0
Saturday 31 Mar 2012 22:39

شام کے مسئلے کا حل اور کوفی عنان کی تجاویز

شام کے مسئلے کا حل اور کوفی عنان کی تجاویز
تحریر: ہما مرتضٰی 
 
 مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کی لہر جاری ہے۔ تیونس، مصر، لیبیا، بحرین اور یمن کے علاوہ شام بھی اس کی زد میں آ گیا ہے یا لایا جا رہا ہے۔ ہر ملک میں یہ تبدیلیاں ملک کے اندر سے شروع ہوئی ہیں لیکن شام میں تبدیلیوں کی یہ آواز باہر سے سنائی دے رہی ہے اور اس وقت شام میں جو بھی خانہ جنگی برپا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ بیشتر بیرونی مداخلت کا نتیجہ ہے۔ ان ممالک میں امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے علاوہ خطے کی رجعت پسند قوتیں پیش پیش ہیں۔ خاص طور پر سعودی عرب اور قطر اس سلسلے میں امریکا و اسرائیل کے ساتھ مل کر سرگرم عمل ہے۔
 
لبنان کی حزب توحید کے سربراہ ویام وہاب نے کہا ہے کہ ان کے پاس ایسے ثبوت اور شواہد موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سامپا نامی کمپنی نے سعودی شہزادے ترکی بن عبدالعزیز کے دستخط سے حکومت شام کے مخالفین کو رقومات دی ہیں۔ ویام وہاب نے این بی سی ٹیلی ویژن کو انٹرویو کے دوران ایک چیک کی کاپی پیش کی، جو گذشتہ برس جون کی 23 تاریخ کو کاٹا گیا تھا اس پر تین لاکھ ڈالر کی رقم لکھی ہوئی تھی۔ یہ چیک لبنان کی پارلیمنٹ میں المستقبل فریکشن کے رکن جمال الجراح کے نام جاری کیا گیا تھا جو شام اور حزب اللہ کے کٹر دشمنوں میں شمار ہوتے ہیں۔
 
اس سے قبل وکی لیکس نے بعض ایسی دستاویزات اپنی ویب سائٹ پر جاری کیں، جن میں انکشاف کیا گیا کہ لبنان کے دولت مند تاجر اور سابق وزیراعظم سعد حریری، سعودی شہزادے ترکی الفصیل اور بندر بن سلطان نے شام میں بدامنی کا منصوبہ بنا کر امریکا کو دیا اور اس منصوبے کے لیے 60 فیصد اخراجات کا بندوبست سعد حریری اور سعودی شہزادوں نے اپنے ذمہ لے لیا اور وہی اپنا حصہ اس وقت فراہم کر رہے ہیں جبکہ 40فیصد اخراجات امریکا فراہم کر رہا ہے۔
 
یاد رہے کہ قبل ازیں سعد حریری اپنے باپ کے قتل کیس کے حوالے سے بھی امریکا کے مفادات کے لیے کام کرتا رہا ہے۔ امریکا نے اسی کے ایما اور تعاون پر رفیق حریری کے قتل کا الزام پہلے شام پر لگایا تھا۔ اس سلسلے میں امریکا جب ایک حد تک اپنے مفادات پورے کر چکا تو سعد حریری کو لبنان میں وزارت عظمٰی کے حصول کے لیے حزب اللہ کے تعاون کی ضرورت پڑ گئی۔ یہ وہ موقع تھا جب سعد حریری نے غلط الزامات لگانے پر شام سے معذرت بھی کی تھی لیکن پھر امریکی مفادات کا کھلونا بن جانے کی وجہ سے جب حزب اللہ نے تعاون کا ہاتھ کھینچ لیا تو اسے وزارت عظمٰی سے ہاتھ دھونا پڑے۔ بعد میں امریکی اور اسرائیلی مقاصد کے تحت رفیق حریری کے قتل کا الزام حزب اللہ پر لگایا گیا۔ یہی وہ سعد حریری ہے جس نے سعودی عرب کے ساتھ مل کر شریف برادران کی پاکستان سے سعودی عرب منتقلی کے لیے ضامن کا کردار بھی ادا کیا تھا۔
 
یہ سب کرنے میں امریکا کا مفاد صرف اپنی ناجائز اولاد اسرائیل کی بقاء ہے کیونکہ مصر سے بھی امریکا نواز حکومت ختم ہو چکی ہے۔ اگرچہ مصر پر مسلط فوجی جنتا سے اب بھی امریکا اور اسرائیل کو بہت سی امیدیں وابستہ ہیں، تاہم وہاں جو ایک حد تک تبدیلیاں آئی ہیں اس کی وجہ سے اسرائیل پر خاصا دباﺅ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اسرائیل اور اس کے سرپرست مل کر شام میں اپنی مرضی کی تبدیلی لانے کے درپے ہیں، کیونکہ اسرائیل کو لبنان اور شام سے پہلے ہی بہت خطرہ لاحق ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ اس وقت مشرق وسطٰی میں شام ہی ایک ایسی فوجی قوت ہے جس سے اسرائیل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ 

مشرق وسطٰی کی امریکی پالیسی کا محور اسرائیل کو اس خطے کی ایسی واحد طاقت بنانا ہے جس کی طرف کوئی عرب ملک آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھ سکے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ شام میں کوئی ایسی حکومت برسراقتدار آ جائے جیسی اس وقت اردن یا سعودی عرب وغیرہ میں موجود ہے۔ خطے میں شام فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت کا سب سے بڑا حامی ہے اور اسرائیل کا مخالف۔ امریکا کئی برسوں سے کوشش کر رہا ہے کہ شام کو اپنی سیاست سے ہم آہنگ کر لے اور شام کو اس بات پر تیار کر لے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر لے اور فلسطین کی تحریک مزاحمت کی مدد سے ہاتھ کھینچ لے۔ اسرائیل اس کے عوض اپنے زیر قبضہ شام کا وہ پہاڑی علاقہ جسے جولان کہتے ہیں واپس دینے کے لیے تیار ہے، جس پر اس نے 1967ء میں قبضہ کر لیا تھا۔ لیکن شام فلسطینیوں کی حمایت کے بارے میں اپنے موقف سے کسی صورت پیچھے ہٹنے کے لیے راضی نہیں۔ شام کے بشارالا سد اور آل سعود میں بہت فرق ہے۔
 
امریکا، اسرائیل اور سعودی عرب نے عرب ممالک میں جاری عوامی انقلابی اٹھان کا فائدہ اٹھا کر اس کا رخ شام کی طرف موڑنے کی سازش شروع کر رکھی ہے، ورنہ کون نہیں جانتا کہ امریکا، اسرائیل، سعودی عرب اور قطر کو عوامی انقلاب اور جمہوریت سے کتنا سروکار ہے۔ یہی قوتیں بحرین میں عوامی انقلاب کو دبانے کے درپے ہیں جبکہ شام میں نام نہاد انقلاب لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ جو حکمران اپنے ملک میں لوگوں کو آزادی رائے اور جمہوری حقوق دینے کے لیے تیار نہیں وہ شام کے عوام کے جمہوری حقوق کے لیے بہت بے تاب ہوئے جا رہے ہیں۔
 
شامی حکومت اب تک اپنے بعض سرحدی شہروں سے کئی سعودی اور غیر ملکی دہشتگردوں کو ہتھیاروں سمیت گرفتار کر کے میڈیا کے سامنے پیش کر چکی ہے۔ خود دہشتگرد گروہ نے ٹی وی پر اعتراف کیا ہے کہ امریکا اور سعودی عرب کے مشترکہ منصوبے کو شام میں عملی جامہ پہنانے کے لیے شام کے سرحدی قصبے درعا سے انھوں نے تشدد کا آغاز کیا۔ امریکا اور امریکا نواز عرب ممالک شام میں رونما ہونے والے واقعات کو اس طرح سے بڑھا چڑھا کر میڈیا پر پیش کر رہے ہیں کہ گویا شامی حکومت اپنے بے گناہ معصوم شہریوں کے مطالبات پورے کرنے کی جگہ ان کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔
 
بحرین میں تو عوام کی آواز کو قتل وغارت کے ذریعے دبانے کے لیے خود سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کی افواج سرگرم عمل ہیں اور وہاں آل خلیفہ کی استبدادی اور شاہی حکومت کے تحفظ کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے، جبکہ شام کے صدر کے خلاف سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی گئی کہ وہ اقتدار سے الگ ہو جائیں اور اپنے نائب کو اقتدار منتقل کر دیں، تاکہ وہاں امریکا اور اسرائیل نواز انتخابات ہوں اور ان کے مفاد کا تحفظ کرنے والی حکومت برسراقتدر آسکے، لیکن روس اور چین نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ وہ شام کے داخلی تنازعے میں مداخلت کے خلاف ہیں۔ شام کے خلاف اقوام متحدہ کی پہلی دو قراردادیں بھی چین اور خصوصاً روس کی مخالفت کی وجہ سے منظور نہ ہو سکیں۔ روسی سفیر برائے اقوام متحدہ ویتالی چُرکن نے کہا کہ سلامتی کونسل شام کے قومی و سیاسی عمل کے بارے میں کوئی تیارہ شدہ منصوبہ مسلط نہیں کر سکتی۔
 
اب اس سلسلے میں امریکا نے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے مشترکہ سفیر کوفی عنان کو اس منصوبے میں شامل کیا ہے کہ وہ شام کے حمایتی اور مخالف ملکوں کا دورہ کر کے انھیں قائل کریں، اس طرح کے ہر حال میں امریکا کا مفاد پیش نظر رہے۔ اس سلسلے میں کوفی عنان امن کے سفیر بن کر مختلف ملکوں کے دوروں پر روانہ ہوئے۔ انھوں نے چین کے دارالحکومت بیجنگ میں چینی وزیراعظم وین جیاباﺅ سے بات کرتے ہوئے ان سے کہا کہ وہ شام میں قیام امن کے لیے ان کے منصوبے کی حمایت کریں، وہ یہ کام خود سے نہیں کر سکتے، انھیں چین کی حمایت درکار ہے۔ وزیراعظم نے جواب میں کہا کہ صورتحال ایک نازک موڑ پر ہے۔ 

ظاہر ہے کہ جب کوفی عنان خطے کے ایران سمیت تمام اہم ملکوں کی رائے کو پیش نظر رکھ کے نیز امریکا اور روس کا نقطہ نظر بھی شامل کر کے کوئی منصوبہ پیش کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ مثبت نتائج سامنے آئیں۔ دوسری طرف روس نے بھی کوفی عنان کے اس مشن کی حمایت کی ہے۔ کوفی عنان کی طرف سے ابھی تک جو منصوبہ سامنے آیا ہے اس کے تحت شام میں قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کی سربراہی میں جنگ بندی کا قیام عمل میں لا کر سیاسی بات چیت کا آغاز کیا جائے گا۔
 
کوفی عنان نے اس سلسلے میں شامی صدر بشارالاسد سے بھی ملاقات کی، ملاقات کے بعد انھوں نے کہا کہ ہماری بات چیت فوری طور پر تشدد اور ہلاکتوں کو روکنے، امدادی تنظیموں کو رسائی دینے اور سیاسی عمل شروع کرنے جیسے بنیادی مقاصد کے لیے ہے۔ کوفی عنان نے کہا کہ انھوں نے شامی صدر پر زور دیا ہے کہ وہ تبدیلیوں اور اصلاحات کو منظور کریں۔ اس سلسلے میں شامی حکومت پہلے ہی متعدد اقدامات کا اعلان کر چکی ہے۔ کوفی عنان سعودی عرب اور قطر کے حکمرانوں سے بھی بات چیت کر رہے ہیں۔ وہ بہت جلد ایران بھی جانے والے ہیں۔
 
توقع کرنی چاہیے کہ اگر شام کے عوام کے مفادات کو سامنے رکھ کر کوئی منصوبہ تیار کیا گیا تو یقینی طور پر خطے کی دیگر ممالک کے عوام سے ہم آہنگ ہی کوئی نتیجہ نکلے گا اور پوری دنیا جانتی ہے کہ خطے کے عوام اسرائیل کے وجود کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ شام کے عوام کسی طور ایسے افراد کو حق حکمرانی نہیں دیں گے جو ان کے مفادات کے بجائے صہیونی مفادات پورے کرنے کے لیے سرگرم عمل ہوں۔
خبر کا کوڈ : 149304
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش