0
Sunday 10 Jun 2012 09:52

امریکی وزیر دفاع کی دھمکی اور ہمارے حالات کی وارننگ

امریکی وزیر دفاع کی دھمکی اور ہمارے حالات کی وارننگ
تحریر: عباس مہکری 
 
آج کل پوری قوم چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری کے صاحبزادے ڈاکٹر ارسلان افتخار کے کیس میں اُلجھی ہوئی ہے اور ہر جگہ اس حوالے سے اندازے قائم کیے جارہے ہیں کہ یہ کیس کیا رُخ اختیار کرے گا۔ صرف یہی ایک کیس نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی کیس ایسے تھے، جنہوں نے قوم کو ہیجان اور بے چینی سے دوچار کئے رکھا اور اُسے اپنے اردگرد کے حالات کے بارے میں سوچنے کی مہلت ہی نہیں دی۔ کبھی یہ محسوس ہوا کہ صدر مملکت اپنے منصب پر فائز نہیں رہ سکیں گے۔ کبھی یہ نظر آنے لگا کہ وزیراعظم کی چھٹی ہو جائے گی۔ 

کبھی یہ خدشہ پیدا ہوگیا کہ عدلیہ اور سیکورٹی کے ذمہ دار ادارے ایک دوسرے کے سامنے آجائیں گے اور کبھی یہ خطرہ منڈلانے لگا کہ مقننہ (پارلیمنٹ) اور عدلیہ کے مابین ٹکراؤ ہو جائے گا۔ اب چیف جسٹس آف پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ پوری قوم ایسے ہی کیسوں میں طویل عرصے سے اُلجھی رہی۔ اُسے سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ کیا ہو رہا ہے البتہ بیرونی قوتیں ہماری اس صورت حال کو اداروں کے درمیان محاذ آرائی سے تعبیر کرتی رہی ہیں۔ اس اُلجھاؤ میں کسی نے اس بات پر توجہ ہی نہیں دی کہ پاکستان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ ہمیں پتہ ہی نہیں ہے کہ پاکستان کس قدر سنگین بحرانوں کی لپیٹ میں آتا جا رہا ہے۔ 

اگلے روز امریکی وزیر دفاع لیون پینٹا نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر پاکستان کے لیے دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کے حوالے سے امریکہ کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں شدت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔ یہ صورتحال امریکا کے لیے ناقابل برداشت ہے اور امریکا اپنے فوجیوں کی حفاظت کے لیے ہر قدم اُٹھائے گا۔ افغان وزیر دفاع عبدالرحیم وردک کے ساتھ اس مشترکہ پریس کانفرنس میں لیون پینٹا نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائیاں نہیں کر رہا۔ امریکا کے لیے یہ صورت حال قابل برداشت نہیں ہے۔ پاکستان میں موجود انتہا پسند افغانستان میں نیٹو فورسز پر حملے کر رہے ہیں اور ان کی وجہ سے طالبان افغانستان میں مضبوط ہوئے ہیں۔
 
اُن کی یہ بات زیادہ تشویشناک ہے کہ امریکا اپنے فوجیوں کی حفاظت کے لیے ہر قدم اُٹھائے گا۔ اس بات کے بعد پاکستانیوں کو کسی خوش فہمی کا شکار نہیں رہنا چاہئے۔ امریکا پہلے ہی پاکستان پر ڈرون حملے کر رہا ہے، جنہیں تمام تر کوششوں کے باوجود روکا نہیں جاسکا۔ امریکا سے یہ توقع بھی کی جاسکتی ہے کہ وہ ڈرون حملوں سے بھی زیادہ پاکستان کے خلاف کھلی فوجی کارروائی کرسکتا ہے یا اپنے خفیہ اداروں کے ذریعہ پاکستان کے داخلی انتشار کو مزید بھڑکا سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان کی سلامتی شدید خطرات سے دوچار ہے۔ 

امریکی وزیر دفاع نے جو کچھ کہا ہے، وہ اُن کی انفرادی سوچ نہیں ہے بلکہ پوری امریکی اسٹیبلشمنٹ اسی سوچ کی حامی ہے۔ امریکی فوج کے سربراہ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی کا بھی یہی کہنا ہے کہ امریکا حقانی گروپ کا پیچھا کرے گا۔ اس گروپ کے لوگ جہاں بھی ہوں گے، ہم اُن کے خلاف لڑیں گے اور وہ پاکستان کے علاقے فاٹا میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکیوں کے نزدیک پاکستان کی خود مختاری اور جغرافیائی حدود کا احترام کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
 
امریکی کانگریس میں بھی دونوں ڈیمو کرٹیک اور ری پبلکن ارکان بھی پاکستان پر مسلسل برس رہے ہیں۔ افغانستان کے دورے سے قبل امریکی وزیر دفاع نے بھارت کا دورہ کیا تھا۔ اُنہوں نے اپنے دورہٴ بھارت میں ہر مرحلے پر یہ باور کرایا کہ امریکا اس خطے میں بھارت کو ایک اہم کردار دینا چاہتا ہے اور وہ امریکا کا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے۔ لیون پینٹا نے بھارت میں کسی لگی لپٹی کے بغیر اور دوٹوک الفاظ میں یہ واضح کیا کہ نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد بھارت افغانستان میں فوج، پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں کی تربیت اور تنظیم سازی کرے گا۔ 

پاکستان طویل عرصے سے ان کوششوں میں لگا رہا کہ افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ نہ ہو، لیکن اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر بھی بھارت ہے اور اب پاکستان کی مغربی سرحدوں پر بھی بھارت ہوگا، جو پاکستان کو اُلجھائے رکھے گا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ امریکا، بھارت اور اسرائیل کا جنوبی ایشیاء میں اس قدر مضبوط اسٹرٹیجک الائنس قائم ہوا ہے، جو اُن کے مشترکہ سامراجی مفادات کا آئینہ دار ہے۔ یہ الائنس فطری طور پر پاکستان کے خلاف ہے اور پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے کوشاں ہے۔
 
پاکستان کو ہر طرف سے گھیر لیا گیا ہے۔ امریکی بلیک واٹر تنظیم کے کارندے پورے ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ نیٹو افواج کے لیے آنے والے اسلحہ کے لاتعداد کنٹینرز پاکستان میں غائب کر دیئے گئے ہیں۔ کراچی اور بلوچستان میں خونریزی کو روکنا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ان دونوں جگہوں پر حکومت کی عملداری ختم ہو چکی ہے۔ قبائلی علاقہ جات اور خیبرپختونخوا کے بعض حصوں میں پاکستانی پرچم لہرانے کے لیے پاکستان کی فوج اور دیگر سیکورٹی اداروں نے جو جنگ شروع کر رکھی ہے، اسے منطقی انجام تک پہنچانے کے بارے میں ابھی تک کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ 

پنجاب فرقہ وارانہ دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے۔ پاکستان کے اس داخلی انتشار کو امریکا، بھارت اور اُن کے اتحادی مزید ہوا دے رہے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر خونریزی کرا رہے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی سارے وسائل پاکستان کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ کراچی کی بدامنی اور بلوچستان کی بدامنی کے حوالے سے سپریم کورٹ کی ازخود کارروائی کے باوجود حالات نہیں سدھرے بلکہ مزید خراب ہوئے ہیں۔ امریکی اتحادی کا پاکستان کو یہ صلہ ملا ہے کہ روزانہ پاکستان میں جتنے بے گناہ لوگوں کا خون ہوتا ہے اتنے لوگ پوری دنیا میں قتل نہیں ہوتے، حالانکہ دنیا کے دیگر ممالک بھی انتشار اور شورشوں کی زد میں ہیں۔ 

پاکستان کی ریاست کہیں بھی لوگوں کو تحفظ فراہم نہیں کر پا رہی ہے۔ فوج، عدلیہ، پارلیمنٹ سب نے اس صورتحال میں اپنے اپنے طور پر بہت کوششیں کرلی ہیں، لیکن خونریزی کو نہیں روکا جاسکا ہے۔ پاکستان کے اندر سے یہ آوازیں آرہی ہیں کہ امن وامان تباہ ہونے کے بعد معیشت بھی تباہ ہوگئی ہے، لہذا ملک میں ”اکنامک ایمرجنسی“ نافذ کی جائے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومت کب تک نوٹ چھاپ کر گزارہ کرے گی۔ مہنگائی نے افراتفری اور انتشار میں اضافے کے لیے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ لوگ سرعام خودکشیاں اور خود سوزیاں کر رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرے سے زندگی کی رمق ختم ہوتی جا رہی ہے او رمایوسی کی گھٹائیں گہری ہوتی جا رہی ہیں۔
 
حالات بہت خراب ہیں، پاکستان کو بین الاقوامی سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ پاکستان کے اندر خونریزی اور بدامنی کو روکنا ہے۔ معیشت کو درست کرنا ہے۔ بین الاقوامی برادری سے اپنے تعلقات کو بہتر بنانا ہے۔ اپنی معیشت کو بحران سے نکالنا ہے۔ ہمیں اپنے گھر کو بھی ٹھیک کرنا ہے اور باہر کی دنیا سے بھی اپنے معاملات درست کرنا ہیں۔ ہر چیز تباہی کی آخری حدود کو چھو رہی ہے۔ سب سے بڑھ کر ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط کرنا ہے، تاکہ وہ ان چیلنجوں اور خطرات کا مقابلہ کرسکیں، جو پاکستان کی سلامتی کو درپیش ہیں۔
 
ڈاکٹر ارسلان کا کیس بھی ضرور منظر عام پر آنا چاہئے تھا اور اس کیس کا فیصلہ بھی قانون کے مطابق ہونا چاہئے۔ صدر کے خلاف سوئس عدالتوں کو ریفرنس بھیجنے کا معاملہ بھی اہم ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم کے خلاف نااہلی کا کیس بھی بعض لوگوں کے نزدیک عدلیہ کی بالادستی کا مظہر ہوگا، سیکورٹی اداروں کو بھی اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سیاست کریں، لیکن قومیں سنگین نوعیت کے بحرانوں میں پھنس جاتی ہیں تو ان کے ذمہ دار افراد اور اداروں کا کردار یکسر بدل جاتا ہے اور ان کے سوچنے کا انداز وہ نہیں ہوتا، جو آج ہمارے ذمہ دار لوگوں اور اداروں کا ہے۔ امریکی وزیر دفاع کی وارننگ اپنی جگہ، پاکستان کے حالات بھی یہ وارننگ دے رہے ہیں کہ ہر کوئی اپنا رویہ درست کرے۔
 "روزنامہ جنگ"
خبر کا کوڈ : 169786
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش