0
Friday 23 Dec 2011 16:01

دوست یا دشمن ۔۔۔۔ فیصلہ آپ کا

دوست یا دشمن ۔۔۔۔ فیصلہ آپ کا
تحریر:ایس رضا نقوی 
 
بدماشی کا اصول ہے کہ ایک دشمن ہو جس کے ماورائی تصور سے لوگوں کو ڈرایا جائے اور اس ماورائی اور جھوٹے خطرے سے بچانے کے بہانے اپنی شرائط پر لوگوں پر تسلط قائم کیا جائے اور انکو اپنا محکوم بنایا جائے، اس کی جغرافیائی حدود معین نہیں، ایسا ایک چھوٹی گلی میں بھی ہو سکتا ہے، ایک محلے، شہر، ملک اور حتٰی کئی ممالک کی حدود پر بھی حکمرانی کی جا سکتی ہے بلکہ اب تو اس کی جگہ ایک نئی اصطلاح بھی متعارف کرائی گئی ہے ''New World Order"۔ بدماشی میں جدت پیدا کرنے کی ایک کوشش!

کہنے کو بدماشی میں بھی کچھ اصول و قواعد ہوتے ہیں بلکہ ہوا کرتے تھے لیکن جیسے جیسے انسان اپنی قدر کھوتا گیا، اسی طرح بدماشی نے بھی اپنی قدروں کے ساتھ وفا نہ کی، زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ بدماشی نے بھی اپنے ہاتھ پاوں پھیلانا شروع کر دیئے اور قناعت کا لبادہ اتار پھینکا اور استعمار ایک نئی شکل و صورت کے ساتھ دنیا کی مستعضف اقوام پر مسلط ہو گیا، نہ کوئی اس کے سامنے سر اٹھاتا تھا اور نہ ہی آواز، وہ جس کو چاہتا تھا اپنا دشمن بنا کر تباہ کر ڈالتا تھا اور کسی کو بھی اپنے مفادات کی خاطر اپنا دوست بنا لیتا تھا، اب استعمار چھوٹے چھوٹے بدماش پیدا کرتا، ان کو مسلط کرتا اور جب اسکے مقاصد پورے ہو جاتے تو ان بدماشوں کو دشمن بتا کر ختم کر دیتا۔۔۔۔۔اگر بیسویں صدی پر ایک نگاہ ڈالیں تو ہمیں ایسے لاتعداد کردار نظر آئیں گے جنہیں استعمار کی طرف سے بدماشی کی سند ملی، لیکن ایک مدت کے بعد ان کو انسانیت کا دشمن قرار دیکر ختم کر دیا گیا۔

سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد استعمار کو ایک ایسے دشمن کی ضرورت تھی کہ جس کو دکھا کر اپنی حکمرانی کو طول دیا جائے اور اپنی سلطنت کو وسعت دی جائے اور قرعہ فال اسلام کے نام نکلا، لیکن اسلام کو اگر اس کی اصل شکل پر باقی رکھا جائے تو اسلام کو عوام دشمن بنا کر پیش نہیں کیا جا سکتا تھا، جس کا حل اس صورت میں نکالا گیا کہ اسلام کو ایک نیا سفاک چہرہ دیا جائے، جس کو دکھا کر اپنی خواہشات کو حاصل کیا جائے۔۔۔۔۔اور اس نئے چہرے کا نام القاعدہ و طالبان رکھا گیا۔

بن لادن خاندان کے امریکی حکمرانوں سے تعلقات کسی سے پوشیدہ نہیں، اسامہ بن لادن دہشتگرد قرار دیئے جانے سے قبل امریکہ میں سابق امریکی صدر ریگن اور بش سینئر کا مہمان ہوا کرتا تھا، افغانستان میں روسی افواج کے مدمقابل ایک ایسے گروہ کو منظم کیا گیا جس کا سرغنہ اسامہ بن لادن تھا جو امریکن سی آئی اے سے تربیت یافتہ امریکی ایجنٹ تھا۔ میں اس تفصیل میں نہیں جائوں گا کیونکہ اس موضوع پر ملکی و غیر ملکی سیاسی تجزیہ نگاروں کے مضامین اور کتابیں موجود ہیں، حتٰی امریکی سیاسی تجزیہ نگاروں کی کتابیں بھی موجود ہیں، جن میں اسامہ کے امریکہ سے قریبی تعلقات کو فاش کیا گیا ہے۔ 

مختصر یہ کہ روس کی شکست کے بعد افغانستان میں ایک ایسے گروپ کو امریکہ نے مدد فراہم کی، جس نے اسلام کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا لیکن امریکیوں کے متعین شدہ راستے پر رواں تھا۔۔۔۔۔غرض طالبان کو افغانستان کی حکومت دی گئی، طالبان کی حکومت علاقے میں قائم کروانے کے بہت سارے مقاصد تھے جس میں سے اہم افغانستان میں ایران کے نفوذ کو روکنا، پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینا اور سب سے بڑھ کر اسلام کی مسخ شدہ تصویر پیش کرنا تھا، جس کو دکھا کر امریکہ نے دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھا تھا۔

بہرحال یہ تھے طالبان جو امریکی حکومت کی گود میں پلے اور اسرائیلی دودھ پی کر پروان چڑھے۔۔۔۔۔پہلے سے طے شدہ نائن الیون کا ڈرامہ رچایا گیا اور امریکہ اسی کے انتظار میں تھا اور اس کے بعد امریکہ طالبان کو ختم کرنے کیلئے پہلے سے تباہ شدہ افغانستان کو پتھر کے دور میں بھیجنے کیلئے نکل پڑا۔۔۔۔۔۔نعرہ وہی پرانا تھا۔۔۔۔۔دنیا کو دہشتگردوں سے خطرہ ہے۔۔۔۔۔کونسے دہشتگرد؟؟؟ وہی جن کو تم نے خود دودھ پلا کر پروان چڑھایا تھا؟؟؟ وہی دہشتگرد جو تمہاری آواز پر ایک وفادار کی طرح دم ہلاتے پھرتے تھے؟؟؟

وہ اس وقت تو دہشتگرد قرار نہیں دیئے گئے جب انہوں نے اسلام کے نام پر افغانستان میں ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا؟ وہ اس وقت تو دہشتگرد قرار نہیں دیئے گئے جب انہوں نے بامیان پر لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا؟ وہ اس وقت دہشتگرد کیوں نہیں قرار دیئے گئے جب وہ تمہارے لیے روس سے لڑ رہے تھے؟؟؟؟؟ وہ کل بھی تمہاری ناجائز اولاد تھے اور آج بھی ہیں۔۔۔۔۔وہ کل بھی تمہارے اشاروں پر ناچتے تھے اور آج بھی تم ہی انکے باپ ہو۔

بائیڈن کے بیان نے کم از کم مجھے تو حیران نہیں کیا۔۔۔۔۔امریکی نائب صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ طالبان امریکہ کے دشمن نہیں ہیں اور نہ ہی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان سے امریکی مفادات کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔ ان کا یہ بیان نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکا کے اس موقف کے بالکل برعکس آیا ہے، جس میں انہوں نے طالبان کو اپنا اہم دشمن قرار دیا تھا۔ جوبائیڈن نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ امریکی صدر نے کبھی کوئی ایسا بیان نہیں دیا، جس میں طالبان کو امریکا کا دشمن قرار دیا ہو یا یہ کہ طالبان سے امریکی مفادات کو کوئی خطرہ درپیش ہو۔۔۔۔!!!انہوں نے کہا کہ طالبان کا خاتمہ امریکہ کا مطمع نظر نہیں۔ اب جبکہ القاعدہ کا افغانستان میں زور توڑ دیا گیا ہے تو مفاہمت کی راہ نکالنے کیلئے امریکی صدر نے طالبان کو صلح کا پیغام دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دوسری جانب یہ کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ طالبان کو سیاسی دھارے یا درست سمت میں موڑنے کیلئے مفاہمتی کوششیں بھی کی جائیں اور یہ سلسلہ بھی جاری ہے!!!

اگر جو بائیڈن کا مقصد اپنے بیان سے افغانستان میں امریکہ کی ناکامیوں پر پردہ ڈال کر امریکہ کو ایک فاتح کا خطاب عطا کرنا تھا تو یہ ایک بہت ہی بھونڈی کوشش تھی، جوبائیڈن شاید یہ بھول گئے کہ امریکہ کے وہ افراد جو نائن الیون کے ڈرامے میں مارے گئے تھے انکے اہل خانہ کے سامنے کئی سالوں سے امریکہ یہی گاتا آیا کہ امریکی حکومت ان دہشتگردوں کو ختم کر کے دم لے گی۔۔۔۔۔کیا امریکی عوام مطمئن ہونگے۔؟۔۔۔۔۔ آج امریکی عوام جو ہمیشہ امریکی میڈیا کے زیر سایہ زندگی گزارتی آئی ہے شاید اپنی آنکھیں کھول کر حقیقت کو جان لیں۔۔۔۔کاش!!!

یقین جانیں امریکہ کو نجات دہندہ سمجھنا سب سے بڑی بیوقوفی ہے، پہلے دن سے جو لوگ یہ سمجھتے آئے کہ امریکہ ایک نجات دہندہ بن کر علاقے میں آیا ہے، انہی جیسے لوگوں نے میڈیا کے ذریعے رائے عامہ امریکی جارحیت کے لئے ہموار کی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ غلطی پر تھے اور آج شاید وہ اپنی اس غلطی پر شرمندہ بھی ہوں اور ہونا بھی چاہئے، لیکن وہ یہ بھی جان لیں کہ بامیان میں لاکھوں کا قتل عام ہو یا افغانستان میں عوامی حقوق کی پامالی یا پاکستان میں فرقہ واریت کے نام پر قتل عام یا ایران میں دشمنان انقلاب کی پشت پناہی اور سازشوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔۔۔۔۔۔یہ سب معزز حضرات ان تمام مظالم میں برابر کے شراکت دار ہیں۔

یہ قصے صرف فلموں اور کہانیوں میں اچھے لگتے ہیں کہ ایک ہیرو نے عوام کو ظالم سے نجات دلا دی، سپر مین، اسپائیڈر مین وغیرہ یہی وہ تخیلاتی کردار ہیں جن کی تصویریں عام آدمی کے ذہن میں راسخ کر دی گئیں ہیں اور وہ ان کرداروں پر یقین بھی کرنے لگے ہیں، وہ جو ان کرداروں پر یقین کرتے ہیں ان کو جان لینا چاہئے کہ امریکہ ان کرداروں کا صرف موجد ہے، مصداق نہیں۔۔۔۔۔امریکہ نجات دہندہ نہیں، درندہ ہے، امریکہ جس کا دوست بن جائے یا امریکہ کو کوئی دوست بنا لے، دونوں بیوقوف ہیں اور خیالوں کی دنیا کے باسی ہیں۔۔۔۔۔

امام خمینی رہ کے فرمان پر کان نہ دھرنے والو ، آئو دیکھ لو کہ مرد جماران نے کتنے سال پہلے کہہ دیا تھا کہ مسلمانوں کے تمام تر مصائب و مشکلات کا ذمہ دار امریکہ ہے۔۔۔۔۔اس وقت تم نے تعصب کی عینک لگا رکھی تھی۔۔۔۔۔آج تو جاگ جائو۔۔۔۔۔آج تو پہچان لو اپنے دشمن کو۔۔۔۔۔۔نہ ہو باہم دست و گریبان۔۔۔۔۔نہ لوٹو ایک دوسرے کی ناموس۔۔۔۔۔جان لو کہ امریکہ مسلمانوں کا دوست نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔اور امریکہ کا دوست بھی ہمارا دوست نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔ چھین لو ان لوگوں سے اقتدار جن کے سر خدا وند کریم کی بارگاہ کے بجائے امریکہ کے دربار میں جھکے رہتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 124575
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش