0
Thursday 1 Dec 2011 15:45

نیٹو کا پاکستانی چوکی پر حملہ

نیٹو کا پاکستانی چوکی پر حملہ
 تحریر:جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم

اعلان جنگ کئے بغیر ایک دوست ملک کی سرحد کے اندر گھس کر ہوائی حملہ کرنا اور چوبیس فوجیوں کو شہید کر دینا، ایک ایسی بدترین دہشتگردی ہے، جس کے آگے القاعدہ کے جرائم بھی ماند پڑ جاتے ہیں۔ بین الاقوامی ماہرین قانون کے مطابق امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے عراق اور افغانستان پر حملے بھی غیر قانونی تھے، لیکن پاکستان پر ڈرون حملے سمیت ہوائی حملے تو ایک ننگی جارحیت ہے۔ ڈرون حملوں میں ابھی تک 2043ء لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور اتحادی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے گزشتہ آٹھ حملوں میں 72 فوجی اور سویلین شہید اور 211ء زخمی ہوئے ہیں۔ 

بین الاقوامی قوانین کے مطابق ایسے حملے کرنے اور کروانے والے جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں، جن کے خلاف بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمات درج ہونے چاہیں۔ اتحادیوں کی ان بے شرم حرکات کی وجہ سے بین الاقوامی ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ چونکہ ایسے حملے Act of war کے زمرے میں آتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔

 پہلی وجہ تو یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان کی سوچ میں ایک بنیادی تضاد ہے۔ امریکہ کے خیال میں پاکستان اپنے ملک میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ تو سختی سے پیش آتا ہے، جیسے کہ سوات، مالاکنڈ کے علاقوں میں افواج پاکستان کا ایک لاجواب آپریشن تھا، جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی، لیکن امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان کے اندر جو طالبان امریکہ کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہیں، ان کو پاکستان کی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ پاکستان اس بات کو ایک سفید جھوٹ کہتا ہے۔
 
پاکستان کا موقف یہ ہے کہ افغانستان کے اندر قابض اتحادی فوجیوں کے خلاف لڑنے والے وہ افغانی جنگجو ہیں، جو اپنے ملک کو بیرونی طاقتوں کے غیر قانونی قبضے سے آزاد کروانا چاہتے ہیں، ان کی قوت مدافعت کی بڑی ٹانک ان کی Will to figth ہے۔ جس کی بنیاد ان کے اس ایمان افروز جذبے میں پنہاں ہے کہ بیرونی حملہ آور طاقتیں افغانستان میں افغانیوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے نہیں، بلکہ لالچی ریاستوں کی نظریں افغانستان کے زیرزمین معدنی خزانوں کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے تیل اور گیس کے انمو ل ذخیروں پر ہیں۔ یہ چین اور ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خائف ہیں، اور پاکستان کی Destabilisation ،Denuclearisation اور Delslamisation چاہتی ہیں۔
 
دس سالہ دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اتحادی فوجیں افغانستان میں شکست کھا چکی ہیں، 2003ء کے سال میں اگر اتحادیوں کی ہلاکتیں صرف 55 تھیں، تو وہ 2010ء میں بڑھ کر 700 سالانہ ہو گئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے مطابق دس سالہ جنگ کے بعد حالات بہتر نہیں ہوئے، بلکہ جنگجوں کے حملوں میں 39% اضافہ ہو گیا ہے۔ 

دوسرا پاکستان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ پاکستان کے اندر ہونے والے مہران بیس جیسے حملے مذہبی انتہا پسندوں کے بس کے بات نہیں۔ اس کے پیچھے CIA، را ور موساد ہیں جن کو یہ پتہ ہے کہ P3 C اورین جہاز پاکستان نیوی کا ایک اسٹریٹیجک اثاثہ تھے، عام سویلین بلکہ عام فوجی کو بھی اس کا ادراک نہیں۔ جی ایچ کیو پر حملہ، بی بظیر بھٹو کا قتل اور آئی ایس آئی کے مراکز اور ان کی بسوں پر حملے ایک تربیت یافتہ گوریلا فورس کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا۔ ان اختلافات کی بنا پر اور اپنی شکست کی سیاہی پاکستان کے منہ پر ملنے کی خاطر امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان سے ناراض ہیں، اور پاکستانی فوج کو سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ 2008ء میں اوباما کے برسراقتدار آنے کے بعد ان مزموم حرکات میں ایک خاص منصوبے کے تحت زبردست اضافہ ہوا ہے۔ چند مثالیں ذیل میں درج ہیں۔
 
1۔ 2009ء میں کیری لوگر بل میں لکھا گیا کہ پاکستان دہشتگردوں کی مدد نہیں کریگا اور کوئٹہ اور مریدکے سے دہشتگردی کے اڈے ختم کرنے ہونگے، پاکستان فوج سول حکومت کے تابع ہو گی اور اس کے سینیئر آفیسرز کی ترقیوں اور تبادلوں پر نظر رکھنا ہو گی۔ پاکستان اپنی ایٹمی طاقت نہیں بڑھائے گا۔ افواج پاکستان سمیت پوری پاکستانی قوم ان الزمات، اس بہودہ زبان اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت پر سراپا احتجاج بنی۔
 
2۔ 2010ء بلیک واٹر کا پاکستان کے اندر اپنے اڈے بنانے کا سال تھا۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں توسیع ہوئی اور تقریباً 200 بنگلے کرائے پر لیکر ان کو قلعے بنا دیا گیا۔ سفارتی گاڑیوں سے اسلحہ برآمد ہوا اور لاہور اور دارالحکومت کی کئی سڑکوں پر جھگڑے ہوئے۔
 
3۔ 2011ء کے سال کی ابتدا 27 جنوری والے دن ریمنڈ ڈیوس جیسے بھیڑ کی کھال میں بھیڑیئے نے لاہور میں تین لوگوں کے قتل سے کی اور پھر پاکستانی قانون کا مذاق اڑاتے ہوئے وہ قاتل ایک VIP جہاز میں ہمارے منہ پر تھوکتا ہوا ملک سے باہر فرار ہو گیا۔
 
4۔ 2 مئی 2011ء کو امریکہ نے سارے بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر ایبٹ آباد پر شب خون مارا اور دنیا کو فوٹو دکھائے بغیر بتایا کہ اسامہ بن لادین کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ یہ عمل بھی افواج پاکستان کو قوم کی نظروں میں گرانے کیلئے تھا۔
 
5۔ 10 مئی کو فوجی قیادت کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے ایک میمو تیار کیا گیا۔ جس کی ساری زبان امریکہ، ہندوستان اور اسرائیل کی Dictate کی ہوئی تھی اور ظاہر ہے اس میں کچھ گھر کے بھیدی بھی شامل تھے چونکہ بقول شاعر
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
 
6۔ 22 مئی 2011ء کو کراچی میں مہران بیس پر گوریلہ حملہ کرا دیا گیا، تاکہ افواج پاکستان اور حکومت پاکستان کو بدنام کیا جائے۔

7۔ اس کے بعد سبکدوش ہونے والے امریکی چیئر مین جاینٹ چیف آف اسٹاف مائیک ملن کی حیران کن اور بین الاقوامی سفارتی اداب کے بالکل برعکس ہرزہ سرائی سامنے آئی، جس میں فوج اور آئی ایس آئی پر سنگین الزامات لگائے گئے اور پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔
 
8۔ آخری جارحیت ہماری مہمند ایجنسی میں ایک پوسٹ پر امریکہ کا ہوائی حملہ ہے، اس سلسلے میں پاکستان کا سخت رد عمل ایک قدرتی بات ہے، لیکن اس سخت موقف کے ساتھ ہمیں بین الاقوامی برادری کو اپنی بہترین سفارت کاری سے یہ بتانا ھو گا کہ پاکستان کی قربانیا کیا ہیں اور کس طرح ہماری پیٹھ کو دیوار سے لگایا گیا۔ ہمیں سلامتی کونسل اور بین الاقوامی عدالت انصاف کا دروازہ بھی کھٹکٹانا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 118990
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش