0
Monday 19 Nov 2012 01:16

محرم الحرام اور دہشتگردی کے خطرات

محرم الحرام اور دہشتگردی کے خطرات
تحریر: طاہر یاسین طاہر 

ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جہاں انتہا پسندوں کا راج ہے، ممکن ہے دہشتگردوں کے ہمدرد میری اس رائے کو جھٹک دیں۔ وہ ضرور یہ کہیں گے کہ یہ تو امریکہ کے خلاف ’’جہاد‘‘ کر رہے ہیں اور ان کی ’’جہادی‘‘ کارروائیوں کی مذمت کرنے والا دائرہء اسلام سے ہی خارج ہے، مگر حقائق یہی ہیں کہ معاشرہ انتہا پسندوں کے رحم و کرم پر ہے۔ ان کا سارا ’’جہاد‘‘ نہتے مسلمانوں کے خلاف ہے۔ ایک خاص فکر، جو صدرِ اسلام سے ہی پھوٹتی نظر آتی ہے، فتنہء خوارج۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی کتاب ’’دہشتگردی اور فتنہ ء خوارج‘‘ اس راز سے پردہ اٹھاتی ہے۔ 

محرم الحرام شروع ہوچکا ہے۔ عزا کے جلوسوں پر دہشتگردوں کے حملوں کے خدشات موجود۔ مگر اس خطرے اور سوچ سے نمٹنے کے لیے وزارتِ داخلہ نے جو اولین اقدامات اٹھائے وہ ہر لحاظ سے ناکافی ہیں۔ یکم محرم الحرام کو وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے کراچی اور کوئٹہ میں موٹر سائیکل چلانے پر ایک دن کے لیے پابندی عائد کر دی تھی، جبکہ دونوں شہروں میں موبائل فون سروس بھی بند رہی۔ جوں ہی وزارتِ داخلہ نے موٹر سائیکل چلانے پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا تو سندھ ہائیکورٹ نے اس اقدام کے خلاف حکمِ امتناعی جاری کر دیا۔ ایک بار پھر اداروں کے درمیان کشمکش کا تاثر دیا جانے لگا اور اصل مسئلہ پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ گرما گرم بحثیں جاری ہیں اور میڈیا کا کام بھی چل رہا ہے۔ 

گزشتہ سے پیوستہ روز سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں وزارتِ داخلہ کے اقدام کے خلاف شدید تنقید ہوئی تو وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے اپنے دفاع میں کہا کہ ’’دہشتگرد دندناتے پھر رہے ہیں، پارلیمنٹ قانون سازی میں ناکام ہوگئی‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ تین سال سے ایڑیاں رگڑ رہا ہوں، مگر انسدادِ دہشتگردی بل منظور نہ کرا سکا۔ جواب میں رضا ربانی نے کہا کہ پارلیمنٹ ناکام نہیں ہوئی، بنیادی حقوق کی پامالی کو قانونی شکل نہیں دے سکتے۔ یاد رہے کہ یہ وہی وزیر داخلہ ہیں جنھوں نے گزشتہ برس عاشورہ محرم عافیت سے گزر جانے پر طالبان کا شکریہ ادا کیا تھا، جبکہ امسال خدشات کو روکنے کے لیے جو اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں وہ بہت ہی سطحی ہیں۔ 

ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کے ذمہ دار افراد کے مابین بھی دہشتگردی کو روکنے کے حوالے سے ہم آہنگی نہیں۔ وزیرِ داخلہ اگر چاہتے ہیں کہ انسدادِ دہشتگردی بل منظور کروا کے دہشتگردوں کو کڑی سزائیں دی جائیں تو دوسری طرف حکومت ہی کے بعض آئینی ماہرین کی نظر میں یہ مسئلہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، لیکن یہی آئینی ماہرین یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کوئٹہ میں عزادارانِ حسین (ع) کے گھروں میں پمفلٹ پھینک کر انھیں عزاداری گھروں کے اندر ہی کرنے کی’’تلقین‘‘ کرنے والے دہشتگرد بھی تو کسی کے بنیادی حقوق کو پامال کر رہے ہیں۔ 

لاریب ہم ایک منتشر معاشرہ ہیں۔ ہم اس حد تک تو وزیرِ داخلہ کی بات تسلیم کرتے ہیں کہ دہشتگرد دندناتے پھر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ ناکام ہوئی یا کامران؟ یہ معاملہ سیاسی امور کے ماہرین دیکھیں۔ البتہ حقائق یہ ہیں کہ دہشتگردوں کا پلڑا بھاری ہے۔ ہمیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ شیعہ سنی اختلافات کی نوعیت فقہی ہے، مگر محرم الحرام کے جلوسوں اور عزا کی مجالس پر حملہ آور ہونے والے علمی و عقلی دلائل کا سہارا نہیں لیتے۔ وہ فتوے اور گولی کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے، وہی’’خارجی‘‘ رویہ۔ اپنا فہم دوسروں پر مسلط کرنے والے۔ حسنِ عمل کے دھوکے میں گرفتار یہ مائنڈ سیٹ پوری انسانیت کے لیے تباہی کا پیغام ہے۔ 

سوال مگر یہ ہے کہ حکومت ان دہشتگردوں سے عزادارانِ حسین (ع) سمیت دیگر امن پسند شہریوں کو کیسے محفوظ رکھ پائے گی؟ حکومت کی کمزوری مگر یہی ہے کہ داخلی طور پر اس کے ہاتھ باندھ دیے جاتے ہیں۔ دہشتگردوں کے خاموش حمایتی اگر مال و زر، قربانی کی کھالوں اور چندے سے ان کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں تو دوسری جانب پارلیمنٹ کے اندر سے بھی ان افراد اور گروہوں کے حق میں آوازیں بلند ہوتی ہیں، جن کے حوالے سے ریاست شدید تحفظات رکھتی ہے۔ یعنی حکومت پر دباؤ بڑھایا جاتا ہے کہ انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے سے اجتناب برتے۔

ڈاکٹر طاہر القادری اپنی کتاب ’’دہشتگردی اور فتنہ ء خوارج‘‘ کے صفحہ ۲۷۹ پر رقم طراز ہیں کہ’’ فقہا نے کسی مخصوص عصبیتی نعرہ کی بنیاد پر قتل و غارت گری کرنے والے شرپسندوں کے خلاف کارروائی کو حکومت کا فرض قرار دیا ہے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ایسا باغی اور متشدد گروہ جو خارجی اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے یہ سمجھنے لگے کہ حق صرف ہمارے ساتھ ہے اور اس زعم میں مبتلا ہو کر وہ طاقت سے غلبہ حاصل کرنا چاہیں تو حکومت کا یہ حق ہے کی وہ اپنا نظم اور اتھارٹی بحال کرنے کے لیے ان سے جنگ کرے اور عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اس صورت میں حکومت کا ساتھ دیں۔

تاریخی طور پر یہ بات ثابت شدہ ہے کہ بعض اوقات معاشرے میں ایسا کج فہم اور تنگ نظر طبقہ بھی پیدا ہو جاتا ہے جو بالکل نادان اور دینی حکمت و بصیرت اور اس کے تقاضوں سے مکمل طور پر ناآشنا ہوتا ہے۔ اپنی اسی کتاب میں ڈاکٹر طاہر القادری یہ بھی بتاتے ہیں کہ خوارج کس طرح مذہبی جذبات بھڑکا کر ذہن سازی کرتے تھے اور کس طرح اپنی دعوت کی بنیاد قرآنی آیات پر استوار کرتے تھے اور کس طرح جنت کا لالچ دے کر لوگوں کو مرنے مارنے پر تیار کر لیتے تھے۔ لاریب کہ آج بھی وہی خارجی فہم، خود کو ہی اول و آخر اسلام کا الٰہی نمائندہ سمجھ بیٹھا ہے۔
 
یہ ہمارے کالم کا موضوع نہیں کہ عزاداری حسین (ع) کارِ ثواب ہے یا بدعت؟ البتہ ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اللہ کے محبوب رسول (ص) نے فرمایا کہ ’’حسن و حسین جنت کے سردار ہیں‘‘ اور یہ بھی کہ ’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں‘‘ مگر بطورِ خاص ہمیں سیدالشہداء (ع) کا یہ جملہ بھی یاد رکھنا چاہیے، جس نے حق و باطل کے درمیان لکیر کھینچ دی۔ آپ (ع) نے فرمایا کہ ’’مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرے گا‘‘ اس ایک جملے نے طے کر دیا کہ یزیدیت صبحِ قیامت تک حسینیت (ع) سے برسرِ پیکار رہے گی۔ 

آج حکومت کے لیے بڑا چیلنج یہی ہے کہ یزیدی فکر کے پیروکاروں سے انسانیت کو بچائے، مگر حکومت جس طرح کے سطحی اقدامات اٹھا رہی ہے، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ دہشتگرد آئے روز طاقتور اور ریاست اپنی عملداری قائم کرنے میں کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ مثال دی جاسکتی ہے، ایک تنظیم دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث ہوا کرتی تھی۔ کالعدم قرار پائی تو نئے نام سے مصروفِ کار ہوگئی۔ یکم محرم الحرام کو اسی تنظیم اور اس کے ہمرکابوں نے کراچی اور دیگر شہروں میں ایک بڑی ریلی نکالی۔ یہ ریلی عقیدت کا اظہار تھی یا قوت کا مظہر؟ حکومت نے واقعی اگر معاشرے کو دہشتگردوں سے پاک کرنا ہے تو پھر ریاستی رٹ قائم کرنے کے لیے درست اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ کمتر سیاسی مفادات کے لیے حکمران طبقہ ریاستی فرائض کو فراموش نہ کرے۔ 

دہشتگرد عقیدت کی اوٹ میں ریلیاں نکال کر ریاست کو دھمکا رہے ہیں اور حکومتی نمائندے انسانی حقوق کی آڑ میں کنی کترا رہے ہیں۔ ہمیں پوری قوت کے ساتھ متشدد رویوں اور انتہا پسندانہ فہم و فلسفہ کے خلاف میدانِ عمل میں نکلنا ہوگا۔ بے شک اسلام خود بھی امن و سلامتی کا دین ہے اور دوسروں کو بھی امن و عافیت کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ جنت کو بھی دارالسلام اسی لیے کہا گیا کہ اس میں کوئی موت اور فنا نہیں ہوگی۔ حکومت نیم دلی کے ساتھ دہشتگردوں سے نمٹنے کے بجائے پوری ریاستی قوت کے ساتھ آگے بڑھے اور معاشرے کو اس ناسور سے پاک کرے۔
خبر کا کوڈ : 213050
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش