0
Tuesday 27 Dec 2011 13:42

پنجاب یونیورسٹی میں یوم حسین ع میں رکاوٹ

جمعیت 1994ء کی خونریزی کے بعد بھی اپنی صفوں سے سپاہ یزید کو نہیں نکال سکی!
پنجاب یونیورسٹی میں یوم حسین ع میں رکاوٹ
تحریر:ابنِ آدم راجپوت
 
اسلام ٹائمز۔ مجھے یہ جان کر انتہائی ناخوشگوار حیرت ہوئی کہ اسلامی جمعیت طلبہ نے 17 سال بعد بھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا اور پنجاب یونیورسٹی میں یوم حسین علیہ السلام کی تقریب، حسین سب کا، کو روکنے کیلئے کیمیکل ڈیپارٹمنٹ کے گراونڈ میں دھاوا بول کر نہ صرف وائس چانسلر کے احکامات کو ہوا میں اڑا دیا بلکہ اپنی اصلیت بھی واضح کر دی کہ یزیدیت پر پڑتے طمانچے وہ برداشت نہیں کر سکتے۔ واقعہ کربلا اور اس کے بعد عزاداری امام حسین علیہ السلام کے تسلسل نے یزیدیت کو تو گالی بنا دیا ہے۔ لیکن جمعیت بھی نجدی ٹولے کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہے۔

22 دسمبر کو میڈیا اور یونیورسٹی انتظامیہ نے دیکھا کہ دونوں طلبہ تنظیموں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور اسلامی جمعیت طلباء کے کارکنوں کے درمیان فیصل آڈیٹوریم کا احاطہ میدان کار زار بنا رہا۔ جمعیت نے اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے مسلح افراد کے ساتھ حملہ کیا۔ آئی ایس او نے امن سے کام لیتے ہوئے بچ بچائو کی پالیسی اختیار کی اور دفاعی پوزیشن لے لی۔ دونوں کے درمیان پتھراو سے طلبا زخمی ہوئے۔ اور اب سنا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے تھانہ مسلم ٹاون میں مقدمہ بھی درج کرا دیا گیا ہے۔ جس میں اسلامی جمعیت طلباء کے تین اور آئی ایس او کے ایک طالب علم کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

دونوں طلبہ تنظیموں کے درمیان بہت سے مشترکات ہیں، تو کچھ مسلکی اختلافات بھی۔ جن کا بقول بزرگ سیاستدان قاضی حسین احمد تاریخی پس منظر ہے اور انہیں اب سلجھانا یا ایک دوسرے کو اس پر تنقید کا نشانہ بنانا فضول ہے۔ ہاں اسی اختلاف کو برقرار رکھتے ہوئے اتحاد کی بات کی جائے، تاکہ امت مسلمہ مضبوط ہو۔ اسی حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ شاید ان جیسا کھلے ذہن کا لیڈر جماعت اسلامی میں شاید ہی کوئی اور ہو۔ انہوں نے ملی یکجہتی کونسل اور بعدازاں متحدہ مجلس عمل تشکیل دے کر ثابت کیا کہ وہ امت کے مختلف طبقات کو اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تحریک جعفریہ پاکستان کو جب ایک دہشتگرد تنظیم سپاہ یزید کے ساتھ توازن قائم کرنے کے لئے کالعدم قرار دیا گیا تو ایم ایم اے کی جماعتوں نے اس پابندی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تحریک جعفریہ کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں، یہ اتحاد کا اہم حصہ رہے گی۔

اب تو حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔ میں عینی شاہد ہوں جو کچھ جولائی 1994ء میں پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے ایس ٹی سی ہال کے سبزہ زار میں ہوا۔ کہ جب اسلامی جمعیت طلبہ کے لگ بھگ تین سو کارکن سپاہ یزید کا لبادہ اوڑھ کر یوم حسین علیہ السلام کی تقریب کو روکنے کے لئے بھی پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے تشیع کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی۔ یزیدیت زندہ باد کے نعرے لگائے۔ باوجود شور شرابے اور نعرے بازی کے حجتہ الاسلام مولانا ہادی حسن نقوی نے یوم حسین ع کی تقریب سے خطاب کیا۔ ماتمداری ہو چکی تھی اور نیاز بھی تقسیم ہو گئی تھی اور عزادار طلبا منشتر ہو رہے تھے کہ جمعیت کے مسلح غنڈوں نے حملہ کر دیا۔ پھر کیا تھا کہ باہر سے کچھ آنے والے نامعلوم افراد نے جوابی فائرنگ کی۔ جس سے جمعیت کے تین کارکن اور ایک یونیورسٹی ملازم ہلاک ہوئے۔
 
اس ناخوشگوار واقعے کے بعد جمعیت کے غنڈوں نے ہاسٹلز میں آئی ایس او کے کارکنوں کے کمروں پر دھاوا بولا اور جو کچھ سامان موجود تھا لوٹ مار کر کے لے گئے۔ جبکہ بددیانتی کی انتہا یہ تھی کہ جبکہ ایف آئی آر درج کروائی گئی تو جمعیت کی طرف سے آئی ایس او کے نو طلبہ کو تھانہ گارڈن ٹاون جبکہ پولیس کی طرف سے تھانہ مسلم ٹاون میں درج کروائی گئی ایف آئی آر میں کوئی بیس سے زائد کو نامزد کیا گیا اور باقی کو نامعلوم کھاتے میں رکھ کر گرفتاریاں کی گئیں، اور کچھ شیعہ جوانوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

مجھے یاد ہے کہ تحریک جعفریہ کے رہنما شہید ذوالفقار حسین نقوی نے خود آئی ایس او کے نامزد طلبہ کو پولیس کے حوالے کر کے شامل تفتیش کروایا۔ بعد ازاں اسیران امامیہ کے گول میڈل لینے والے یہ نوجوان تین جیلوں کیمپ جیل لاہور، ڈسٹرکٹ جیل سیالکوٹ اور ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ میں رہے۔ آئی ایس او کے کارکنوں نے ان کی بڑی خدمت کی۔ جیل کے اندر رہ کر کئی دوستوں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ باوجود پولیس پر جمعیت اور جماعت اسلامی کے دبائو کے تفتیش سے واضح ہو گیا کہ فائرنگ کرنے والے وہ نہیں جو نامزد کئے گئے ہیں بلکہ نامعلوم افراد تھے۔ اپنی کلاسوں میں پوزیشنیں حاصل کرنے والے چار طلبہ کو تین تین سال جیل میں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنا پڑی جبکہ چار کو چھ ماہ بعد ہی رہائی مل گئی تھی۔

ایک اسیر رہنے والے آئی ایس او کے کارکن کے مطابق جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ، شہید ذوالفقار حسین نقوی کے ہمراہ کیمپ جیل لاہور میں اسیران امامیہ سے ملاقات کے لئے آئے کہ اصل صورتحال جان سکیں کہ واقعہ ہوا کیسے تھا۔ تو دوران گفتگو لیاقت بلوچ نے بتایا کہ وہ خود اس مجلس کی دریاں بچھاتے رہے ہیں، اور یہ کہ دونوں تنظیموں کے درمیان ہونے والی کشیدگی ان کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ پھر لیاقت بلوچ کو بتایا گیا کہ اسلامی جمعیت طلبہ میں دہشتگرد تنظیم کے افراد گھس آئے ہیں، جو اس تنظیم کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔

کچھ طلبا کے کمروں میں جا کر ان پر تشدد کیا گیا اور ڈرایا دھمکایا کہ وہ یوم حسین ع سے باز آ جائیں۔ ان دنوں اسلامی جمعیت طلبہ اپنے پروگرام طلبہ تقریبات کمیٹی، جبکہ آئی ایس او نے اہل سنت دوستوں سے مل کر اسلامی تقریبات کمیٹی تشکیل دی تھی، جس کے مقاصد میں تھا کہ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم اور یوم حسین علیہ السلام سمیت دیگر تقریبات اس مشترکہ پلیٹ فارم سے منعقد کی جائیں گی۔ لیکن اسے برداشت نہ کیا گیا۔ اور سات محرم الحرام کا یوم حسین ع 25 محرم الحرام کو ہوا، جس میں یہ ناخوشگوار واقعہ ہوا۔

جمعیت نے ناموس صحابہ فورم کے نام سے ہاسٹلوں میں شیعہ مخالف لٹریچر تقسیم کر کے اشتعال انگیزی پیدا کرنے کی کوشش کی اور باور کروانے کی کوشش کی کہ یوم حسین کی تقریب منعقد ہونے سے شاید پنجاب یونیورسٹی میں کوئی زلزلہ آ جائے گا۔ انتظامیہ نے صورتحال کو جانتے ہوئے اس وقت کے وائس چانسلر لیفٹینٹ جنرل (ر) محمد صفدر اور ڈائریکٹر اسٹوڈنٹس افیئرز پروفیسر ڈاکٹر امجد حسین دلاوری نے یونیورسٹی کے زیراہتمام پروگرام کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ جس کے انعقاد کا موقع نہ آیا اور سانحہ پنجاب یونیورسٹی جمعیت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے وقوع پذیر ہو گیا۔

جمعیت کی بربریت صرف یہیں نہیں رکی، گرفتار طلباء کے پریکٹیکل نہیں ہونے دیئے گئے۔ پھر کیا تھا جماعت اسلامی اور تحریک جعفریہ کی قیادت کے درمیان مفاہمت کے نتیجے میں گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان میں آئی ایس او کے کارکن شہید ثقلین تھہیم کے قتل کے ملزمان اور پنجاب یونیورسٹی میں بے گناہ نوجوانوں کو عدالتی عمل کے ذریعے رہائی ملی۔ وہ دوست آج بھی مختلف شعبہ جات میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، اور آج تک انہیں کربلا کی راہ میں دی گئی قربانی پر کبھی پشیمانی نہیں ہوئی۔ بلکہ سابق اسیر امامیہ کہلانے پر فخر کرتے ہیں۔ لیکن جمعیت کو سترہ سال بعد بھی اس واقعہ نے بیٹھنے نہیں دیا اور وہ پہنچ گئے اسے روکنے کے لئے۔ یہی فرق ہے کہ حسینیت کے ساتھ رہ کر سرخرو ہونا ہے یا کربلا کی تحریک کی مخالفت کر کے دنیا اور آخرت کی لعنت لینا۔

جمعیت کے ذمہ داران کا موقف ہے کہ یوم حسین ع پر انہیں اعتراض نہیں۔ جو پوسٹر لگایا گیا تھا اس پر شیعہ طلبا و طالبات لکھا گیا تھا۔ اس سے فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ تو کیا جمعیت نے یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے منظور شدہ پروگرام یوم حسین ع کے مقابلے میں شان صحابہ کانفرنس اسی جگہ رکھ کر فرقہ واریت پھیلانے کی دانستہ کوشش نہیں کی، اور کیا صرف شیعہ کے نام سے فرقہ واریت پھیلتی ہے تو جہاں آپ کو شیعہ نظر آئے وہاں فرقہ واریت پھیلتی ہے۔

میری سمجھ میں یہ بات نہیں آ سکی کہ پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کے لئے آئی ایس او کبھی بھی خطرہ نہیں رہی۔ جمعیت کی تمام دھونس دھاندلی کی آماجگاہ پنجاب یونیورسٹی بنی ہوئی ہے۔ اور یہ جماعت اسلامی اور جمعیت کے لئے بیس کیمپ کے طور پر کام کر رہی ہے۔ آئی ایس او کا مقصد نوجوانوں کی تربیت ہے۔ ہمیشہ امن کا پرچار کیا اور خون دے کر بھی اسلامی تعلیمات کی طرف نوجوانوں کو منظم کیا۔ مگر جمعیت کے مقابلے میں کبھی طلبہ یونینز کے انتخابات میں ایسا موقع نہیں آیا کہ دونوں کا آپس میں مقابلہ ہوا ہو، بلکہ آئی ایس او نے اتحاد کر کے دوسری طلبہ تنظیموں کے ساتھ تعلیمی اداروں میں بہتر ماحول پیدا کرنے کے لئے کام ضرور کیا۔ تو پھر انہیں خطرہ کیا تھا۔ 

لیکن حقیقت یہی ہے کہ یزیدیت کے نمک خوار ان میں موجود ہیں، جو خود کو کربلا والوں کی بجائے ظالموں اور فاسقوں کے ساتھ ملانا چاہتے ہیں۔ تو وہ یوم حسین ع کو کیسے نہ روکتے؟ اب بھی پروگرام یوم حسین ع منعقد تو نہیں ہو سکا۔ لیکن آفرین ہے آئی ایس او کے نوجوانوں پر جنہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے اندر چھپی یزیدیت کو بے نقاب کر دیا ہے اور عزاداری امام حسین علیہ السلام جو تحریک کربلا کا تسلسل ہے اس میں اپنا حصہ ضرور ڈالا ہے۔
خبر کا کوڈ : 125485
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش