0
Thursday 5 Jan 2012 02:25

عراقی رہنماؤں کو کسی نتیجے پر پہنچنا چاہیے؟

عراقی رہنماؤں کو کسی نتیجے پر پہنچنا چاہیے؟
تحریر:زاہد مرتضٰی

 عراق کے موجودہ سیاسی بحران کی جڑیں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان پرانے اختلافات کا نتیجہ ہیں، وہیں امریکی استعمار کے عراق پر نو سالہ قبضے کے دوران نفرتوں اور سازشوں کے بوئے گئے بیج کی نشاندہی کرتا ہے، اعلٰی حکومتی عہدوں کا حصول عراقی سیاستدانوں کے درمیان ہمیشہ جھگڑے کی بنیاد رہا ہے۔ امریکی فوجوں کے عراق سے انخلاء سے اگلے روز وزیراعظم نوری المالکی کی طرف سے عراق کے نائب صدر طارق الہاشی پر یہ الزامات کہ وہ عراقی حکام کی ٹارگٹ کے منصوبے میں ملوث ہیں اور انہوں نے ڈیتھ سکواڈ بنا رکھے ہیں، نے موجودہ بحران میں شدت پیدا کر دی اور تناؤ کو مزید بڑھا دیا ہے۔
 
نوری المالکی کا یہ موقف ان شواہد کی طرف اشارہ تھا جس میں عراقی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار طارق الہاشمی کے محافظوں کو ٹی وی پر اعتراف کرتے ہوئے دکھایا گیا کہ وہ عراقی حکام کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں اور انہیں سرپرستی اور فنڈز کی فراہمی العراقیہ کا رہنما طارق الہاشمی کرتاہے، انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ 28 نومبر 2011ء کو پارلیمنٹ کے سامنے کار بم دھماکے میں ملوث تھے، جس میں متعدد اراکین زخمی ہو گئے تھے۔
 
عراقی حکومت نے اس مقدمے میں وارنٹ گرفتاری جاری کئے تو عراقی نائب صدر اور العراقیہ اتحاد کے رہنما طارق الہاشمی فرار کر کے صوبہ کردستان پہنچ گئے، عراق حکومت، سپریم کورٹ اور سکیورٹی فورسز کے مطالبے کے باوجود کردستان کی صوبائی انتظامیہ نے اسے مرکزی حکومت کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا، اس صورتحال کے بعد جہاں عراق کی سیاسی صورتحال ابتر ہونے لگی وہاں خود العراقیہ اتحاد بھی اختلافات کا شکار ہو گیا، العراقیہ اتحاد کے بعض اراکین کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں طارق الہاشمی اپنے آپ کو عدالت کے سامنے پیش کریں اور وہاں اپنی بے گناہی ثابت کریں، جبکہ العراقیہ کے رہنما اور سابق نائب وزیراعظم صالح المطلق کی سربراہی میں ایک گروپ اس معاملے میں طارق الہاشمی کو مکمل طور پر بے گناہ تصور کرتا ہے۔ 

طارق الہاشمی کی کردستان میں پریس کانفرنس اس بات کا کھلا اظہار تھا کہ وہ امریکہ کے عراق سے چلے جانے کی وجہ سے کتنا افسردہ اور پریشان ہے، اس کا یہ کہنا کہ اگر امریکہ عراق سے نہ جاتا تو ہم اس صورتحال کا شکار نہ ہوتے، افسوس ایسی خواہش عراقی عوام کی آزادی اور وقار کے منافی سوچ کی عکاسی کرتی ہے اور اس بات کا ثبوت بھی فراہم کرتی ہے کہ عراقی حکومت کا موقف حقیقت پر مبنی ہے۔ طارق ہاشمی کے فرار کے دو روز بعد بغداد میں ہونیوالے یکے بعد دیگرے سولہ بم دھماکوں میں 60 افراد کی شہادت نے طارق الہاشمی اور اس کی جماعت العراقیہ کے بھیانک اور مکروہ عزائم عراق کے عوام پر واضح کر دیئے۔ یہ بات بھی آشکار ہو گئی کہ صدام کی باقیات کسی بھی صورت عراق میں شیعہ حکومت کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ طارق الہاشمی اگر اپنے آپ کو بے قصور سمجھتا ہے کہ تو اسے شفاف تحقیقات کے لئے خود کو عدالت کے سپرد کر دینا چاہیئے۔
 
یاد رہے کہ العراقیہ قوم پرست اور سکیولر نظریات کا حامل ایک سیاسی اتحاد ہے، العراقیہ کے امریکہ، برطانیہ اور ان کے خطے میں موجود اتحادیوں سے روابط ڈھکی چھپی بات نہیں، العراقیہ اتحاد کے سربراہ ایاد علاوی امریکہ کے بہت ہی قریب سمجھے جاتے ہیں، حالیہ الیکشن سے انعقاد سے قبل ایاد علاوی نے سعودی عرب میں شاہ عبداللہ سے ملاقات کی، جس میں سعودی شاہ نے عراق کے انتخابات پر اثر انداز ہونے اور العراقیہ کو الیکشن کمپین کے لئے کروڑوں ڈالر کی امداد دی تھی، جس کا مقصد شیعہ اتحاد کا راستہ روکنا تھا، لیکن استعمار اور اس کے حواری اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔
 
العراقیہ اتحاد میں صدام حسین کی بعثی پارٹی کے سابق عہدیداروں اور کارکنوں کی بھی کافی تعداد میں موجود ہیں۔ جو اول دن سے شیعہ حکومت کے خلاف سازشوں میں امریکی کے پہلو بہ پہلو شریک عمل رہے ہیں اور علاقائی حکومتوں کی سرپرستی بھی انہیں حاصل رہی ہے۔ یہ یاد رکھا جائے کہ جب امریکہ نے عراق سے انخلاء کا فیصلہ کیا، اسی دن سے اس گروہ نے عراق میں تشدد اور بم دھماکوں میں اضافہ کر دیا اور سینکڑوں بے گناہ عراقیوں کے خون سے ہاتھ رنگے۔ درحقیقت ان بم دھماکوں کا مقصد امریکہ کو یہ جواز فراہم کرنا تھا کہ وہ عراق کے خراب حالات کے باعث انخلا کا فیصلہ تبدیل کر دے، لیکن مرجعیت، وزیراعظم نوری المالکی اور حکومت کے زبردست دباؤ پر امریکہ عراق سے انخلاء پر مجبور ہو گیا۔ 

ان سب حالات کے باوجود اس بحران کے حل کیلئے عراق کی تمام سیاسی جماعتوں کو کسی ایک متفقہ نتیجے تک پہنچنے کے لئے ایک مذاکراتی ٹیبل پر اکٹھے ہونا چاہیے اور اپنے درمیان پیدا شدہ اختلافات کی شدت کو کم کرنے کیلئے اقدامات کرنا ہونگے۔ قومی یکجہتی کے اس عمل سے ایک ایسا ملک جو امریکی قبضے کے اثرات سے مکمل طور پر باہر نہیں نکل سکا، کے عوام کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ قومی یکجہتی پیدا کرنے کیلئے ہونے والے مذاکرات کسی بھی قسم کے بیرونی اثرات کے بغیر ہونے چاہئیں۔ اگرچہ امریکہ نے 18 دسمبر 2011ء سے عراق سے اپنی افواج کو باہر نکال لیا ہے، لیکن وہ ابھی عراق میں سیاسی عزائم حاصل کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ پس اس صورت میں عراق کی سیاسی قوتوں کو ملکی معاملات میں امریکی مداخلت کے اثرات سے خبردار رہنا چاہیے۔ اس بحران کے موقع پر اختلاف کے خاتمے کیلئے ملکی آئین سے رجوع کرنا، ایک بہت بہتر ذریعہ ہے۔ عراقی عدلیہ اور عراقی حکام کے قتل کی سازش کے الزام کی تحقیقات میں آئین و قانون کو مد نظر رکھنا ہو گا۔
 
عراق ایک کثیر نسلی و کثیر تہذیبوں کا حامل ملک ہے، جس میں سیاسی گروپ اور جماعتیں اقتدار کا بڑا حصہ سمیٹنے کیلئے بہت سختی سے ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی کرتی ہیں، تاکہ سیاسی اسٹرکچر میں زیادہ سے زیادہ قضاوات حاصل کر سکیں۔ چہ جائیکہ سیاسی عناصر کے پاس اس معاملے کو حل کرنے بعد دوبارہ اکٹھے ہونے کے حوالے سے بہت محدود مواقع موجود ہیں۔ پچھلے چند برسوں کی طرح ایک سنجیدہ کوشش عراقی حکومت اور ملک کی سیاسی جماعتوں کیلئے ایک بڑی اور اہم کامیابی کے نتائج پر منتج ہو سکتی ہے۔ امریکی افواج کے انخلا کے بعد عراق سکیورٹی، سیاسی آزادی اور خود مختاری کے حصول کی سنجیدہ کیفیت سے گزر رہا ہے، پس عدم اتفاق کا اظہار بحران کو مزید گہرا کر سکتا ہے۔ ملک کے کمزور اتحاد کو بڑا دھچکا پہنچا سکتا ہے۔ 

تاریخی طور پر عدم تعاون کی پالیسی کے باعث عراق کا سیاسی نظام بہت سے مسائل کا شکار رہا ہے۔ مثال کے طور پر پچھلے سال، عراقی حکومت کے قیام نے 8 ماہ سے زائد کا عرصہ لے لیا اور یہ صورتحال سنجیدہ سیاسی اختلافات اور تفاوت کا نتیجہ تھا۔ یہاں تک کہ جب حکومت کی تشکیل کا کام مکمل ہو گیا، بہت سے تجزیہ نگاروں اور ماہرین نے خبردار کیا کہ عراق کے سیاسی گروپس اور جماعتیں جس اتفاق رائے پر پہنچی ہیں، بہت نازک اور کمزور ہے اور حکومت کو مستقبل میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 

موجودہ سیاسی صورتحال انہیں قدیم اور پرانے اختلافات کی ایک جھلک ہے۔ تاہم امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد عراقی عوام اور حکومت کے پاس ایک سنہری موقع ہے کہ وہ 8 سالہ قبضے کے بعد حقیقی آزادی سے بہرہ مند ہو سکیں۔ دوسرے الفاظ میں عراق کی آزادی دوبارہ حاصل کی جا سکتی ہے، اگر سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کو ترک کر دیں۔ اگر عراق کے سیاسی گروپ پرامن بقائے باہمی اور تعاون کی پالیسی اختیار کر لیں تو اس سے مفاہمتی عمل کیلئے آسانیاں پیدا ہونگی۔ مغرب اور اس کے علاقے میں ان کے حواریوں کی کینہ پرور سازشوں کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔
 
توقع ہے عراقی حکومت قومی سطح پر ایک ڈائیلاگ شروع کرنے پر توجہ دے گی۔ جس سے سیاسی اور مذہبی گروپوں کے درمیان تعاون اور برداشت میں اضافہ پیدا کیا جاسکے۔ عراقی وزیراعظم نوری المالکی اور صدر جلال طالبانی دونوں اس تلخ موڑ پر قوم کو مذاکرات کی طرف لانے میں اپنا کردار ادا کریں، یہ اختلافات کو ایک طرف رکھنے اور سیاسی بقائے باہمی پر عمل کرنے کا وقت ہے۔ ایک ایسا لمحہ جب خطہ عرب میں عوامی بیداری کی لہر اپنے پورے جوبن پر ہے اور بڑی بڑی آمریتیں اپنے انجام کو پہنچ چکی ہیں اور کئی ایک اس لہر کے نشانے پر ہیں، امریکہ، اسرائیل، یورپ اور اسکے علاقائی اتحادی اپنے مفادات کو لاحق سنگین خطرات کا توڑ کرنے میں سازشی ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں، ایک مضبوط، متحد اور منظم عراق خطے میں جاری امریکی سازشوں کے سامنے بند باندھ سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 127720
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش