0
Tuesday 31 Jul 2012 19:58

فخرالدین کی آخری خواہش

فخرالدین کی آخری خواہش
تحریر: سید محمد ثقلین 

عزت مآب جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے مستقل چیف الیکشن کمشنر کے فرائض سنبھال لئے، وہ ملک کے پہلے چیف الیکشن کمشنر ہیں جن پر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا ہے اور آئین میں کی گئی 20 ویں ترمیم کے طریقہ کار کے تحت حکومت نے مسلم لیگ ن کی جانب سے اس عہدے کے لیے پیش کیے جانے والے پہلے نام پر اتفاق کر کے ایک نئے جمہوری کلچر کو تقویت دی ہے۔ 

فخر الدین جی ابراہیم جنہیں 1953ء میں کمیونسٹ رہنماء حسن ناصر سے جیل میں ملاقات کے بعد ملک کی سیاست اور عام آدمی کے بارے میں گہری دلچسپی پیدا ہوئی تھی، ایک ایماندار اور شفاف شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، جسٹس (ر) فخر الدین جی ابرہیم کو بھٹو صاحب نے سندھ بلوچستان ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا تھا، مگر جسٹس صاحب نے معراج محمد خان جیسے بھٹو صاحب کے مخالفین کو ریلیف دے کر اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت کو برقرار رکھا تھا، اسی اصول کے تحت وہ جنرل ضیاءالحق کے عبوری آئینی حکم (P.C.O) کو ماننے سے انکاری بھی ہوئے اور اسلام آباد چھوڑ کر کراچی میں پریکٹس کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔

یوں اب سوال ملک میں شفاف انتخابات کرانے کا ہے، اگرچہ کہ آئین میں کی گئی 20 ویں ترمیم کے تحت اسمبلیاں ٹوٹتے ہی موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ختم ہو جائیں گی اور نگراں حکومتیں قائم ہونگی، مگر الیکشن کمیشن کو اپنی کارکردگی سے انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدارانہ کرنے کا فریضہ ہر صورت میں انجام دینا ہوگا، انتخابات کے انعقاد کے لیے سب سے پہلا مرحلہ ووٹر لسٹوں کا ہے، اگرچہ الیکشن کمیشن نے نادرا کی مدد سے انتخابی فہرستیں تیار کرلی ہیں اور ایس ایم ایس (S.M.S) کے ذریعے ووٹر کے نام کی تصدیق کا طریقہ کار بھی شروع کرلیا گیا ہے، جس سے چند لمحوں میں ووٹر کے نام کی تصدیق ہو جاتی ہے مگر پھر بھی مارچ کے مہینے تک 20 ملین افراد کے نام ووٹر لسٹوں میں شامل ہونے سے رہ گئے تھے، ان میں اکثریت 18 سال کے افراد کی ہے، جن میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے، اب اگر الیکشن کمیشن عام انتخابات کے اعلان کے وقت تک ان میں سے بیشتر افراد کے نام انتخابی فہرستوں میں شامل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پہلے مرحلے کی تکمیل کے لیے یہ اہم پیش رفت ہوگی۔

اس کے ساتھ ووٹر لسٹوں سے جعلی ووٹوں کے اخراج کا معاملہ بھی انتہائی اہم ہے، اس کے لیے اخبارات، ریڈیو، ٹیلی وژن چینلز اور ویب سائٹس کو بخوبی استعمال کیا جاسکتا ہے، پھر مرحلہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیوں کا ہے، اگرچہ کہ یہ معاملہ پیچیدہ اور حساس نوعیت کا ہوتا ہے اور ایسے علاقوں میں جہاں لسانی اور مذہبی تضادات ہوں معاملہ مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے، مگر آبادی کے بڑھنے اور نئے ووٹروں کے شامل ہونے سے حلقہ بندیوں کی ہیت کی تبدیلی ضروری ہوتی ہے۔

الیکشن کمیشن کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندی کا کام شروع کرنا چاہئے اور ان پر اعتراضات کے لیے شکایت کنندہ کو خاصا وقت ملنا چاہئے اور اعتراضات کی سماعت منصفانہ انداز میں ہونی چاہئے، اگر حلقہ بندیوں کا معاملہ دیر میں ہوا تو لوگوں کو اپنے اعتراض کے حق میں دلائل دینے کا وقت نہیں ملے گا، پھر حلقہ بندیوں کا معاملہ اطمینان سے طے ہوجائے تو بہت سے حلقے مطمئن ہوسکتے ہیں، پھر معاملہ پولنگ اسٹیشن بنانے کا ہے۔

انتخابات میں دھاندلی کے لئے پولنگ اسٹیشن کا محل وقوع خاصا اہم ہوتا ہے، سپریم کورٹ نے انتخابات اصلاحات کے بارے میں ایک پٹیشن میں ضابطہ اخلاق کے حولے سے ہدایات دی ہیں، ان ہدایات میں ووٹر کے گھر سے 3 کلومیٹر کے اندر پولنگ اسٹیشن قائم ہونا چاہئے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت امیدواروں پر ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن تک لانے کے لیے ٹرانسپورٹ کی فراہمی پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور اب یہ فریضہ الیکشن کمیشن کو انجام دینا ہے، اس صورتحال میں اگر پولنگ اسٹیشن آبادی کے انتہائی قریب ہونگے تو ووٹر پیدل ہی ووٹ ڈالنے کے لیے چلے جائیں گے۔

ماضی میں ایک چھوٹے سے سرکاری اسکول میں کئی کئی پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے، جس کی بنا پر بہت سے ووٹر ووٹ ڈالنے سے محروم ہوگئے، مگر اگر کسی اسکول، کالج یا کوئی اور سرکاری عمارت بہت بڑی ہو اور اس کے دروازے مختلف سڑکوں پر کھلتے ہوں تو وہاں کئی اسٹیشن بنانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، مگر اس معاملے میں انتہائی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ ہی ضروری ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیوں کے اعلامیے کے ساتھ پولنگ اسٹیشن کے اعلامیے بھی جاری کیے جائیں اور اعلامیے جاری ہونے سے پہلے پولنگ اسٹیشن پر ہونے والے اعتراضات کی منصفانہ طور پر سماعت کی جائے، جب اعلامیے جاری ہو جائیں تو ان کی فہرست ذرائع ابلاغ پر شائع اور نشر کی جائے اور ویب سائٹس پر بھی بھیج دی جائے۔

اس کے علاوہ ووٹر کو ایس ایم ایس کے ذریعے بھی پولنگ اسٹیشن کی اطلاع دی جائے اور کسی صورت میں آخری وقت پولنگ اسٹیشن تبدیل نہ کئے جائیں، اگر کوئی ہنگامی صورتحال پیدا ہو جائے اور تبدیلی ناگزیر ہو تو تبدیلی کی خوب پبلسٹی کی جائے، پھر مرحلہ پولنگ کے عملے کی تربیت کا آتا ہے، سپریم کورٹ کے ضابطہ کار کے تحت اب ایڈیشن سیشن جج صاحبان قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کے ریٹرننگ افسر کے فرائض انجام نہیں دیں گے، کمشنر صاحب کو ان کے متبادل تلاس کرنا ہیں۔

اس معاملے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اگر گریڈ 20 کے اساتذہ کو ریٹرننگ افسر بنایا گیا تو پولیس اور امن و امان قائم کرنے والے ادارے ان کے احکامات کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے، یوں یہ ذمہ داری سی ایس پی افسران خاص طور پر ڈی ایم جی گروپ کے افسران پر ڈالی جائے تو یہ افسران انتظامی معاملات زیادہ موثر انداز میں طے کرسکتے ہیں، اس کے ساتھ پولنگ افسروں کی تربیت کا معاملہ بھی خاصا اہم ہے، اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام UNDP نے 2002ء میں پولنگ افسروں کا ایک تربیتی پروگرام شروع کیا تھا، اس کے خاصے مفید نتائج برآمد ہوئے تھے، اس پروگرام میں سیاسی جماعتوں کے نامزد کردہ پولنگ ایجنٹ کو بھی شامل کرنا چاہئے، اگر پولنگ ایجنٹ انتخابی قوانین سے واقف ہونگے تو وہ شفاف انتخابات میں اہم کردار ادا کرسکیں گے۔

انتخابات کو شفاف بنانے میں صرف الیکشن کمیشن اور اس کے عملے کا کردار ہی اہم نہیں، بلکہ فوج، خفیہ ایجنسیوں، پولیس، بیوروکریسی، سیاسی جماعتوں اور عدلیہ کا کردار بھی خاصا اہم ہوتا ہے، اگر فوج، خفیہ ایجنسیاں اور بیوروکریسی شفاف انتخابات میں سنجیدہ ہونگے تو معاملات آسان رہیں گے، جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کے سامنے بلوچستان میں انتخابات کا انعقاد سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔

جسٹس صاحب کو چاہئے کہ وفاقی حکومت سے اپیل کریں کہ بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کیا جائے اور جلا وطن بلوچوں کو بلوچستان میں آنے کی اجازت دی جائے، اس کے ساتھ ساتھ ایجنسیاں بلوچستان میں اپنا کردار ختم کر دیں، یوں وہاں عوام اپنے حقیقی امیدواروں کو منتخب کرسکیں گے، پھر اگر ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز نے چیف الیکشن کمشنر سے تعاون کیا تو انتخابات شفاف ہونگے، دوسری صورت میں فخر الدین جی ابراہیم کی ناکامی صرف ان کی ناکامی ہی نہیں ہوگی بلکہ اس کا نقصان پورے ملک کو ہوگا، فخرو بھائی کی آخری خواہش شفاف انتخابات ہیں اور اس خواہش کی تکمیل میں ملک کا مستقبل ہے۔
خبر کا کوڈ : 183351
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش