0
Sunday 17 Jun 2012 00:09

پاک امریکہ تعلقات اور امریکی حکومت کا جارحانہ رویہ

پاک امریکہ تعلقات اور امریکی حکومت کا جارحانہ رویہ
تحریر: تصور حسین شہزاد

اسلام ٹائمز۔ امریکی حکومت ایران کے خلاف ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا الزام عائد کر کے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایران تو ایٹمی طاقت نہیں لیکن دوسری جانب پاکستان جو ایٹمی طاقت ہے اس کے ساتھ امریکہ کا یہ سلوک ہے کہ 24 بے گناہ فوجی جوانوں کو شہید کر کے بھی معافی نہیں مانگ رہا۔ اس کے عوض پاکستان نے امریکہ کی افغانستان کیلئے نیٹو سپلائی بند کر رکھی ہے۔ اس سے امریکہ کو کافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ امریکہ بغیر کسی ثبوت کے پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے، امریکی حکومت اپنے نام نہاد سپر پاور ہونے کے زعم میں مبتلا ہے، جس کا نقصان امریکی عوام کو ہو رہا ہے، امریکی حکمرانوں کے اسی رویے سے امریکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچنے والی ہے۔

اوپر سے امریکی حکام ایسے بیانات دے رہے ہیں جو پاکستان کو امریکہ سے دور کرنے کا باعث بن رہے ہیں، امریکی وزیر دفاع لیون پینٹا کی طرف سے اپنے دورہ بھارت کے دوران بھارتی سامعین کے سامنے یہ بیان کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے مشن پر پاکستانی حکومت کو پہلے سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا، پاکستان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ لیون پینٹا نے مزید کہا ’’وہ ہمارے آپریشن کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ یہ صرف ہمارا منصوبہ تھا‘‘ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے جاری کھیل ختم ہو جائے گا۔؟ دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے نتیجے میں پاکستان، امریکہ کا اتحادی بن گیا۔

سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش انتظامیہ کی طرف سے پاکستان کو یہ دھمکی دی گئی کہ اگر اس نے امریکا کا ساتھ نہ دیا تو اسے ’’پتھر کے زمانے‘‘ میں واپس دھکیل دیا جائے گا۔ یہ ایک ایسی گولی تھی جس نے بلین ڈالرز کی امداد سے اس کے زہر کا خاتمہ کیا۔ اس وقت پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے امریکی پالیسی کے مطابق چلنے کا فیصلہ متوقع تھا، جو پاکستان کی اشرافیہ نے منظور کیا تھا، حکومت کے اس فیصلے کو ملک کی پشتون آبادی کی طرف سے غیظ و غضب کی نظر سے دیکھا گیا، کیونکہ پاکستان کے پشتونوں کے افغان پشتون کے ساتھ گہرے سماجی اور ثقافتی تعلقات ہیں۔ پشتون پاکستان کی کل آبادی کا 40 فیصد ہیں۔

امریکہ اور پاکستان کی طرف سے پشتون علاقے کو القاعدہ اور طالبان کو ہلاک کرنے کا لانچنگ پیڈ بنانے نے حالات کو مزید خراب کر دیا۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات الفاظ سے بھرے ہوئے ہیں اور اکثر امریکہ کے متکبرانہ رویے اور بے گناہ پاکستانیوں کی ڈرون حملوں میں ہلاکت کی وجہ سے کشیدگی کا شکار ہو جاتے ہیں، جبکہ امریکی اس جانی نقصان کے الزام سے یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ یہ نادانستہ طور پر ہوا ہے۔ امریکہ کے اس غیر سنجیدہ رویے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ پاکستانی عوام کی جانوں کا ضیاع اس ناپسندیدہ جنگ کے باعث ہے۔

چند دن پہلے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر نیوی پل لے نے امریکی صدر بارک اوباما اور وزیر دفاع لیون پینٹا کی طرف سے اپنی حفاظت کے خود ساختہ نظریہ کو وجہ قرار دیتے ہوئے ڈرون حملوں کی منظوری کو انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ سے ان حملوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں کسی بھی تناظر میں ہونے والے اس انسانیت کے اندھا دھند قتل اور نقصانات کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے طور پر دیکھتی ہوں۔ اگر امریکہ کا مقصد دنیا سے دہشتگردی کا خاتمہ ہے تو اسے ڈرون حملے بند کرنے چاہئیں۔ ڈرون حملے امریکہ کے خلاف نفرت کو مزید ہوا دیتے ہیں، جبکہ دہشتگردوں کو افرادی قوت مہیا کرنے میں معاون اور مددگار ہوتے ہیں۔

برطانوی بیورو آف انویسٹی گیشن جرنلزم کے مطابق امریکہ کی طرف سے ہائی پروفائل دہشتگردوں کو نشانہ بنانے کی کوششوں میں خواتین اور بچوں سمیت 830 بیگناہ پاکستانی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ جاں بحق ہونے والوں کے زندہ رہ جانے والے والد، خاوند، بیٹے اور رشتہ دار، امریکہ سے بدلہ لینے کے لئے دہشتگرد گروپوں میں شامل ہو جاتے ہیں یا پھر ان سے تعاون کرتے ہیں۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے کاؤنٹر ٹیررزم کے سابق انچارج رابرٹ گریز نے برطانوی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ’’ڈرون پروگرام بہت لمبے اہداف رکھتا ہے۔

اس نے کہا ہمارے اس ایکشن کے نتیجے میں حاصل ہونے والے غیر ضروری نتائج، حقیقی طور پر مطلوب نتائج کو نظروں سے اوجھل کر دیتے ہیں، اسی وجہ سے میں یہ کہتا ہوں کہ اوباما اور اس کے ایڈوائزرز کی خودسری نے اس سادہ حقیقت کو فراموش کر دیا ہے کہ کسی بھی اتحادی کی خودمختاری کو پامال کرتے ہوئے انسانی جانوں سے کھیلنا، کسی کو دوست بنانے یا اس پر اثر انداز ہونے کا راستہ نہیں۔ اب یہ محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستانی حکومت کو اس کی عوام اور اس کے مخلص امریکی دوستوں کی طرف سے دباؤ کا سامنا ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں نیٹو طیاروں کی طرف سے دو پاکستانی چوکیوں پر حملے کے نتیجے میں 24 پاکستانی فوجی شہید ہو گئے تھے، جس کے نتیجے میں پاکستان نے نیٹو کے سپلائی روٹس کو بند کر دیا یہ تنازع بڑھتا جا رہا ہے۔

امریکہ اپنا دباؤ بڑھا رہا ہے لیکن وہ رواں برس اپریل میں پاکستانی پارلیمنٹ کی طرف سے امریکہ سے معافی مانگنے اور ڈرون حملوں کو روکنے کی شرط کو پورا کرنے سے انکاری ہے۔ دوسری جانب پاکستان اور ایران امریکی رویے کی وجہ سے مزید قریب ہوگئے ہیں اور گیس پائپ لائن منصوبہ تیزی سے تکمیل کے مراحل میں ہے، امریکہ کو اس پر مروڑ اٹھ رہے ہیں کہ پاکستان اور ایران کی دوستی بڑھ کیوں رہی ہے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ ایران اور پاکستان قریب ہوں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں رائے عامہ کو ایران کے خلاف کرنے کیلئے دہشتگردی اور فرقہ واریت کو ہوا دی جاتی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ نے بھارت کو بھی اس پائپ لائن منصوبے میں شریک ہونے پر نقصانات سے ڈرانے کے بعد اب پاکستان کو بھی ’’سنگین نتائج‘‘ کی دھمکی دی ہے۔ پاکستانی قیادت کے متعلق اب یہ خیال کرنا مشکل نہیں کہ اسے یہ یقین ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گیس پائپ لائن منصوبہ کو واشنگٹن کس نظر سے دیکھتا ہے، وہ ایران سے مختلف میدانوں میں تعاون کر سکتے ہیں۔ اگر یہ ہو جاتا ہے تو جس کسی دن کوئی بھی امریکی حکومت اس طاقت میں ہوگی کہ وہ پاکستانیوں کو پتھر کے زمانے میں دھکیلنے میں کامیاب ہو جائے تو اس کے ساتھ خطے کا توازن بھی بگڑتا چلا جائے گا۔ جس کی تمام تر ذمہ داری امریکہ پر ہی عائد ہو گی۔
خبر کا کوڈ : 171862
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش