0
Tuesday 19 Jun 2012 07:25

مثبت تبلیغ دین

مثبت تبلیغ دین

تحریر: جاوید عباس رضوی

تمام انسانوں میں اشرف خاتم النبین حضرت محمد مصطفٰے ص کی ذات اقدس ہے، دنیا میں انبیاء مبعوث ہوئے، مفکر آئے، مبلغ آئے۔ لیکن تبلیغ کا جو طریقہ آنحضور ص کا رہا وہ اپنی مثال آپ ہے، آپ کے طریقے تبلیغ کو دیکھ کر یا اس کے متعلق سن کر دنیائے ابلاغ میں ایک حیرت انگیز تبدیلی آگئی، جسے تاریخ نے احساس و عمل کے مراحل میں ریکارڈ کرلیا، تمام ملتوں کے مقابلے میں مسلمانوں کا اولین فرض ہے کہ وہ اس تبلیغی روش کو اپنائیں، جو تعلیمات محمدی ص کا خاصہ ہے۔ آپ ص نے تبلیغ کی ابتداء اس وقت کی جب تمام عرب میں آپ ص کی امانتداری و صداقت کی خبریں پھیل گئی تھیں، چالیس سالہ زندگی کے دوران رسل و رسائل اور آمد و رفت کے ذرائع محدود ہونے اور نشر و اشاعت کے وسائل مفقود ہونے کے باوجود آپ ص مکہ و مدینہ مہں نہیں بلکہ عرب کے بیشتر علاقوں میں امین اور صادق کے القاب سے مشہور ہوگئے تھے، تبلیغ کے اثبات کا پہلا عامل آپ ص کی سچائی اور قول و فعل کی ہم آہنگی تھی۔

دشمنوں نے رسول نازنین ص کو سخت اذیتیں دیں، آپ ص کو اپنے پیارے وطن سے نکالا، آپ کا سوشل بائیکاٹ کیا، ضروریات زندگی کو آپ ص پر تنگ کیا، لیکن آپ ص نے مسلسل انتہائی بلند اخلاق اور موعظہ حسنہ کے ساتھ تبلیغ کو جاری رکھا۔ پیغمبر اکرم ص کی تبلیغ کا دوسرا عامل ایثار و قربانی تھا، آپ ص سے پہلے جو انبیاء کرام مبعوث ہوئے تھے، ان میں متعدد انبیاء ع ایسے تھے کہ یا تو ان کو ایسی کڑی آزمائشوں اور صعوبتوں کا سامنا نہ کرنا پڑا یا کچھ وقت تک تو انہوں نے تبلیغ کی، لیکن لوگوں کے ایمان نہ لانے پر نزول عذاب کی دعا کی، جس سے بستیاں الٹ گئیں اور صفحہ ہستی پر ان کی داستان عبرت کے طور پر باقی رہی، لیکن حضور خاتم النبین ص نے کبھی بھی مخالف کے حق میں بددعا نہ کی، بلکہ ہمیشہ یہ کہا کہ ’’اللہ ان کی ہدایت کرے‘‘۔

 آپ ص کے صبر و استقلال سے تشدد کے سارے امکانات نوع انسانی کے سامنے واضح ہوگٓئے، ثبات و یقین کی گہرائی، آپ ص کے تبلیغ کا تیسرا عامل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام انتہائی آزمائشوں سے گزر کر باقی رہا، اس کی حفاظت میں خاندانوں کے خاندان اجڑ گئے، علماء ربانی اور آئمہ عظام کو اپنی مقدس اور بابرکت زندگیاں داو پر لگانا پڑیں، قرآن میں تحریف کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوسکی، باطل سیاست کے ہتھکنڈوں نے لاکھ کوشش کی کہ قرآن کی صحت و جامعیت میں اختلاف پیدا ہو جائے، لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔

اسلام میں مسلمانوں کے لئے بنیادیں جس قدر گہری اور مستحکم ہیں، اس طرح کسی بھی مذہب یا نظریہ میں نہیں، ہر نظام، نظریہ اور مذہب تحریف و تبدیلی کا شکار ہو چکا ہے، تمام اسلامی مکاتب، مسالک و فقہ میں ایسے آئمہ و محدثین بھی گزرے ہیں جنہوں نے کوشش کی ہے کہ احادیث رسول ص میں کسی سہواً یا قصداً تحریف یا ترمیم کی گنجائش نہ رہے اور یہ ندی ایک ایسا پانی مہیا کرے جس سے سبھی مسلمان ایک گھاٹ سیراب ہوسکیں، اس امانت کو باقی رکھنے اور اس جدوجہد کو قائم رکھنے کا شوق ایک سطحی شوق اور یہ عمل محض گفتار کا حامل نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس سطحیت سے نہ کوئی مفید چیز حاصل ہوسکتی ہے نہ ہوگی۔ تاریخ کے طویل دھارے میں مسلمانوں کو سخت نشیب و فراز سے دوچار رہنا پڑا ہے۔

آج جب کہ دنیا میں اسلامی اتحاد و وحدت سے نئی جان پیدا ہوگئی ہے، چاہئے کہ اسی طریقہ تبلیغ کو اپنایا جائے، جس سے کچھ حاصل ہو، جس سے مبلغ یا مصلح صرف ذریعہ میں الجھ کر نہ رہ جائے بلکہ جو حصول مقصد کے لئے صحیح اور مفید ثابت ہو۔ اسلام میں عبادات و معاملات میں جن اوامر و نواحی کی نشاندہی، یا جن حدوں کی وضاحت کی گئی ہے، انکو سمجھنے اور عمل میں لانے کے سلسلے میں سچے جذبے سے اور قانون اسلامی کو رائج کرنے کے جذبے جو کوششیں ہوں، وہ مثبت تبلیغ میں شامل ہیں، شریعت اسلامی حد جاری کرتی ہے، تاکہ بندہ منفی رجحان سے محفوظ رہے۔

ہر ایک مسلمان کو چاہئے اور ہم میں سے بھی ہر شخص کی یہ کوشش رہنی چاہئے کہ وہ خود بھی راہ راست پر چلے اور دوسرے مسلمان بھائیوں کو بھی یہ ترغیب دے اور ان کے متعلق بھی وہی چاہے جو خود کے لئے چاہتا ہو، اس کے برعکس یہ کوشش نہیں رہنی چاہئے کہ خود بھی حاصل سے محروم رہے اور دوسروں کو بھی اس سے دور کر دے، آج اسلام کی ہمہ گیریت و جامعیت کو مسلسل ضرورت اور جدید مسائل کے حل کے احساس کے ساتھ، مثبت تبلیغ کے ذریعے عام کرنے کی کوشش  کرنی چاہئے، مسلمان عالمی سطح پر معاشی اور اقتصادی تعاون اور سیاسی و معاشرتی روابط کے ذریعے اپنے مفکروں، مصلحوں، سائنس دانوں، عالموں اور دفاعی ماہروں کو آپسی تعاون کی جانب حرکت میں لاکر ایک بڑی طاقت بن کر ابھر سکتے ہیں۔

خبر کا کوڈ : 171407
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش