0
Friday 2 Dec 2011 15:21

پاکستان کی قیمت پر افغانستان میں امن کا امریکی منصوبہ

پاکستان کی قیمت پر افغانستان میں امن کا امریکی منصوبہ
تحریر:طاہر یاسین طاہر
 
مشکل اوقات میں آسان راستے تلاش کرنا دراصل حالات سے مفر کی دلیل ہے۔ قومیں سخت کوشی اور خودداری کی روایات پر پیہم عمل درآمد کر کے وقار کی مسند پہ جلوہ نشین ہوتی ہیں۔ محض بیان بازی اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ منہ کا ذائقہ تو تبدیل کر سکتی ہے مگر کھویا ہوا وقار بحال نہیں کر سکتی۔ ممکن ہے شر کے بطن سے خیر برآمد ہو جائے، یقین کامل ہو تو غیب کے دروازوں سے بھی رحمتوں اور آسانیوں کی تقسیم ہوتی ہوئی خیرات مل جایا کرتی ہے۔ درست بات تو یہی ہے کہ زمینی حقائق ویسے نہیں کہ ہم نام نہاد جہادیوں کی ہر خواہش اور تمنا کو دینی لبادے میں لپیٹ کر سامنے آنے والے ہر خطرے سے ٹکرا جائیں، مگر ہم اتنے بھی گئے گزرے تو نہیں کہ عالمی استعمار کی ہر بدمعاشی کو سر خم کر کے تسلیم کرتے چلے جائیں۔
 
مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ تدبر اور درست سیاسی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے پاس سنہری موقع ہے، دوست ممالک ساتھ کھڑے ہیں، قوم یکسو ہے۔ حکمرانوں کو بس ہمت اور جرات کا مظاہرہ کرنا ہے۔ سیاسی عسکری قیادت بھی عوامی جذبات سے آگاہ ہے۔ امریکہ و نیٹو کے پاس پاکستان کو دباﺅ میں لانے کے لئے کئی راستے موجود ہیں۔ یہاں صدر پاکستان نے درست اور قومی امنگوں کا عکاس موقف اپنایا اور امارات کے وزیر خارجہ کو بتا دیا کہ دفاعی کابینہ کی کمیٹی کے فیصلوں کو میں ریورس نہیں کروں گا۔ جمہوری حکومت کا درست رویہ مگر کیا تادیر ہم ان فیصلوں پر قائم رہ سکیں گے۔؟
 
نیٹو کی سپلائی لائن بند کر دی گئی ہے۔ کیا امریکہ اس فیصلے کی تاب لاسکے گا۔؟ سچی بات تو یہ بھی ہے کہ اگر درست سیاسی فیصلے نہ کئے گئے تو پاکستان کے یہ فیصلے الٹا پاکستان کے ہی گلے پڑ جائیں گے۔ یہ امر واقعی ہے کہ دفاعی کمیٹی کے فیصلوں پر خود ہی عمل درآمد اور پھر وفاقی کابینہ سے ان فیصلوں کی توثیق نے امریکہ و نیٹو کو اس امر پر مجبور کر دیا کہ وہ نرم رویہ اپنائیں۔ مگر یہاں بھی امریکہ و نیٹو اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے چالاکی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
 
ہمارے 24 فوجیوں کی شہادت کو محض تحقیقات کی نذر کر کے ہمیں تسلی دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا یہ کھلی جارحیت نہیں تھی۔؟ پھر اسکی تحقیقات کیسی۔؟ نیٹو نے جارحیت کی اور پاکستان کی خودمختاری و سالمیت کو پامال کیا۔ عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی اور اب آئیں بائیں شائیں کی کوشش کر رہا ہے۔ نیٹو نے اپنے صف اول کے اتحادی سے دھوکا کیا اور اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔
 
امریکہ نیٹو کے ہمراہ افغانستان میں ہے اور پاکستان کی قیمت پر اس خطے میں مزید قیام چاہتا ہے۔ ایسا قیام جو اسے ایران کے خلاف چڑھ دوڑنے میں بھی معاون ہو۔ اپنے ان ہی مذموم مقاصد کی خاطر وہ بدحواسی میں پاکستانی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ گزشتہ برس ستمبر میں امریکی ہیلی کاپٹروں نے فائرنگ کر کے کرم ایجنسی میں پاکستانی فوجیوں کو شہید کر دیا، جس پر پاکستان نے فوراً نیٹو کی سپلائی لائن بند کر دی تھی اور صرف دس دن کے اندر امریکی حکومت نے واقعہ پر باقاعدہ معذرت کی تھی۔ 

مگر اسکے فوراً بعد اس نے افغانستان میں مقیم اپنے فوجیوں کے لئے متبادل سپلائی لائن کی تلاش بھی شروع کر دی تھی۔ امریکہ کچھ عرصے سے اس متبادل راستے سے استفادہ بھی کر رہا ہے مگر یہ وسطی ایشیائی ریاستوں کا راستہ امریکہ کے لئے بہت مہنگا ہے۔ امریکہ یہ تاثر بھی دے رہا ہے کہ نیٹو کی سپلائی لائن بند ہونے سے افغانستان میں مقیم اس کی ایک لاکھ فوج کو زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جبکہ وال اسٹریٹ جرنل نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان میں موجود نیٹو افواج کو 63 فی صد سپلائی وسط ایشیائی ریاستوں سے آ رہی ہے اور صرف 37 فی صد پاکستان سے آ رہی ہے۔ 

امریکہ اپنے طور پر دباﺅ بڑھانے میں لگا ہوا ہے جبکہ پاکستان مصلحتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے درست اقدام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ نیٹو حملوں کے بعد پاکستان نے ایسے بروقت اقدام اٹھائے جو امریکہ کو دھچکا لگا سکتے ہیں۔ ان میں نیٹو کی سپلائی لائن کی بندش، شمسی ائیر بیس سے امریکی فوجیوں کا انخلا اور افغانستان میں قیام امن کے لئے منعقدہ بون کانفرنس میں شرکت کا بائیکاٹ ہے۔ 

نیٹو کی سپلائی لائن کی بندش سے امریکہ و نیٹو واضح طور پر پریشان ہیں جبکہ روس نے بھی امریکہ کو افغانستان میں نیٹو سپلائی کا راستہ بند کرنے کی دھمکی دیدی ہے۔ نیٹو میں روس کے سفیر دفتر روگوزون نے امریکہ کو یہ کہہ کر خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے یورپ میں نصب کئے جانے والے میزائل دفاعی نظام کے متعلق ماسکو کی تشویش دور نہ کی تو نیٹو کی سپلائی لائن کاٹ دی جائے گی۔ دلچسپ امر تو یہ ہے کہ نیٹو کو روس کی جانب سے سپلائی لائن کاٹنے کی دھمکی ایسے وقت میں دی گئی ہے جب نیٹو کی سپلائی لائن پاکستان نے بند کر دی ہے۔
 
دوسری طرف امریکہ نے شمسی ایئر بیس خالی کرنے کی بھی تیاریاں شروع کر دی ہیں کیونکہ پاکستان 11 دسمبر کی امریکہ کو ڈیڈ لائن دے چکا ہے۔ عالمی سیاسی منظرنامے اور امریکہ کے اس خطے میں مفادات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ شمسی ائیر بیس میں خالی کرنا امریکہ کے لئے کس قدر نقصان دہ ہے۔ مزید برآں بون کانفرنس کا بائیکاٹ صرف امریکہ و افغانستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے 90 ممالک کے لئے ایک دھچکا ہے۔
 
اسی لئے تو جرمن چانسلر نے فون کر کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے درخواست کی ہے کہ بون کانفرنس میں عدم شرکت کے فیصلے پر نظرثانی کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بون کانفرنس میں شرکت اہمیت کی حامل ہے اور جرمنی میں پاکستان کے سفیر ہی کو نمائندگی کی اجازت دے دی جائے۔ جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ فیصلہ قومی سلامتی کمیٹی کرے گی۔ اس سلسلے میں پہلے اس سوال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا چند ہفتے قبل افغانستان میں امن کے قیام کے حوالے سے استنبول کانفرنس نتیجہ خیز ہوئی اور اس میں پاکستان کی کسی بات کو درخور اعتنا سمجھا گیا؟نہیں،بالکل نہیں!
 
دنیا یہ کیوں بھول جاتی ہے کہ اگر وہ افغانستان میں امن چاہتی ہے تو پھر اس حوالے سے مرکزی کردار پاکستان کا ہی ہو گا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم دوسروں کے گھر میں روشنی کے لئے اپنے گھر کو آگ لگا دیں؟ جمہوری حکومت کا فیصلہ درست معلوم ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے برملا کہا کہ افغانستان میں امن کے لئے اپنی سلامتی داﺅ پر نہیں لگا سکتے۔ بالکل سچ ہے مگر امریکہ سے یہ توقعات کیوں کہ وہ ہماری سالمیت اور خودمختاری کی گارنٹی بھی دے گا۔؟ 

لاریب امریکہ دہشتگردی کے خلاف جاری اس نام نہاد جنگ کا مرکزی میدان پاکستان کو بنانا چاہتا ہے تو ایسے میں دفاعی اقدامات کرنے کے بجائے دشمن سے ہی یہ توقع کرنا کہ وہ ہماری حفاظت کی ذمہ داری اٹھائے ایک مضحکہ خیز بات لگتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ نہ صرف افغانستان میں بلکہ دنیا بھر میں امن ہو ۔ افغانستان امریکہ کی اصل منزل نہیں۔ اسکی حریص نگاہیں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر بھی فقط نہیں ٹھہر تی ہیں بلکہ وہ بیک وقت ہمارے ایٹمی پروگرام سمیت ایران کو بھی سبق سکھاتے ہوئے چین کاگریبان پکڑنا چاہتا ہے۔ نہ صرف خطے میں قیام امن کےلئے پاکستان کا کردار بڑا اہم ہے بلکہ دنیا بھر کا امن مشرق وسطٰی کے امن سے مشروط ہو چکا ہے۔
 
امریکہ اور نیٹو افغانستان میں ایسے امن کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں جس کی ڈور ان کے اپنے ہاتھ میں ہو۔ کابل میں فوجی اڈے، یورپ میں دفاعی میزائلوں کا نظام اور اس طرح کی دیگر فوجی حرکیات، امریکہ کے آئندہ کے عزائم کو ظاہر کرتی ہیں۔ معمولی فہم رکھنے والا بھی سمجھتا ہے کہ اگر افغانستان میں امن امریکہ کو عزیز ہو تو پھر وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں فوجی کارروائیاں کیوں کرے؟ دہشتگردی کے خلاف بلکہ امریکی دہشتگردی پر مبنی یہ جنگ اب پاکستان کی اپنی بقا سے منسلک ہو گئی ہے۔ ہمیں دنیا بھر میں امن کے قیام کے لئے کردار ادا کرنا ہے اور اسکے لئے خطے کے امن پسند اور دوست ممالک کو اپنے موقف اور امریکی جارحیت کے بارے میں اعتماد میں بھی لینا ہے۔
خبر کا کوڈ : 119138
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش