0
Wednesday 21 Nov 2012 23:35

دہشتگردی اور نادر شاہی فیصلے

دہشتگردی اور نادر شاہی فیصلے
تحریر: تصور حسین شہزاد

افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے ملک میں شعبہ کوئی سا بھی ہو چاہے سیاست ہو کہ معیشت، دہشت گردی کے عفریت کے باعث کہیں پر بھی اطمینان بخش صورت حال نظر نہیں آتی۔ ملک جن سنگین مسائل سے دوچار ہے اول تو ان کے تسلی بخش حل کے لئے سرے سے کوئی پالیسی بنائی ہی نہیں جاتی اور اگر ارباب اختیار کوئی حکمت عملی تجویز بھی کرتے ہیں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس حکمت عملی کا نہ کوئی سر ہوتا ہے اور نہ کوئی پیر۔ عدم دانش و بصیرت پر مبنی کسی عمل کو حکمت عملی کہنا تو ویسے بھی عقل کے خلاف ہے، لیکن بالفرض محال حکومت اگر کسی بے معنی عمل کو حکمت عملی کہنے پر ہی مصر ہو تو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ڈنگ ٹپاؤ حکمت عملیوں سے نہ کبھی مسئلے حل ہوئے ہیں اور نہ کبھی ہوں گے۔

جمعرات کی رات اچانک ٹیلی ویژن پر وزیر داخلہ اعلان کرتے نظر آئے کہ جمعہ یکم محرم الحرام کو کراچی اور کوئٹہ میں دہشت گردی کا خطرہ ہے، لہٰذا اس دن یعنی جمعہ کو کراچی اور کوئٹہ دونوں شہروں میں صبح چھ بجے سے لے کر شام سات بجے تک موٹر سائیکل چلانے پر پابندی ہوگی۔ اس قسم کے بے سروپا اعلان کے کچھ ہی دیر بعد تمام ٹیلی ویژن چینلز پر یہ پٹی چلنی بھی شروع ہو گئی کہ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو مذکورہ دونوں شہروں میں صبح سے شام تک موبائل فون نیٹ ورک کو بھی بند کر دیا جائے گا۔

کراچی اور کوئٹہ کے عوام بجا طور پر ان اعلانات سے پریشان ہوگئے، اس لئے کہ بات اگر فقط کراچی شہر کی کریں تو اس شہر میں بارہ سے چودہ لاکھ رجسٹر موٹر سائیکلیں موجود ہیں۔ اس کا مطلب تھا کہ اس پابندی کی وجہ سے پچیس سے تیس لاکھ شہریوں کے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہونے کا احتمال تھا۔ مہنگائی کے اس دور میں موٹر سائیکل ہی وہ واحد سواری ہے کہ جو مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس طبقے کیلئے ایک سہارا ہے ورنہ تو پیٹرول کی قیمتیں جس حد تک بڑھ چکی ہیں انھیں امیر طبقہ بھی مشکل سے ہی برداشت کر پا رہا ہے۔

اس صورت حال میں دہشت گردی کی کسی واردات سے بچنے کیلئے اگر وزیر داخلہ موٹر سائیکل اور موبائل فون پر پابندی ایسے نادر شاہی حکم جاری کرتے ہیں تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، اس لئے کہ وزیر داخلہ اس سے پہلے بھی اسی قسم کے کئی بے نتیجہ اقدامات کرچکے ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ نے کراچی بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر فوری فیصلہ کرتے ہوئے اس حکم کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا۔ یقیناً سندھ ہائیکورٹ کے اس فیصلے پر کراچی کے شہریوں نے سکھ کی سانس لی ہوگی۔ عدالت کے حکم کی وجہ سے موٹر سائیکل پر سے تو پابندی کا خاتمہ ہوگیا لیکن موبائلز پر بندش برقرار رہی۔

جمعہ کو سینٹ میں خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ پابندی اس لئے لگائی تھی کیونکہ ماضی میں دہشت گردی کی 438 وارداتیں موٹر سائیکلوں کے ذریعے ہوئیں۔ ہمیں وزیر داخلہ کے اس بیان پر رتی برابر بھی شک نہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ بیان سو فیصد درست ہوگا لیکن شاید انھیں موجودہ دور میں موبائل فون کی افادیت کا اندازہ نہیں۔ کسی زمانے میں لینڈلائن فون کی بڑی اہمیت ہوتی تھی کہ وہی رابطے کا واحد ذریعہ ہوتا تھا مگر جب سے موبائل فون عام ہوا ہے تو کاروبار چھوٹا ہو یا بڑا، ملکی سطح پر ہو یا بین الاقوامی نوعیت کا، تمام تر کاروباری سرگرمیاں ای میل اور موبائل فون کی مرہون منت ہو کر رہ گئیں ہیں۔

ہمیں یاد ہے کہ جب موبائل نہیں تھا اور لینڈ لائن فون کی سہولت بھی ہر کسی کو میسر نہیں تھیں تو بچوں سمیت گھر کے تمام افراد معمولات زندگی بجا لانے کیلئے سارا سارا دن بھی گھر سے باہر رہتے تھے مگر کسی کو تشویش نہیں ہوتی تھی۔ ایک تو وہ دور پرامن تھا اور دوسرا ہر کوئی اس کا عادی تھا اس کے بر عکس آج کم و بیش ہر شخص موبائل کا عادی ہوچکا ہے اور پھر اس پرآشوب دور میں اور خاص طور پر کراچی اور کوئٹہ جیسے شہروں میں تو لوگ دن میں دس دس مرتبہ کال کرکے اپنے پیاروں کی خیریت دریافت کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو موٹر سائیکل اور موبائلز دونوں غریب طبقے میں بےحد مقبول ہیں۔

یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومت کا نزلہ ہمیشہ غریبوں پر ہی کیوں گرتا ہے حالانکہ اس سے پہلے متعدد مواقع پر ایسی اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ فلاں رنگ کی گاڑی کسی شہر میں داخل ہوچکی ہے، جس میں دہشت گرد سوار ہیں اور وہ اس کے ذریعے دہشت گردی کی کارروائی کریں گے اور پھر ایسی واداتیں ہوئیں بھی کہ جن میں دہشت گرد کسی چھوٹی یا بڑی گاڑی میں سوار تھے، لیکن آج تک کسی چھوٹی یا بڑی گاڑی پر پابندی نہیں لگائی گئی اور ظاہر ہے کہ لگنی بھی نہیں چاہئے، اس لئے کہ اس قسم کی پابندیاں نہ کبھی پہلے موثر ثابت ہوئیں ہیں اور نہ کبھی ہوں گی۔

ایک اور اہم بات کہ برسوں ہوگئے دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے ہم نے اسی طرح کی ایک اور حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے کہ حکومت کا جب دل چاہتا ہے ڈبل سواری پر پابندی لگا دیتی ہے اور یہ پابندی ہفتوں نہیں بسا اوقات مہینوں جاری رہتی ہے۔ اس سے دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی تو کیا آنی ہے البتہ اس عرصے میں غریب عوام ضرور اذیت سے دوچار رہتے ہیں۔ ہماری رائے میں ڈبل سواری پر پابندی، موبائلز پر پابندی اور اس کے بعد ایک قدم اور آگے بڑھ کر موٹر سائیکل پر ہی پابندی مسائل کا حل نہیں۔

اگر ہم نے دہشت گردی ہی نہیں بلکہ مہنگائی، بیروز گاری، لوڈشیڈنگ اور دیگر مسائل کو حل کرنا ہے تو اس کے لئے مربوط اور مبنی بر دانش حکمت عملیاں اپنانا ہوں گی کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شائد ہی کسی نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ایسا طریقہ کار اختیار کیا ہو جیسا کہ ہماری قیادت نے اختیار کیا، خصوصاً نائن الیون کے بعد بارہ سال ہونے کو آ رہے ہیں، بجائے یہ کہ ایسی حکمت عملی اپنائی جائے کہ جس سے دہشت گردوں کا قلع قمع ہو سکے، اس کے برعکس بہتر حکمت عملی کے فقدان کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ پیچیدہ ہوتا گیا۔ ویسے بھی کوئی بھی مسئلہ اس وقت ہی حل ہوسکتا ہے، جب اس مسئلے کی حقیقت کو تسلیم کیا جائے، ہم نے تو کبھی یہ تسلیم ہی نہیں کیا کہ دہشت گردی بھی ہمارا مسئلہ ہے۔

دوست ممالک سمیت پوری دنیا ہمیں باور کرواتی رہی کہ ہمارے یہاں دہشت گرد موجود ہیں، مگر اس کے جواب میں ہم فقط ’’انکار‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ بے نظیر بھٹو سمیت کئے سیاسی رہنما و کارکن دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے، مگر ہم انکار پر قائم رہے۔ حتیٰ کہ جی ایچ کیو، مہران بیس کراچی اور کامرہ پر ایک سے زائد دہشت گردی کی وارداتیں ہوئیں، مگر اس کے باوجود ہم دہشت گردی کے خلاف کوئی موثر اور واضح حکمت عملی بنانے میں سنجیدہ نہیں ہوئے، اسی کا نتیجہ کہ آج وزیر داخلہ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ قانون میں سقم ہونے کی بنا پر دہشت گرد عدالتوں سے رہا ہو جاتے ہیں، جس سے ان کے حوصلے بلند ہوتے ہیں۔

دہشت گردوں کی ہمت تو یہاں تک بڑھ جاتی ہے کہ مخصوص مکتبہ فکر کے لوگوں کو بسوں سے اتار کر ان کے مسلک کا تعین کرنے کے لئے شناختی کارڈ دیکھ کر انھیں سر عام گولیاں مار کر شہید کر دیتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ڈنگ ٹپاؤ مضحکہ خیز فیصلے کرنے کی بجائے سنجیدگی سے ایسے ٹھوس اقدامات کیے جائیں جن کی افادیت مسلمہ اور دیرپا ہو اور جو مکمل طور پر نتیجہ خیز ثابت ہوسکیں۔ عوام تو پہلے سے ہی شدید مشکلات کا شکار ہیں، نادر شاہی فیصلوں سے ان کی زندگی کو عذاب ناک نہ بنایا جائے۔
خبر کا کوڈ : 213683
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش