0
Saturday 19 Nov 2011 13:32

نہ جانے کس لئے امیدوار بیٹھا ہوں

نہ جانے کس لئے امیدوار بیٹھا ہوں
تحریر:ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم
   
بہت سے مہربان اور خیر خواہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ستمبر 2006ء  میں سٹیل ملز سے فارغ ہونے کے بعد اب آپ اپنے آپکو کیسے مصروف رکھتے ہیں چونکہ اُن کے خیال میں افواجِ پاکستان، پرائم منسٹر ہاؤس، واہ فیکٹری، سٹیل ملز، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور ملٹری آپریشن دائریکٹریٹ و غیرہ جیسی مصروف ترین جگہوں پر چالیس سال کام کرنے کے بعد بالکل غیر فعال ہو کر بیٹھ جانا تو بہت مشکل نظر آتا ہے۔ میں اُن کو عرض کرتا ہوں کہ حکومتی عہدوں سے فارغ ہونے کے بعد میں اب پہلے سے بھی بہت زیادہ مصروف ہوں۔ صبح آٹھ بجے کام شروع کرتا ہوں اور رات کا کئی دفعہ ایک بھی بج جاتا ہے، وہ فوراً سوال کرتے ہیں کہ جنرل صاحب کیا آپ نے کوئی فیکٹری لگا لی ہے یا اپنی فیملی نے آپ کو مصروف کر رکھا ہے اور پھر وہ پوچھتے ہیں کہ آپ جیسے تجربہ کار لوگوں سے حکومت کوئی فائدہ کیوں نہیں اُٹھا رہی۔
 
میں اُن کو کہتا ہوں کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ ایک تو میں بہت بڑی فیکٹری کا مالک ہوں۔ جس کے بین الاقوامی کساد بازاری اور انتظامیہ کی نااہلی اور چوری چکاری کی وجہ سے حالات اچھے نہیں۔ جب کوئی اچھی منافع کی خبر آئے تو اس کو میں تازہ ہوا کا جھونکا سمجھتا  ہوں اور میرا دل باغ باغ ہو جاتا ہے اور جب فیکٹری خسارے کی طرف جاتی ہے اور لوگ اس کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھاتے ہیں تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے اور میں پریشان ہو جاتا ہوں۔ میں جس فیکٹری پر اپنا دل و دماغ مرکوز کئے ہوئے ہوں۔ وہ کرہ ارض پر خوبصورت ترین پلاٹ پر واقع ہے، جس کی شمالی سرحد ایک طرف ہمالیہ کے فلک بوس برفانی پہاڑوں سے ماتھا چومتی ہے تو جنوبی سرحد دوسری طرف بحر عرب کی شور مچاتی اور گونجتی لہروں میں نہاتی ہے اور پھر سچی بات تو یہ ہے کہ میری فیملی کے گھمبیر مسائل بھی میرے ذہن پر ہر وقت سوار رہتے ہیں۔ یہ فیملی بھی کوئی چھوٹی نہیں، اس میں تقریباً اٹھارہ کروڑ میرے بھائی، بہنیں، بچے اور بزرگ ہیں۔ جن میں سے صرف مٹھی بھر خوشحال ہیں۔ باقی سارے مصیبت زدہ اور پریشان ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اب خون اتنے سفید ہو چکے ہیں کہ خوشحال بھائی غربت اور مفلسی میں جکڑے ہوئے بہنوں اور بھائیوں کے لیے متفکر بھی نہیں۔ اللہ گواہ ہے کہ ان فیملی ممبرز کی مسائل کی محرومیاں سینے میں آگ لگاتی ہیں اور دل بے قابو ہو جاتا ہے۔ فیص نے کیا خوب کہا:
 
جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بے کس جن کے
اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
ناتوانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب
بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
 
جہاں تک حکومتی عہدوں پر کام کرنے کا تعلق ہے تو میرے خیال میں کسی شخص کو بھی اپنے آپ کو ناگزیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ کرسیوں سے چمٹے رہنے والے اور اپنی مدت ملازمت میں توسیع کروانے والے پیچھے آنے والی جوان نسل کا حق چھینتے ہیں۔ ہمارے پاس جدید تعلیم یافتہ بہت سے نوجوان ایسے ہیں جن کی ہمیں حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ دراصل میرٹ بھی انہی کا بنتا ہے، میں حکومت اور خصوصاً صدر صاحب کا مشکور ہوں کہ انہوں نے بالواسطہ اور بلا واسطہ مجھے کئی کار پوریشنوں کو سنبھالنے کا عندیہ بھی دیا۔ بلکہ یہ بھی کہا کہ اگر آپ فارغ نہیں تو آپ کا بیٹا کدھر ہے۔ میں نے معذرت اس لیے کی کہ موجودہ حالات میں جہاں اتحادی سیاسی جماعتیں، حکمران پیپلز پارٹی کو ہر قدم پر بلیک میل کر رہی ہیں، اور ایک طرف تو مالدار وزارتیں مانگتی ہیں اور دوسری طرف پس چلمن پیپلز پارٹی کے اہم عہدے داروں کے لیے بہت خراب زبان بھی استعمال کرتی ہیں۔ مفاد پرست اتحادیوں اور دولت چوس گھس بیٹھو سے پیپلز پارٹی کے اولڈ گارڈز بھی بہت ناراض ہیں۔
 
پی پی پی کا ایک بہت ہی سینئر کارکن مجھے بتا رہا تھا کہ پیپلز پارٹی کے کارکن اب بہت ہی پریشان اور غیر مطمئن ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہماری پارٹی کا پہلا نعرہ "روٹی، کپڑا اور مکان" سے بدل کر اب "رحمن، بابر اور فردوس عاشق اعوان" ہے۔ میں میڈم فردوس کی عزت کرتا ہوں، لیکن پیپلز پارٹی جیسی بہترین قومی پارٹی کے لیے یہ شگون اچھے نہیں۔ کرپشن زوردار طریقے سے جاری ہے، کچھ مزدور یونینز کی قیادت اُن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو مزدور ہیں نہ اُس ادارے کے ملازم۔ اداروں کے آزاد بورڈز ہیں لیکن کرپٹ سیاست دان چیف ایگزیکٹو کو کام نہیں کرنے دیتے۔ بدقسمتی سے اُن اداروں میں ہزاروں مزید ناجائز بھرتیاں ہوئی ہیں جو پہلے ہی سفارشی لوگوں سے بھرے پڑے تھے۔
 
میں جب سٹیل ملز اور پی او ایف کا چیئرمین تھا تو میں نے ساڑھے آٹھ سالوں میں ان دونوں اداروں میں ہر بھرتی میرٹ پر مختلف ٹیکنیکل بورڈز کی سفارشات پر کی اور صدر، وزیراعظم، اُن کے اہل خانہ، وزیر، جونیر وزیر، سیکرٹری، ایم این اے یا یونین کے کسی نمائندے کی کارپوریشنوں کے اندرونی معاملات میں کسی مداخلت کو قبول نہ کیا۔ چونکہ ملک اور اپنے مزدروں سے ہمدردی کا تقاضا بھی یہی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے ان اداروں کے نہ صرف قرضے اُتار دیئے بلکہ اربوں روپے منافع بھی کمایا، جو آج بھی اُن کی اکاؤنٹ کی کتابوں میں درج ہے لیکن میں ہر وقت اپنا استعفٰی تیار رکھتا تھا کہ نوکری چھوڑ دوں گا لیکن ایسا کوئی کام نہیں ہونے دوں گا، جس سے ملک کو نقصان پہنچے اور آخر میں اس وقت استعفے دینا بھی پڑا، جب سٹیل ملز کی اونے پونے داموں فروخت کو روکنا مقصود تھا۔یہی وجہ ہے کہ سٹیل ملز کی لوٹ سیل رُک گئی، لیکن بعد میں آنے والے لیٹروں نے ملز کی ساری پونجی چاٹ کر اس کو کنگال کر دیا۔

 پھر میں اسی سوال کی طرف آتا ہوں کہ میں دن بھر کیا کرتا ہوں۔ ایک تو میں نے بے سہارہ لوگوں کی مدد کے لیے ایک تنظیم بنائی ہوئی ہے، جس کا نام ہے "Association for citizen Empowerment" اس کے تحت میں اپنی بساط کے مطابق پاس آنے والے ہر ضرورت مند کے کام آنے کی کوشش کرتا ہوں۔ دوسرا پچھلے پانچ سالوں سے ہر جمعہ کو یہ کالم لکھتا ہوں جس کو آپ خدمت خلق ہی سمجھ لیں چونکہ اس کا اعزازیہ کالم ٹائپ کرنے والے کی تنخواہ سے بھی کم ہے۔ اپنے قیمتی وقت، ریسرچ اور تخلیقی کام کا میں کوئی صلہ نہیں لیتا۔ ان کالموں پر مبنی میری دو کتابیں، فکر و خیال 1 اور
فکر و خیال 2 چھپ چکی ہیں اور جب کینڈا سے آسٹریلیا اور امریکہ سے جنوب مشرقی ایشاء تک ہمارے پاکستانی بھائی ان کالموں کی تعریف کرتے ہیں تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے اور قیمت ادا ہو جاتی ہے۔
 
تیسرا میں چند مخصوص ٹی وی چینلز پر بھی صرف اس صورت میں جاتا ہوں جب مجھے یقین ہو جائے کہ موضوع قومی اہمیت کا حامل ہے۔ اینکر اہل، غیر جانبدار اور پاکستان سے مخلص ہے اور ٹاک شو کے شرکاء ایسے سنجیدہ لوگ ہیں جو بغیر ڈر کے دل کھول کر سچی بات کہہ سکتے ہیں۔ میں کالمز میں لفاظی کا بالکل قائل نہیں اور کوشش یہ کرتا ہوں کہ کالم میں ناظرین کے لیے کوئیFood for thought ہو اور کالم لکھتے وقت غیر جانبداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔ اسی طرح ٹاک شوز کے لیے بھی گھنٹوں ریسرچ کرنا پڑتی ہے، تاکہ ناظرین کے سامنے بے معنی اور فضول باتیں کر کے اُن کا وقت نہ ضائع کیا جائے۔ ان ٹاک شوز کے لیے بھی کروڑوں روپے کمانے والے ٹی وی چینلز بلائے ہوئے مہمانوں کو کوئی معاوضہ بھی ادا نہیں کرتے، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ آپ ٹرانسپورٹ بھی اپنی استعمال کریں۔ ماسوائے پی ٹی وی کے جو بلائے ہوئے ماہرین کو صرف ایک ٹوکن ادائیگی کرتے ہیں۔
 
لیکن مجھے معاوضہ اس وقت مل جاتا ہے جب نیویارک ٹائمز جیسا بین الاقوامی اخبار ٹاک شو پہ مبنی میرا یہ بیان لکھ دیتا ہے کہ ٹاک شو میں جنرل قیوم نے کہا ہے کہ ایڈمرل ملن نے بے معنی بیان دے کر پاکستانی قوم کی توہین کی ہے۔ ہم اُس کی مذمت کرتے ہیں۔ میں ساتھ ساتھ اپنی زندگی کے حالات پر ایک کتاب بھی لکھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس کے علاوہ شام کا ایک گھنٹہ جسمانی ورزش کے لیے ہوتا ہے، جس میں ہفتے میں چار پانچ دن چھ کلومیٹر کی واک کرتا ہوں۔ ان مصروفیات کے علاوہ جناب مجید نظامی کے حکم کے مطابق میں نے نظریہ پاکستان فورم اسلام آباد کی صدارت کا قلمدان بھی چند ماہ سے سنبھالا ہوا ہے، جس کے ماتحت 20 اکتوبر 2011ء کو اسلام آباد ہوٹل میں ہم نے ایک "پاکستان پائندہ باد" یعنی اللہ پاکستان کی عمر دراز کرے کے موضوع پر کانفرنس کی، جس کی صدارت خود نظامی صاحب نے فرمائی۔ ہمارے مہمان خصوصی قاضی حسین احمد، جنرل مرزا اسلم بیگ، سابق وزیراعظم کشمیر جناب سردار عتیق اور جنرل حمید گل تھے۔ اس کانفرنس کا فوٹو کوریج dhudialnews.com پر فوٹو گیلری میں دیکھا جا سکتا ہے۔
 
اس کانفرنس کے لیے میں نے ذاتی طور پر راجہ ظفر الحق صاحب کو دعوت دی تھی اور وہ آئے نہ غیر حاضری کی وجہ بتائی۔ راجہ صاحب جیسے بڑے قد کاٹھ والے سیاستدانوں سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی، لیکن بدقسمتی سے آج کل وعدوں کی پاسداری کا رواج نہیں رہا۔ جناب شہباز شریف، وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان بھی ڈاکٹر ثمر مبارک مند بدقسمتی سے چند اور اہم مصروفیات کی وجہ سے وعدہ کر کے بھی کانفرنس میں شامل نہ ہو سکے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین جناب مجید نظامی کی قیادت میں ایسی کانفرنسوں کے مقاصد کچھ یوں ہیں۔ 

*پاکستانی عوام اور خصوصاً نوجوان نسل کو تحریک پاکستان، نظریہ پاکستان اور قیام پاکستان کے بنیادی مقاصد سے آگاہ کرنا۔
 
*علامہ اقبال کی فکر اور قائداعظم محمد علی جناح کے تصورات اور فرمودات کی روشنی میں مسلمان قومیت، پاکستانیت اور اسلامیت کے تصورات کو اجاگر کرنا
 
*مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید کی مشعلیں روشن کرنا۔

*پاکستان کے مثبت پہلوؤں کو اُجاگر کر کے قوم کے حوصلے بلند کرنا۔
 
*پاکستان کی سلامتی کو لاحق اندرونی اور بیرونی خطرات کی نشاندہی کرنا اور حکومت وقت کی اُن کی طرف توجہ دلانا، تاکہ پاکستان کو ایک فلاحی، جمہوری اور اسلامی ریاست بنایا جا سکے۔
 
اس کانفرنس میں شرکت کرنے والوں مین افواج پاکستان کے سابقہ قائدین، ماہرین تعلیم، صنعت کار اور کاروباری پیشہ کے لوگوں، ججز، ایڈوکیٹس، سیاستدان، لکھاریوں اور صحافیوں سمیت ہر طبقہ فکر کی اتنی بڑی تعداد نے شرکت کی کہ ہوٹل کی کرسیاں کم پڑ گئیں۔ تین بجے سے لے کر چھ بجے تک ہر کوئی اپنی نشست سے جما رہا۔ اس کانفرنس میں واہ، ٹیکسلا، چکوال، تلہ گنگ اور چوہا سیدن شاہ سے بھی وطنیت کے جذے سے سرشار بہت سارے لوگوں نے شرکت فرمائی۔ ایک ریٹائرڈ فوجی آفیسر کی مصروفیات پر تو میں نے بہت کچھ لکھ دیا، لیکن اللہ کرے کہ ہمارے حاضر نوکری سیاستدان اُصول پرستی، دیانتداری اور وطن عزیز کے لیے دور رس سوچ کی راہ پر چل نکلیں، لیکن پھر سوچتا ہوں کہ
نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں
اِک ایسی راہ پہ جو تیری راہ گذر بھی نہیں
خبر کا کوڈ : 115188
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش