورتحال ہے اس میں ا مریکہ کھل کر سامنے آچکا ہے، وہ کسی کا دوست نہیں۔ پاکستان اگر اس کے ساتھ تعاون نہیں کرتا تو اگلا ہدف بن سکتا ہے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان امریکہ پر اکتفا کرنے کی بجائے اپنے ہی علاقے میں ایک بلاک تشکیل دے، پاکستان کو ترقی کرنے کیلئے چین، ایران اور ترکی سمیت دیگر ہمسایہ ممالک کا تعاون ہی کافی ہے، ان ممالک سے تعلقات بہتر بنا کر ہم کامیاب ہو سکتے ہیں کیوں کہ دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ نے پاکستانی معیشت کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے، اگر ہم ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر نہ ہوتے تو آج پاکستان ایشیئن ٹائیگر بن چکا ہوتا۔
خبر کا کوڈ : 105286
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش