0
Friday 15 Jun 2012 00:29

ارسلان اسکینڈل

ارسلان اسکینڈل
 تحریر: جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم
 
اس میں شک نہیں کہ والدین اور اولاد کا رشتہ بہت ہی پاکیزہ ہوتا ہے۔ والدین اولاد کیلئے کیا کچھ نہیں کرتے۔ مائیں کمزور بھی ہوں تو بچوں کو دودھ پلاتی ہیں، بیمار بھی ہوں تو بچوں کی حفاظت کیلئے اُن کے پیچھے بھاگتی ہیں۔ والد ہر حالت میں بچوں کو اعلٰی ترین تعلیم کے زیور سے مزین کرنا چاہتا ہے۔ والدین چاہتے ہیں کہ اُن کی اولاد صحت مند رہے، اچھے سے اچھا لباس پہنے، مالی لحاظ سے خوشحال ہوں اور والدین کی زندگیوں میں ہی ایک ہنستا مسکراتا کنبہ بن کر ابھریں۔ والدین اپنا جسم نوچ کر بھی اپنی اولاد کو ہر حال میں مطمئن اور خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے اولاد کیلئے یہ مشقت صرف انسانی دلوں میں نہیں ڈالی بلکہ گائے، بھینس، ہرن جیسے جانور بھی اپنے بچوں کو بھیڑیوں اور شیروں کی یلغار سے بچاتے بچاتے اپنی جان نثار کر دیتے ہیں۔
 
دوسری طرف مشرقی اور خصوصاً مسلمان معاشرے میں اولاد بھی اپنے والدین کا بےحد احترام کرتی ہے۔ ہمارا یہ ایمان ہے کہ والدین کی خدمت کرنے اور اُن کو خوش رکھنے سے گھر میں برکت آتی ہے۔، رحمت کی بارش ہوتی ہے چونکہ اللہ تعالٰی کی نگاہ میں یہ ایک نہایت پسندیدہ عمل ہے۔ 1985ء سے1987ء تک جب میں بطور لیفٹینٹ کرنل سعودی عرب میں تعینات تھا تو وہاں کی انگریزی اخبار عرب نیوز میں کسی شخص نے کسی عالم سے اس بات کی وضاحت مانگی کہ اس کی محدود آمدنی ہے، پانچ بچے ہیں اور ماں باپ کا بھی اس کے بغیر سہارہ کوئی نہیں۔ سوالی نے کہا میری آمدنی اتنی محدود ہے کہ بیوی اور اولاد کی ضروریات پوری کرنے کے بعد میری پاس والدین کی دیکھ بھال کیلئے کچھ نہیں بچتا، تو ایسی صورت میں اسلامی تعلیمات کیا کہتی ہیں۔
 
عالم نے جواب میں کہا کہ آپ کا سوال غلط ہے، اس کو ٹھیک کرلو۔ آپ کو کہنا یہ چاہیے تھا کہ محدود وسائل سے میں صرف والدین کی دیکھ بھال کر سکتا ہوں، میرے پاس بیوی اور اولاد کیلئے کچھ نہیں بچتا۔ چونکہ اللہ کی نگاہ میں والدین کو اولاد پر ترجیح ہے۔ قارئین میرے والد مرحوم 92ء سال کی عمر میں میرے ہاتھوں میں اللہ کو پیار ہوئے اس وقت میں واہ فیکٹریز کا چیئرمین تھا۔ جس کمرے میں والد صاحب نے زندگی کے آخری پندرہ سال بیماری کی حالت میں گذارے، اس کمرے کو ہم رحمت کا کونہ سمجھتے تھے۔ اُن کی بات کو ٹوکنا تو دور کی بات ہے، ہم کوئی ایسی بات بھی نہ کہتے جو اُن کے دل پر ناگوار گذرے، چونکہ یہی اللہ کا حکم ہے۔
 
قارئین اِن حقائق کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک شرم ناک حقیقت ہے کہ کئی بچے بلوغت کو پہنچ کر نافرمانی پر اتر آتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اپنے والدین کے والدین اور اُن سے زیادہ عقلمند اور زمانہ شناس سمجھتے ہیں۔ کمزور والدین اُن کا دفاع کرتے ہیں اور چوہدری افتخار جیسے اُن کو عدالت میں لے آتے ہیں۔ ایسی خودسر اولاد کے نصیب میں تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ میرے ایک نہایت قابلِ احترام دوست کے جرائم پیشہ باغی بیٹے نے اپنے والد محترم کو کہا کہ آپ پشاور جا رہے ہیں، آپ میری کار چلا کر لے جائیں وہاں پر ایک دوست آپ کو ملے گا آپ یہ کار اس کو دے دیں اور واپسی پر بس پر آجانا۔ 

والد صاحب گاڑی چلا کر جا رہے ہیں تو راستے میں پولیس کی چیکنگ پر پتہ چلا کہ گاڑی کہیں سے چوری کی گئی تھی۔ بزرگ والد جب تھانے میں پہنچے اور اپنے بیٹے کا نام بتایا تو بیٹے نے ٹیلی فون پر غصہ کیا کہ میرا نام نہیں بتانا تھا اب FIR آپ کی بجائے میرے خلاف کٹے گی۔ نیپال کے شہزادے Dipendra نے یکم جون 2001ء کو شاہی محل کے اندر اپنے باپ، ماں اور سات دوسرے بہن بھائیوں کو قتل کر دیا۔ مغل بادشاہوں اورنگ زیب نے 1666ء میں نہ صرف اپنے بھائی قتل کئے اور اپنے والد شاہ جہان کو آگرہ کے قلعے میں بند کر دیا، بلکہ باپ کی وفات پر کوئی سرکاری سطح پر جنازہ کی اجازت بھی نہ دی۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ارسلان سکینڈل سے متعلق میری مندرجہ ذیل گذارشات ہیں۔
 
(1) عدالت میں کھڑے ہو کر اگر ریاض ملک نے جناب افتحار محمد چوہدری پر کوئی الزام نہیں لگایا اور یہ اقرار بھی کیا کہ ارسلان پر 40کروڑ لگانے کے باوجود عدالت سے کوئی ریلیف نہیں ملی تو افتخار چوہدری سرخرو ہوگئے اور بلیک میلروں کا منصوبہ back fire کر گیا۔ اگر مقصد عدلیہ کو تباہ کرنے کی بجائے اپنے مقدمات کا اپنے حق میں فیصلہ لینا ہوتا تو تین ججوں کے پینل میں کم از کم دو ججوں کو خریدنے کی کوشش کی جاتی۔
 
(2) ارسلان خواہ ٹریپ ہوا یا نہیں، اتنے اہم عہدے پر فائز والد کے اہل خانہ کے کندھوں پر ایک بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ کنبے کے سربراہ کی شہرت پر بدنماداغ نہ بنیں۔ مالدار اور امیر ترین مومن کیلئے بھی سادگی کی زندگی بسر کرنے کی ہدایت ہے۔ عیاشی کی زندگی، بڑے ہوٹلوں، بڑی کاروں، شراب اور آوارہ عورتوں کے رسیا زیادہ تر اپنی زندگی میں ہی اپنی کوتاہیوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اگر عدالت میں یہ ثابت ہو جائے کہ ارسلان واقعی ناجائز فوائد حاصل کرنے کا مرتکب ہوا تو اس کو پابند سلاسل کر دیا جائے، لیکن قانون اور انصاف کے تقاضے پورے ہونے چاہئیں۔
 
(3) مقدمات کو اپنی منشاء کے مطابق حل کروانے کے متمنی اگر 40کروڑ روپے لگانے کا اقرار کرتے ہیں تو یہ بھی دراصل اقبالِ جرم ہے۔ اِن حضرات سے یہ بھی پوچھا جائے کہ بحریہ ٹاون کے وجود میں آنے سے لیکر اب تک انہوں نے پلاٹ، کوٹھیاں، کاریں اور رشوت کس کس کو دیں اور کیوں؟ ریاض ملک صاحب اگر قرآنِ کریم سر پر رکھے بغیر صرف ثبوت کے ساتھ یہ ڈیٹا عدالت کے آگے رکھ دیں تو یہ اُن کا قوم پر بہت بڑا احسان ہوگا۔ 

(4) اگر ریاض ملک یہ کہتے ہیں کہ میرا پراجیکٹ فیل ہوا تو جوابدہ سپریم کورٹ ہوگی، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈی ایچ اے کے 62 ارب روپے بھی وہ ہڑپ کرسکتے ہیں، جو پرجیکٹس کیلئے دیئے گئے ہیں۔
 
(5) کچھ لوگوں کا اعتراض ہے کہ اگر ارسلان عیاشی کی زندگی بسر کر رہا تھا تو باپ کیوں بے خبر تھا اور اس نے کیوں نہ روکا۔ کچھ لوگ اس کو پدرانہ رہنمائی میں کوتاہی کہہ رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ قابل افسوس ہے، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ صبح سے رات گئے تک کام کرنے والے چیف جسٹس جس نے ہر محاذ پر حق کی آواز بلند کی، ریاستی معاملات میں اتنے گہرے گم رہے کہ وہ خاندانی معاملات کی طرف دھیان ہی نہ دے سکے، یا پھر بالغ باغی بیٹے نے حقائق باپ سے چھپائے اور والد کی نصیحتوں کو پس پشت ڈال دیا۔ 
دوسری بات یہ ہے کہ بیٹے یا بیٹی کے جرم کی سزا باپ کو نہیں مل سکتی، ورنہ ہمارے پیارے نبی ص اپنی بیٹی کے ہاتھ کاٹنے کی بات نہ کرتے۔ اگر عدالت میں یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ چیف جسٹس کی ذات اس رشوت سے مستفید نہیں ہوئی تو پھر پدرانہ رہنمائی والے معاملے پر ہم شک کا فائدہ (Benefit of doubt) چیف صاحب کو دے سکتے ہیں۔ لیکن اگر چیف جج کے خلاف ریفرنس تیار ہو رہا ہے اور ریاض ملک کہہ رہے ہیں کہ میں عدالت کو نہیں مانتا تو پھر ظاہر ہے یہ منصوبہ عدلیہ کو تباہ کرنے کا ہے۔
 
(6) ایک سپاہی کی حیثیت سے میرا یہ ایمان ہے کہ فوج کا ادارہ اس گھٹیا کھیل میں حصہ دار نہیں ہو سکتا۔ چونکہ اس نازک ترین دور میں جب چوٹی کی سیاسی قیادت پر ہر طرح کی کرپشن کے الزامات ہیں، کوئی بھی محب وطن شخص عدلیہ کو کمزور نہیں کرنا چاہیے گا۔ چھوٹے عہدوں پر معمور کچھ عاقبت نااندیش کھلاڑی اگر اس منفی کھیل میں ملوث ہیں تو ادارہ اُن کو کیفردار پر پہنچائے۔ مجھے اس میں شک نہیں کہ ذمہ دار عسکری قیادت اسے ملک دشمنی تصور کرے گی۔
 
ارسلان اور اس جیسے دوسرے نوجوان یہ بات پلّے باندھ لیں کہ اس دنیا میں والدین کے علاوہ کوئی دوسرا شخص آپ کیلئے فری لنچ کا بندوبست نہیں کر سکتا اور خصوصاً جائز و ناجائز طریقوں سے مال و دولت اکٹھا کرنے والے کاروباری لوگ تو ایک روپیہ وہاں لگائیں گے، جہاں سے ایک روپیہ چار آنے واپس آنے کی توقع ہوگی۔ میں نے اپنی چالیس سالہ نوکری میں تجربہ کیا کہ بڑے بڑے کاروباری لوگ اپنے مفادات کی خاطر آپ کی تعریفیں کرتے ہیں اور آپ کو بغیر مانگے مراعات دینے کی بات کرتے ہیں ایسے موقوں پر صرف ماں باپ کی دعائیں اور اللہ کا کرم آپ کی حفاظت کرتا ہے۔ 

سٹیل ملز کے چیئرمین کی حیثیت میں، جب ایک ارب پتی ٹائی کون نے دس ٹن LPG کے کوٹے کے کاغذات میرے کہے بغیر میرے میز پر رکھے تو میں نے یہ سوچتے ہوئے کہ یہ پیشکش مسترد کر دی کہ سرکاری عہدے پر فائز لوگوں کیلئے ایسی مراعات دراصل رشوت اور مالِ حرام ہوگا، خصوصا ایسی صورت میں جب سٹیل ملز اس کاروباری کیلئے ایل پی جی کے سلینڈرز بنا رہی تھی، لیکن نوکری سے سبکدوشی کے بعد جب میں نے متعلقہ ایل پی جی کمپنی کے عہدہ داروں سے پوچھا کہ اب میں وہ درخواست کہاں جمع کراؤں تو میرے آگے پیچھے دوڑنے والے ارب پتی نے میری توقعات کے عین مطابق ٹیلی فون کال کا جواب دینا بھی موزوں نہ سمجھا، چونکہ یہ لوگ چڑھتے سورج کے پجاری ہیں۔
 
ارب پتیوں کو یہ نہیں پتہ کہ ان کے کاروبار بھی زوال پذیر ہو سکتے ہیں۔ تعلیم یافتہ بل گیٹ وائٹ ہاؤس میں ایسے داخل نہیں ہو سکتا، جیسے نیم خواندہ ریاض ملک کل تک ایوان صدر جاتے رہے ہیں۔
بلے شاہ نے کیا خوب کہا!
چڑھدے سورج ڈھلدے ویکھے
تہ بجھدے دیوے بلدے ویکھے
ہیرے دا کوئی مُل نہ تارے
تہ کھوٹے سکے چلدے ویکھے
خبر کا کوڈ : 171261
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش