1
0
Wednesday 7 Mar 2012 01:53

آخری دن

آخری دن
تحریر: ثمر بلتستانی

 سات مارچ گلگت بلتستان کی عوام کو وزیر داخلہ اور وزیراعلٰی گلگت بلتستان کی جانب سے مطالبات پورے کرنے کے لئے دی گئی ڈیڈ لائن کا آخری دن ہے، ان دو حکومتی شخصیات نے وعدہ کیا تھا کہ سات دنوں میں ان مطالبات پر عملی اقدامات اٹھائے جائینگے، جبکہ اب اس ڈیڈ لائن کے صرف چوبیس گھنٹے سے بھی رہ گئے ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک مطالبہ پر بھی معمولی سے جنبش بھی نظر نہیں آ رہی، دوسری جانب گلگت بلتستان کی مقامی انتظامیہ کے ایک وفد نے پہلے بلتستان میں عمائدین سے ملاقات کی اور انہیں اپنے نقطہ نظر پر قائل کرنا چاہا، جس پر وہاں کے عمائدین نے ان پر واضح کر دیا کہ جن مطالبات پر گلگت میں اتفاق ہو چکا ہے اس پر عمل درآمد ضروری ہے، یہ وفد گلگت چلا آیا اور سنے میں آیا ہے کہ وہاں پر بھی اسے کامیابی نہیں ملی اور اس وقت عوام مرحلہ وار پرامن احتجاج کے لئے خود کو تیار کر رہے ہیں اور ان ممکنہ تمام آپشن پر غور ہو رہا ہے، جس سے وہ اپنے مطالبات حاصل کر سکیں۔ 

یہاں اس بات کا بھی تذکرہ ضروری ہے کہ گذشتہ ایک ہفتے میں سانحہ کوہستان کے بعد کئی لاکھ افراد نے گلگت بلتستان میں احتجاج کیا اور اس احتجاج کے دوران عوام اس قدر پرامن تھی کہ کہیں پر ایک پتہ بھی نہیں ٹوٹا، جبکہ دوسری جانب ریاستی اور ریاست کے فرینڈز کی جانب سے اشتعال انگیزی کی مسلسل کوشش رہی ہیں، جیسے جنازے کے جلوس پر فائرنگ سے مزید ایک انیس سالہ بے گناہ کی شہادت، تعزیتی ریلی پر فائرنگ، اسلحے سے بھری گاڑی کا پکڑا جانا اور پہلے ریاستی اداروں کی کوشش کہ اس گاڑی کو وہاں کے مظلوم اہل تشیع سے منسوب کیا جائے، جیسی مثالیں موجود ہیں، جس سے واضح طور پر سمجھا جا سکتا ہے کہ حکومت اور اس کے ادارے عوامی مطالبات کو نہ صرف پورا نہیں کرنا چاہتے بلکہ حالات کو ایسے رخ پر لے جانا چاہتے ہیں کہ جس کی آڑ میں امن و امان کا بہانہ بنا کر لاٹھی ڈنڈے اور گولی کی پالیسی اپنائی جائے۔
 
اس وقت گلگت بلتستان کی عوام اپنے عزیزوں کی انیس لاشیں اٹھانے کے باوجود انتہائی پرامن ہیں اور مکمل سولائیز اور جمہوری انداز سے احتجاج کر رہے ہیں، جبکہ ملک بھر میں ہونے والے احتجاج بھی انتہائی پرامن رہے ہیں، اسی طرح اس واقعے پر ملک سے باہر بھی احتجاج ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر مطالبات میں ایسی کونسی سی چیز ہے کہ ریاست کے لئے عمل درآمد میں مشکل پیش آ رہی ہے۔؟ 

پہلا مطالبہ:
قاتلوں کو پکڑا جائے، سانحہ کوہستان کے مجرم کوئی نامعلوم افراد نہیں بلکہ مجرموں کو بس کے دیگر مسافرین اور زخمیوں نے مکمل طور پر پہچان لیا ہے اور ان کی مکمل شناخت ذمہ دار افراد کو دی ہے، ایسے میں قاتلوں کا نہ پکڑا جانا عوام میں ریاست اور ریاستی اداروں کے بارے میں پہلے موجود شکوک اور بے اعتمادی کو مزید گہرا کرتی ہے۔
دوسرا مطالبہ:
شہیدوں اور زخمیوں کی مالی امداد اور مراعات، ایک سیٹ کی خاطر کروڑوں روپے بانٹنے والوں کے لئے یہ بھی کوئی مشکل کام نظر نہیں آتا۔
تیسرا مطالبہ:
متبادلہ راستہ، جس کے دو آپشن ہیں اور یہ دونوں آپشن زمینی راستے کو محفوظ بنانا یا متبادل زمینی راستے دینا، جبکہ فضائی راستے میں بہتری پیدا کرنا، جیسے ایسے آلات کی تنصیب جس سے خراب موسمی حالات میں بھی پرواز ہو سکے، نیز پی آئی اے کے کرایے میں کمی۔ یہ دونوں مطالبات صرف اس واقعے سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ یہ مطالبات کافی پرانے اور پہلے سے چلے آ رہے ہیں اور نہ ہی ان مطالبات میں کوئی ایسی خاص پیچیدگی نظر آتی ہے کہ جیسے پورا نہ کیا جا سکے۔
بلکہ متبادل زمینی راستے سے نہ صرف اس خطے کی عوام کا فائدہ ہو گا بلکہ رفت و آمد اور امپورٹ ایکسپورٹ میں بھی یہ راستے انتہائی مفید ثابت ہونگے، خاص طور پر چائنہ ٹریڈ کے حوالے یہ ایک انقلابی قدم ہو گا، اگرچہ شنید ہے کہ چائنہ ٹریڈ کے لئے مصنوعی روکاوٹیں کھڑی کی جا رہیں ہیں جس کی ایک مثال عطاآباد مصنوعی جھیل کی ہے۔
 
مندرجہ بالا تمام مطالبات میں ہمیں کہیں پر بھی کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی کہ کہا جا سکے یہ ایسے مطالبات ہیں جس سے وہ بو آ رہی ہے، جسے ہم بلوچستان میں محسوس کر رہے ہیں ،پھر آخر کیوں ریاست اور ریاستی ادارے گلگت بلتستان کے بارے میں بلوچستان والی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہیں؟ کیوں آخر ایک مکتب فکر کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ کیا ان ناپاک کوششوں کے پیچھے ایسے افراد اور ایسی سوچ کارفرما ہے جو خدا نہ کرے ایک نئے بلوچستان کو جنم دینا چاہتی ہے؟ یا پھر علاقائی اور عقیدتی تقسیم چاہتی ہے۔؟
 
ملک کے معروف ٹی وی اینکر اور کالم نگار حامد میر صاحب کے جنگ اخبار میں چھپنے والے انتہائی حقیقت پسندانہ آرٹیکل کو پڑھنے کے بعد ہر محب وطن پاکستان لرز اٹھتا ہے کہ آخر اس ملک کے دشمن ریاست اور ریاستی اداروں میں ہی موجود ہیں اور ان کی خبر لینے والا کوئی نہیں۔؟ کہا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان سے ہر ماہ ریاستی ادارے ایسی بوگس رپورٹس ارسال کرتے ہیں جس سے مرکزی ریاستی اداروں میں انتہائی منفی سوچ پیدا ہو جائے، کہیں اس خطے کے بارے میں ریاستی پالیسی ان بوگس رپورٹوں کی بنیاد پر تو تشکیل نہیں دی جاتی۔؟ اللہ کرے کہ یہ بات سچ نہ ہو اور خاکم بدہن اگر یہ حقیقت ہو تو پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ بقول میر صاحب ایک دوسرے بلوچستان کی تیاریاں کی جا رہیں ہیں۔ 

اس وقت گلگت بلتستان کی عوام کے ساتھ ساتھ پورے ملک اور ملک سے باہر عوام میں انتہائی بے چینی پائی جاتی ہے کہ حکومت سانحہ کوہستان کے بارے میں کیا کرتی ہے، جبکہ گلگت بلتستان کی عوام اپنے سامنے سوائے ایک زبردست احتجاج کے کوئی آپشن نہیں دیکھ رہی، ایک ایسا احتجاج کہ جس کی انتہاء سول نافرمانی تک جا پہنچے، جو موجودہ ملکی اور علاقائی حالات میں کسی بھی طور حکومت کے لئے سودمند نہیں، لیکن عوام کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ بھی نہیں، کیونکہ یہ وہ راستہ ہے جو خود حکومت اور اس کے اداروں نے ہی دیکھایا ہے۔
خبر کا کوڈ : 143546
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United Kingdom
Excellent Article. Such more articles are needed. Can I pl have the e mail of Mr Samar Baltistani

Regards

ahsan abbas shah birmingham
ہماری پیشکش